یاد رفتگان عزیز قیسی

میرا کالم            مجتبیٰ حسین
مجھے ان کی راست بازی اور بے باکی بہت پسند ہے ۔ سچ بات کو وہ بھرے مجمع میں بھی کہنے سے نہیں چوکتے۔ بمبئی میں ایک مشاعرہ ہورہا تھا جس کی کارروائی مہاراشٹرا کے ایک وزیر چلا رہے تھے ۔ وزیر صاحب نے ایک شاعر کی  غیر ضروری تعریف کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کے کلام میں زبان کی ایک غلطی بھی نہیں نکالی جاسکتی ۔ اس اعلان کے بعد شاعر موصوف نے مطلع سنایا تو عزیز قیسی جھومتے ہوئے اُٹھے اور بآواز بلند بولے:
’’حضرات ! مطلع بحر سے خارج ہے ۔اس مصرعہ کو یوں پڑھا جائے ‘‘۔ یہ کہہ کر عزیز قیسی نے مصرعہ میں تصحیح کردی۔
وزیر صاحب آگ بگولہ ہوگئے اور بولے’’قیسی صاحب ! آپ کو شعر میں تصحیح کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا‘‘۔
عزیز قیسی نے کہا ۔ ’’مگر میں نے تو تصحیح کردی ہے‘‘۔
وزیر صاحب بولے’’میں آپ سے بحث کرنا نہیں چاہتا۔ آپ اس وقت حالتِ نشہ میں ہیں‘‘۔
عزیز قیسی نے اپنی بھاری بھرکم آواز کو مزید بلند کرتے ہوئے کہا :
’’جناب والا! اس وقت تو میں صرف شراب کے نشہ میں ڈوبا ہوا ہوں جو چند گھنٹوں بعد اُترجائے گا مگر آپ تو اقتدار کے نشہ میں بول رہے ہیں جو خود سے نہیں اترتا بلکہ اسے اُتارنا پڑتا ہے‘‘۔
عزیز قیسی کے اس جملہ کو سن کر وزیر صاحب کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ کوئی جواب نہ بن پڑا تو خاموش ہوگئے ۔ پتہ نہیں عزیز قیسی کی راست بازی نے انہیں کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ نقصان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فلم انڈسٹری سے ان کی تیرہ سالہ وابستگی کے باوجود وہ آج تک عدالت کے کلرک سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔ فلم انڈسٹری میں شاعر کو شعر کم کہنا پڑتا ہے اور مکھن زیادہ لگانا پڑتا ہے اور عزیز قیسی کے پاس مکھن مطلق نہیں ہے۔ وہ اتنی بلند انا رکھتے ہیں کہ اگر کبھی وہ خود اپنی انا کو دیکھنا چاہیں تو شاید ان کی گردن میں درد ہونے لگے۔ فلم انڈسٹری میں آدمی کو سب سے پہلے اپنی انا کا سودا کرنا پڑتا ہے اور عزیز قیسی نے آج تک اپنی انا کو بازار کی چیز بننے نہیں دیا ہے۔

