یاد رفتگان عزیز قیسی

میرا کالم              مجتبیٰ حسین

حکیم مومن خاں مومنؔ سے لے کر جوشؔ ملیح آبادی تک، اور جوشؔ ملیح آبادی سے لے کر عزیز قیسیؔ تک ’’اردو کی پٹھان  شاعری ‘‘ نہ صرف ایک لمبی داستان کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ اپنی انفرادیت بھی۔ کسی نے آج تک ’’اردو کی پٹھان شاعری‘‘ کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی جسارت نہیں کی، کیونکہ پٹھانوں کے معاملے میں مداخلت کرنے کیلئے بڑی دلیری اور جرات مندی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ میری رائے (جو ضروری نہیں کہ ناقص ہی ہو) یہ ہے کہ پٹھان شاعروں نے ہی اردو شاعری کو صحیح معنوں میں مردانگی ، بے باکی اور حق گوئی کا لب و لہجہ عطا کیا ہے ۔ ورنہ دوسرے شاعروں نے تو شاعری کو اتنی نزاکتوں اور چونچلوں سے آشنا کیا تھا کہ اگر یہ صورتحال کچھ عرصہ اور جاری رہتی تو اندیشہ تھا کہ شاعری کی جنس تبدیل ہوجاتی ۔
پٹھان پہلے تو شعر نہیں کہتا بلکہ شعر کہنا تو بڑی بات ہے ، شعر کو سمجھ بھی نہیں سکتا لیکن اگر کوئی پٹھان غلطی سے شعر کہنے لگ جائے تو پھر بڑے بڑے شاعر اُس کے آگے پانی بھرنے لگ جاتے ہیں کیونکہ پٹھان ہمیشہ اپنے پیشے سے مخلص ہوتا ہے ۔ چاہے یہ پیشہ سود وصول کرنے کا ہو یا شعر سناکر داد وصول کرنے کا ۔ یہی وجہ ہے کہ عزیز قیسی جب کسی شعر پر داد وصول کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ سود وصول کر رہے ہوں۔ اصل چاہے ادا ہو یا نہ ہو، سود تو پٹھان کو بہر طور پر ملنا ہی چاہئے ۔
میں عزیز قیسی کے پٹھان ہونے پر اصرار اس لئے کر رہا ہوں کہ ان کی شخصیت اور شاعری میں وہ ساری صفات موجود ہیں جو پٹھانوں کا طرۂ امتیاز رہ چکی ہیں۔ راست بازی ، بے باکی ، نڈرپن ، ایمان داری ، خودداری ، مردانگی ، وفاداری، وسیع القلبی ، بیوقوفی کی حدوں کو چھوتی ہوئی سادگی ، جان کو ہتھیلی پر رکھنے کا انداز، دنیا داری سے بے نیازی ، ہر لمحہ قربانیوں کیلئے آمادگی ، دوست نوازی، عاقبت نااندیشی ، بڑی سے بڑی خطا کو درگزر کرنے کی صفت اور چھو ٹی سے چھو ٹی خطا پر بڑی سے بڑی لڑائی لڑنے کا حوصلہ۔
عزیز قیسیؔ کی تنہا ذات میں اتنی ساری صفات جمع ہوگئی ہیں کہ کبھی کبھی میں انہیں دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ آخر وہ کس طرح اتنی ساری اعلیٰ صفات کا بوجھ اپنے دو کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ اگرچہ وہ کافی قوی اور طاقتور واقع ہوئے ہیں لیکن اتنی ساری صفات کا بوجھ اُٹھانے کیلئے تو آدمی کا ’’ہیوی ویٹ چمپین ‘‘ ہونا نہایت ضروری ہے۔ میں شخصی طور پر ایک آدمی میں دو یا تین اعلیٰ صفات کو بہت زیادہ سمجھتا ہوں کیونکہ آدمی کی صفت سماجی رشتوں میں برتے جانے کے بعد بالآخر ایک ذ مہ داری بن جاتی ہے ۔ اگر میں خدانخواستہ ایماندار ہوں تو مجھ پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ میں سماج کے ہر گوشہ میں ایماندار ہی برقرار ہوں۔ آپ ہی سوچئے ، عزیز قیسی ’’مجموعۂ صفات‘‘ بن کر کس مشکل میں پھنس گئے ہیں!