پھر ان کی فطری سادگی بھی انہیں قدم قدم پر نقصان پہنچاتی ہے ۔ سنا ہے کہ ایک بار انہوں نے ایک فلم کیلئے گیت لکھے اورا ن گیتوں کو اپنے ایک دوست کے ذریعہ پروڈیوسر کے پاس روانہ کردیا ۔ دوست کی نیّت بدل گئی۔ اس نے پروڈیوسر سے کہا کہ یہ گیت اس نے خود لکھے ہیں۔ عزیز قیسی کو اس بات کا پتہ نہ چل سکا ۔ جب ان گیتوں کی ریکارڈنگ کمل ہوگئی تو عزیز قیسیؔ کے علم میں یہ بات آئی کہ ان کے گیتوں پر ان کے دوست نے قبضہ کرلیا ہے ۔ آگ بگولہ ہوگئے ۔ پٹھان کا غصہ توآپ جانتے ہی ہیں۔ اسی اثناء میں دوست کو بھی پتہ چل گیا کہ عزیز قیسیؔ سخت غصے میں ہیں مگر وہ بھی پٹھان کی فطرت سے واقف تھا ۔ لہذا وہ عزیز قیسی کے پاس پہنچا اور کچھ کہے بغیر اظہار ندامت کے طور پر اپنا سر ان کے قدموں میں رکھ دیا ۔ عزیز قیسی کے غصہ پر ان کا جذبہ رحم غالب آگیا ۔ اسی وقت دوست کو گلے لگاکر نہ صرف معاف کردیا بلکہ اس کے اعزاز میں اچھی خاصی ضیافت بھی کردی ۔ ضیافت کے بعد جب وہ جانے لگا تو اس نے جاتے جاتے پوچھا ’’قیسی بھائی ! یہ بتائیے کہ اگلی فلم کے گیت لینے کب آؤں؟ ‘‘
عزیز قیسی نے کہا ’’کسی وقت بھی آجاؤ، گھر تمہارا ہے‘‘۔
وہ بڑے دوست نواز آدمی ہیں۔ بالخصوص حیدرآباد سے جب بھی کوئی بمبئی جاتا ہے تو وہ اسے اپنے گھر بلائے بغیر جانے نہیں دیتے ۔ پہلی بار جب میں بمبئی گیا تو انہوں نے کہا ’’کل دوپہر کا کھانا میرے گھر کھانا‘‘ میں نے کہا : ’’مجھے آپ کے گھر کا پتہ نہیں معلوم۔‘‘ بولے ’’میں خود آکر تمہیں لے جاؤں گا‘‘ ۔ دوسرے دن آئے تو میرے کمرے میں کچھ احباب بھی موجود تھے ۔ میں نے احباب سے معذرت چاہی اور عزیز قیسی کے ساتھ چل پڑا۔ طئے یہ ہوا کہ ہم چرچ گیٹ کے اسٹیشن سے لوکل ٹرین کے ذریعہ چلیں گے ۔ چرچ گیٹ اسٹیشن پر پہنچے تو ایک ٹرین گورے گاؤں کی سمت جارہی تھی ۔ عزیز قیسیؔ نے اچانک بھاگتے ہوئے کہا ’’جلدی چلو ، بھاگ کر ٹرین میں سوار ہوجاؤ‘‘۔ یہ کہتے ہوئے وہ چلتی ہوئی ٹرین میں سوار ہوگئے ۔ میں الیکٹرک ٹرین کی رفتار کا ساتھ نہ دے سکا اور پلیٹ فارم پر کھڑا رہ گیا۔ عزیز قیسیؔ آن کی آن میں بہت دور نکل گئے تھے ۔ میں مایوس ہوکر پھر اپنے کمرہ پر واپس پہنچا۔ میرے احباب نے مجھے حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا’’تم تو قیسی بھائی کے گھر دوپہر کے کھانے پر مدعو تھے ، واپس کیوں آگئے؟ ‘‘
میں نے رونی صورت بناکر کہا’’قیسی بھائی تو چلتی ٹرین میں سوار ہوکر چلے گئے اور میں پلیٹ فارم پر کھڑا رہ گیا‘‘۔

اس پر میرے ایک دوست نے کہا ’’ہم یہ بات پہلے سے جانتے تھے مگر ہم تمہیں بتلانا نہیں چاہتے تھے ۔ وہ ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ اسی لئے تو ہم لوگ ان کے یہاں کھانے پر نہیں چلے‘‘ ۔
دوسرے دن میں حیدرآباد واپس آگیا ۔ سوچتا رہا کہ شاید وہ ایسا ہی کرتے ہوں گے ۔ کچھ عرصہ بعد میں پھر بمبئی گیا تو انہوں نے پھر مجھے کھانے کی دعوت دی۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔ مگر میں پچھلی پشیمانی کا بدلہ چکانا چاہتا تھا ۔ لہذا فوراً میں نے دعوت قبول کرلی ۔ بولے’’چلو چرچ گیٹ کے اسٹیشن سے ٹرین میں بیٹھ کرچلیں گے‘‘۔