عزیز قیسی دیکھنے کی چیز نہیں بلکہ سمجھنے اور پرکھنے کی چیز ہیں، چنانچہ اپنی حد تک میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انہیں پہلے دیکھنے اور بعد میں انہیں سمجھنے کے درمیان کافی مہلت لے لی بلکہ اتنی مہلت میں تو آدمی کسی کو سمجھ کر پھر سے اپنی سمجھ کی تصحیح بھی کرلیتا ہے ۔

عزیز قیسی کو میں نے سب سے پہلے 1952 ء میں دیکھا تھا ۔ جب میں نوجوان  تھا اور انٹرمیڈیٹ کے پہلے سال میں پڑھتا تھا ۔ میں گلبرگہ کالج کی بزم اردو کا جنرل سکریٹری تھا اور میں نے اردو شاعری کو سمجھے بغیر گلبرگہ میں ایک کل ہند مشاعرہ کا اہتمام کر ڈالا تھا ۔ بمبئی سے مجروح سلطان پوری ، کیفی اعظمی اور ساحر لدھیانوی گلبرگہ آئے تھے اور حیدرآباد سے شاہد صدیقی مرحوم ، سلیمان اریب مرحوم اور لطیفؔساجد مرحوم کے علاوہ شاعروں کی پوری ایک فوج ظفر موج چلی آئی تھی ۔ اس فوج میں عزیز قیسیؔ بھی شامل تھے بلکہ اپنے ڈیل ڈول کے اعتبار سے وہی اس فوج کے سالار نظر آرہے تھے ۔ اریب مرحوم کی شخصیت کچھ ایسی دلآویز اور پرکشش تھی کہ آدھی رات کے بعد جب حیدرآبادی شعراء گلبرگہ کے اسٹیشن پر اترے تو میں نے وقت کا لحاظ کئے بغیر فوراً اپنی آٹو گراف بک اریب کے آگے بڑھادی۔ اریب نے بڑی پیاری مسکراہٹ کے ساتھ آٹو گراف بک پر دستخط کئے ۔ پھر میں نے دو ایک اور شاعروں کے آٹو گراف لئے۔
مجھے پتہ نہیں تھا کہ اس جم غفیر میں کون شاعر ہے ، کون شاعر نہیں ۔ ایک لمحہ کیلئے میری نظر عزیز قیسی پر پڑی۔ میں نے ان کی پتھریلی شخصیت کا جائزہ لے کر سوچا کہ یہ شخص ہرگز شاعر نہیں ہوسکتا۔ صرف شیروانی پہن لینے سے بھلا کوئی شاعر بن جاتا ہے لہذا میں نے اپنی آٹو گراف بک کو عزیز قیسی کی زد میں آنے نہ دیا ۔ دوسرے دن میرے ایک ساتھی نے عزیز قیسی کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
’’یار ! یہ صاحب جو اپنے خد و خال اور وضع قطع سے کوئی پہلوان  نظر آتے ہیں، کیا یہ بھی شاعر ہیں؟ میرا خیال ہے کہ میں نے انہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے ۔ کہاں دیکھا ہے ۔ یہ یاد نہیں پڑتا‘‘۔
میں نے فوراً کہا ’’ضرور دیکھا ہوگا ، ہر پولیس تھانہ میں اُن کی تصویر لگی رہتی ہے‘‘۔ ہم دونوں ہنس پڑے۔
میرے ساتھی نے کہا’’ارے یہ کیا خاک شاعری کریں گے ۔ شاعری پہلوانوں کا شیوہ نہیں ہوتی۔ ڈنڈپیلنے اور شعر کہنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ یہ تو بالکل پتھر کا مجسمہ ہیںاور وہ بھی ان فنشڈ(Unfinished)  مجسمہ۔ میرا بس چلے تو میں انہیں اجنتا کے کسی غار میں نصب کر آؤں‘‘۔
اتنے میں عزیز قیسی ہم لوگوں کی طرف آنے لگے اور ہم ’’پتھر کے آدمی‘‘ کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھ کر وہاں سے ہٹ گئے۔