میں نے کہا ’’ٹرین میں بیٹھ کر ہرگز نہیں چلوں گا ، اگر آپ مجھے لیجانا ہی چاہتے ہیں تو بس میں لے جا ئیں‘‘۔
وہ اس بات کیلئے آمادہ ہوگئے ۔ میں جی ہی جی میں خوش ہوتا رہا کہ اب قیسی بھائی بچ کر نہیں جاسکتے۔ اب تو انہیں گھر جاکر دعوت کا اہتمام کرنا ہی پڑے گا۔ لمبے سفر کے بعد گھر پہنچے تو میں حیران رہ گیا کہ وہاں سچ مچ دعوت کا اہتمام موجود تھا بلکہ بہت سے مہمان بھی موجود تھے۔
میں نے دبی زبان میں پوچھا’’کیا سچ مچ آپ نے گزشتہ سال بھی میرے لئے دعوت کا اہتمام کیا تھا یا صرف چلتی ٹرین کا سہارا لے کر آپ نے مجھے ٹرخا دیا تھا؟‘‘
بولے’’یہ اصل میں گزشتہ سال کی دعوت ہی ہے۔ میں آج تمہیں ایک سال پہلے کا کھانا کھلانے والا ہوں، پھر تم ڈر کر پلیٹ فارم پر کیوں کھڑے رہ گئے تھے؟ ‘‘

عزیز قیسی بڑے خوش مزاج اور ظریف الطبع آدمی واقع ہوئے ہیں۔ دوستوں کی محفل میں ایسے فقرے چست کرتے ہیںکہ ساری محفل زعفران زار بن جاتی ہے ۔ اپنی تیز ذہانت کے ذریعہ بڑی سے بڑی بات کی اہمیت کو کم کردیتے ہیں اور چھوٹی سے چھوٹی بات کی اہمیت کو بڑھا دیتے ہیں ۔
عزیز قیسی کی میں اس لئے بھی عزت کرتا ہوں کہ اگر کوئی ان کا مذاق اڑائے تو وہ اس پر خفا ہونے کے بجائے اس سے نہ صرف لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس مذاق میں شامل کرلیتے ہیں۔ اریب مرحوم کے بعد مجھے یہ صفت صرف عزیز قیسی میں نظر آئی ۔ ایک بار انہوں نے فائن آرٹس اکیڈیمی کے مشہور فنکار حمایت اللہ سے پوچھا کہ ’’تم میرے مجموعہ کلام ’آئینہ در آئینہ‘ کے کتنے نسخے فروخت کرواسکوگے؟‘‘حمایت اللہ نے اپنے چہرے پر مایوسی کے آثار پیدا کرتے ہوئے کہا : ’’آپ کی کتاب کو بیچنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ اس کیلئے تو دو آدمی درکار ہوں گے ‘‘۔ عزیز قیسی نے پوچھا ’’وہ کس لئے ؟ ‘‘حمایت اللہ بولے ’’پہلا آدمی آپ کا مجموعہ کلام بیچتا ہوا آگے آگے جائے گا اور اس کے دس منٹ بعد اس کے پیچھے پیچھے ایک آدمی کو لغت بیچنے کیلئے بھیجنا پڑے گا کیونکہ لغت کی مدد کے بغیر آپ کا کلام کسی کی سمجھ میں نہیں آتا۔ صرف آپ کا مجموعہ کلام بیچنا ہو تو کوئی بات نہیں تھی۔ لغت بیچنے کی  ذمہ داری میں قبول نہیں کرسکتا‘‘۔ عزیز قیسی حمایت اللہ کی اس بات سے بہت محظوظ ہوئے اور بعد میں اپنے ہر ایک دوست کو یہ لطیفہ سنایا۔
ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ا پنے سے چھوٹوں کا بڑا خیال رکھتے ہیں بلکہ یوں کہئے کہ وہ چھوٹوں کا احترام کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے مجموعہ کلام کا دیباچہ وحید اختر سے لکھوایا جو شاعری کے میدان میں ان سے بہت جونیئر ہیں۔ چھوٹوں کی صلاحیت کی قدر کرنے میں وہ کبھی پیچھے نہیں رہتے۔ اگرچہ وہ مجھ سے بہت سینئر ہیں لیکن میری ہمت افزائی میں انہوں نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ۔ اُن کے ایک دوست ہندی کا رسالہ نکالتے ہیں۔ وہ میرے مداح ہیں اور اپنے رسالہ کے ہر شمارے میںمیرا کوئی نہ کوئی مضمون شامل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے عزیز قیسی پر یہ ذمہ داری عائد کر رکھی ہے کہ جب بھی میرا کوئی مضمون اردو میں چھپے تو وہ اسے ہندی میں ڈکٹیٹ کروائیں۔ ایک دن عزیز قیسی مجھ سے کہنے لگے’’تم اردو میں مضامین کیوں لکھتے ہو۔ تمہارے مضامین پڑھ کر میری اردو خراب ہونے لگی ہے ۔ تم اب راست ہندی کے ادیب بن جاؤ تو اردو پر بڑا احسان ہوگا‘‘۔

میں عزیز قیسی کا بڑا احترام کرتا ہوں کیونکہ وہ بڑا دردمند اور حسّاس دل رکھتے ہیں۔ اٹھارہ سال پہلے میں نے انہیں دیکھ کر کہا تھا’’یہ شخص تو بالکل پتھر کا مجسمہ ہے اور وہ بھی Unfinished مجسمہ ‘‘۔ اب بھی مجھے عزیز قیسی کبھی کبھی پتھر کے مجسمہ کی طرح نظر آتے ہیںلیکن میں جانتا ہوں کہ یہ مجسمہ اندر سے ترشا ہوا ہے ۔ باہر سے نہیں !
میں نے اپنے بچپن میں ایک قدیم یونانی کہانی پڑھی تھی کہ پتھر کا ایک مجسمہ شہر کے چوک میں عرصہ سے گم صم کھڑا تھا۔ وہ اس کے پاس سے گزرنے والوں کی سرگرمیوں کا چپ چاپ جائزہ لیا کرتا تھا مگر وہ نہ مسکراسکتا تھا اور نہ روسکتا تھا ۔ ایک دن ایک بڑھیا کا اکلوتا بیٹا مرگیا ۔ بڑھیا پاگل ہوگئی اور پتھر کے اس مجسمہ سے لپٹ کر کہنے لگی:
’’بیٹا ! کچھ تو بولو ، خاموش کیوں ہو؟‘‘
اور بڑھیا کے اس پاگل پن کا جواب دینے کیلئے پتھر کے مجسمہ کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔
مجھے اس غیر فطری کہانی پر ہنسی آئی تھی ۔ آخر پتھر کا آدمی کس طرح رو سکتا ہے مگر اب عزیز قیسی کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہ جھوٹی کہانی بالکل سچی معلوم ہوتی ہے۔ میں جب عزیز قیسی کی شاعری پڑھتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے اس پتھر کے آدمی سے دور جدید کی کتنی ہی نامراد و ناآسودہ تمنائیں لپٹ گئی ہیں اور پتھر کے آدمی سے کہہ رہی ہیں: ’’کچھ تو بولو خاموش کیوں ہو؟‘‘
اور پتھر کا آدمی اپنی بڑی بڑی پتھریلی آنکھوں سے چپ چاپ آنسو ٹپکائے چلا جارہا ہے اور ’’آئینہ در آئینہ ‘‘ ان آنسوؤں کا عکس دور دور تک پھیل کر روشن ہوتا چلا  جارہا ہے !
(1970 ء)