پتہ نہیں کیا بات تھی کہ میرا جی عزیز قیسی سے ملنے یا بات کرنے کو نہیں چاہتا تھا ۔ رات میں مشاعرہ ہوا۔ عزیز قیسی نے بڑی خوبصورت نظم سنائی لیکن ان کی خوبصورت نظم سننے کے بعد بھی ان کی شحصیت کا پتھر جو میرے اور ان کے درمیان حائل تھا، پگھل نہ سکا ۔ میں عزیز قیسی کے سوا سارے شعراء کے آٹو گراف لیناچاہتا تھا مگر میری بدقسمتی دیکھئے کہ میری آٹو گراف بک عزیز قیسی کے دستخط سے محفوظ نہ رہ سکی ۔ وہ مجروح سلطان پوری کے برابر کھڑے طلباء کو آٹو گراف دے رہے تھے ۔ مجروح کے اطراف طلباء کا ہجوم تھا ۔ میں مجروح کے آٹو گراف لینے کی غرض سے اپنی آٹو گراف بک کھولے کھڑا تھا کہ اچانک عزیز قیسی نے اپنا پتھریلا ہاتھ بڑھاکر میرے ہاتھ سے آٹو گراف بک چھین لی اور اس پر دستخط کردیئے۔
عزیز قیسی اور مجروحؔ دونوں کے مداح اس قدر پاس پاس کھڑے تھے کہ عزیز قیسی کے مداحوں کی آٹو گراف بکس پر مجروح دستخط کر رہے تھے اور مجروح کے مداحوں کی آٹو گراف بکس پر عزیز قیسی دستخط کر رہے تھے ۔ میں چونکہ مجروح کا مداح تھا، اس لئے عزیز قیسی نے میری آٹو گراف بک پر دستخط کردیئے ۔ میں تلملاکر رہ گیا ۔ میں انہیں منع بھی نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ میں نے یہ سوچا کہ بعد میں آٹو گراف بک سے ایک ورق نکالا بھی تو جاسکتا ہے ۔ عزیز قیسی نے بڑے اہتمام سے ایک نصیحت آمیز شعر لکھ کر مجھے آٹو گراف بک یوں واپس کردی جیسے میں سچ مچ ان کی نصیحت پرعمل کروں گا ۔ میں جل بھن کر رہ گیا ۔ پھر عزیز قیسی مشاعرہ پڑھ کرحیدرآباد واپس چلے گئے ۔ میں بھی دو سال بعدان کے تعاقب میں حیدرآباد چلا آیا۔ حیدرآباد میں عزیز قیسی جگہ جگہ نظر آنے لگے ، مشاعروں میں ، ادبی محفلوں میں ، سماجی تقریبوں میں، سیاسی ہنگاموں میں اور تہذیبی جلسوں میں ۔ وہ کبھی کبھی مجھے Omni Present سی شئے محسوس ہوتے۔

ان دنوں اریبؔ مرحوم کے اطراف نوجوان اور ذہین ادیبوں اور شعراء کا ایک حلقہ سا بن گیا تھا ۔ عزیز قیسی ، اقبال متین ، وحید اختر ، مغنی تبسم ، شاذ تمکنت ، راشد آذر ، سردار سلیم ، عوض سعید وغیرہ اس حلقے میں شامل تھے۔ ان سب میں عزیز قیسی زیادہ نمایاں تھے ۔ کچھ تو اپنی شاعری کی وجہ سے اور کچھ اپنے ڈ یل ڈول کی وجہ سے۔ یہ سب ’’صبا‘‘ کے دفتر پر یوں جمع ہوتے جیسے یہ’’صبا‘‘ کے دفتر میں باضابطہ ملازم ہوں۔ گھنٹوں بحثیں کرتے اور اپنی ناتمام بحث کو کسی نتیجہ پر پہنچانے کیلئے شام ہوتے ہی ’’اورینٹ ہوٹل‘‘ میں جمع ہوجاتے ۔ ’’اورینٹ ہوٹل‘‘ نے ایک زمانہ میں وہ کارنامہ انجام دیا جو شاید کسی بڑی ادبی انجمن نے بھی انجام نہ دیا ہو۔ اس ہوٹل میں چاہے کچھ ملتا ہو یا نہ مل تا ہو، مگر شعراء کو سامعین بڑی آسانی سے مل جایا کرتے تھے ۔ ہر شام یہاں ایک اچھی خاصی غیر رسمی ادبی محفل منعقد ہوجایا کرتی تھی ۔ مخدوم اور شاہد صدیقی بھی اکثر اورینٹ کی محفلوں میں شامل رہتے۔ میں بھی اپنے کالج کے ساتھیوں کے ہمراہ یہاں پابندی سے آیا کرتا تھا۔ عزیز قیسی کو میں ہر شام اسی ہوٹل میں دیکھتا مگر کبھی ملاقات کی نوبت نہیں آئی ۔ میرے ساتھی سب کے سب کھلنڈرے تھے ۔ شاعری سے ہمارا تعلق صرف اتنا تھا کہ ہم مشاعروں میں بڑے اہتمام کے ساتھ ہوٹنگ کیا کرتے تھے ۔ عزیز قیسی جب ہوٹل میں داخل ہوتے تو ہم لوگ ان کی مخصوص چال پر تبصرے کیا کرتے تھے۔
کوئی کہتا ’’یار ! یہ شاعر صاحب تو ا پنے دائیں پاؤں سے زیادہ چلتے ہیں اور اپنے بائیں پاؤں کو بالکل Spare part یا اسٹیپنی کے طورپر استعمال کرتے ہیں‘‘۔
دوسرا کہتا : ’’یہ اس لئے ہے کہ یہ شاعر صاحب بائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اسی لئے اپنے بائیں پاؤں کے لئے بڑا Soft Corner رکھتے ہیں‘‘۔
تیسرا کہتا ’’یہ کیوں نہیں کہتے کہ ان کا بایاں پاؤں بالکل بے کار ہے‘‘۔
ہم لوگ جب کسی بات پر زور دار قہقہہ لگاتے تو شعراء بڑی قہر آلود نگاہوں کے ساتھ ہمیں دیکھتے۔ پھر اسی اورینٹ ہوٹل کے توسط سے عزیز قیسی سے صرف دعا سلام کی حد تک میرے مراسم قائم ہوئے۔
بیس برس پہلے کے حیدرآباد میں کوئی مشاعرہ عزیز قیسی کے بغیر منعقد نہیں ہوسکتا تھا ۔ انہیں خوب داد ملتی لیکن اگر کبھی ان پر ہوٹنگ ہوجاتی تو وہ اصلیت پر اتر آتے، یعنی بالکل پٹھان بن جاتے اور سامعین سے الجھ پڑتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مشاعرہ میں جب سامعین انہیں سننا نہیں چاہتے تھے تو وہ سامعین کے سامنے یوں ڈٹ کر کھڑے ہوگئے جیسے عبدالرزاق لاری گولکنڈہ کے قلعہ کے دروازہ پر اورنگ زیب کی فوجوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہوگیا تھا ۔ عزیز قیسی پوری نظم سنائے بغیر مائیکرو فون کے سامنے سے نہ ہٹے۔

حیدرآباد کے ادبی حلقوں میں ان کی نظموں کا خوب چرچہ تھا ۔ ان کی زود نویسی کے بھی کئی قصے مشہور تھے ۔ لوگ کہتے تھے کہ عزیز قیسی گھر سے دفتر پہنچنے تک ایک طویل نظم کہہ ڈالتے ہیںاور دفتر سے گھر واپس ہونے تک ان کے ہاں ایک اور طویل نظم ہوجاتی ہے ۔ یوں گویا وہ فی یوم دو نظموں کے حساب سے شاعری کر رہے تھے ۔ ان دنوں وہ عدالت میں کلرک کی حیثیت سے ملازم تھے مگر اس ملازمت سے وہ کبھی مطمئن نہ رہے۔ان کا خیال تھا کہ عدالت ہرایک کے ساتھ انصاف کرسکتی ہے لیکن وہ ان کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتی۔ لہذا ایک دن ملازمت کو خیر باد کہہ کر بڑی خاموشی سے بمبئی  چلے گئے ۔ پتہ چلا کہ وہ بمبئی میں فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ عزیز قیسی سے میرے مراسم ان کے بمبئی جانے کے بعد ہی استوار ہوئے ۔ کئی بار بمبئی میں ان سے میری ملاقات ہوئی ۔ ان کے حُسن سلوک ، ان کی کشادہ دلی ، دوست نوازی اور خوش مزاجی نے مجھے بے حد متاثر کیا ۔ اب میں اکثر نادم رہتا ہوں کہ آخر حیدرآباد میں، میں ان سے اتنی دور کیوں رہا اور ان کے بمبئی جانے کے بعد ان سے قریب کیوں ہوگیا۔             (1970 ء)
(دوسری قسط آئندہ اتوار کو)