یاد رفتگان شاذ تمکنت

میرا کالم            مجتبیٰ حسین
18 اگست 1985 ء کو اتوار کی چھٹی تھی۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ میں ایتواری قیلولہ کیلئے بستر پر لیٹا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ ’’ملاپ‘‘ سے سخی حسن صدیقی نے رُکتے سہمتے کہا ’’آپ آرام تو نہیں کر رہے تھے ۔ آپ کو ایک برُی خبر سنانی ہے۔ ابھی پی ٹی آئی سے اطلاع آئی ہے کہ شاذؔ تمکنت کا انتقال ہوگیا‘‘۔
میں نے سخیؔ کو کوئی جواب نہیں دیا اور فون کا ریسیور رکھ دیا ۔ میں نے کھڑکی میں سے باہر جھانک کر دیکھا۔ موسلادھار بارش ہورہی تھی ۔ قطب مینارکی دو اُوپری منزلیں ، جو میری کھڑی سے صاف نظر آتی ہیں، تیز بارش کی وجہ سے دُھندلا گئی تھیں۔ میں نے برستی برسات میں ان دونوں منزلوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر وہ دکھائی نہ دیں۔ کھڑکی کے روز مرہ منظر میں سے اچانک قطب مینار کے غائب ہوجانے سے مجھے عجیب سی بے چینی ہونے لگی ۔ میں نے سوچا کہ آج یہ قطب مینار کو اچانک کیا ہوگیا ۔ اچھا بھلا یہیں تو تھا ۔ اب دکھائی نہیں دیتا۔ کہاں گیا ہوگا ؟ اور ہاں سخیؔ نے کیا کہا تھا ۔’’شاذؔ کا انتقال ہوگیا‘‘۔ تو کیا وہ اب تک زندہ تھا؟ چلئے شاذؔ کے بارے میں بعد میں سوچتے ہیں ۔ پہلے قطب مینار  کا تو فیصلہ ہوجائے ۔ مجھے اس کی زیادہ فکر ہے ۔ یہ تو میری کھڑکی کے منظر کا لازمی جُز ہے ۔ یوں بھی سماجی تعلقات کے منظر نامہ میں شاذؔ میرے لئے ایسا تو نہیں تھا کہ ادھر کمرے کی کھڑکی کھُلی اوروہ اُدھر نظر آگیا ۔ یہ ضرور ہے کہ سال میں دو تین بار اس سے ملاقاتیں ہوجاتی تھیں۔ اتنے میں بارش کا زور تھما تو قطب مینار کی دونوں منزلیں مجھے صاف نظر آنے لگیں۔ قطب مینار کی بازیافت پر میں نے اطمینان کا لمبا سانس لیا ۔ پھر سوچنے لگا۔ اچھا تو میاں شاذؔ تمکنت چل بسے ۔ مجھے اُس سے یہی اُمید تھی۔

ٹھیک ایک مہینہ پہلے یہی اٹھارہ تاریخ تھی اور وقت بھی یہی تھا جب میں حیدرآباد میں شاذؔ سے ملنے اس کے گھر گیا تھا۔ میں اس سال کے شروع میں 8 فروری کو بھی اس سے ملا تھا۔ کئی دن بے ہوش رہنے اور موت سے بھرپور جنگ کرنے کے بعد وہ تھکا ماندہ بستر پر پڑا تھا۔ نقاہت اور کمزوری اس کے روئیں روئیں سے عیاں تھی۔ میں کچھ دیر بیٹھ کر وہاں سے چلا آیا تھا لیکن اس بار میں نے گھر پر آواز لگائی تو شاذؔ تمکنت خود باہر نکل آیا ۔ مجھے دیکھتے ہی خوش ہوگیا ۔ کہنے لگا’’ارے مجوؔ میاں تم ! کب آئے ۔ کسی نے بتایا تھا کہ تم حیدرآباد آرہے ہو‘‘۔ ہم ڈرائینگ روم میں گئے تو دیکھا کہ بستر پر کاغذات بکھرے پڑے ہیں اور کچھ رسالے کچھ کتابیں سرہانے پڑی ہیں۔
میں نے کہا ’’یار شاذؔ ! تم نے پھر لکھنا پڑھنا شروع کردیا۔ اب تک جو لکھا ہے ، اس پر کون عمل کر رہا ہے جو تم پھر لکھنا چاہتے ہو‘‘۔
عادت کے مطابق اس نے ایک کمزور سا قہقہہ لگایا اور کہا ’’اپنے اگلے مجموعہ کلام کو ترتیب دے رہا ہوں۔ اس بار بہت خوبصورت چھاپنے کا ارادہ ہے اور ہاں ادبی ٹرسٹ سے مخدوم محی الدین پر میرے مقالہ کی اشاعت کی بات بھی چل رہی ہے‘‘۔
میں نے کہا ’’یار خدا کیلئے مجھ سے شعر و ادب کی بات نہ کرو۔ پہلے یہ بتاؤ تمہاری صحت کیسی ہے؟‘‘
بولا ’’ٹھیک ہی توہوں۔ تمہیں کیسا لگ رہا ہوں۔ تم چھ مہینے پہلے مجھے دیکھ گئے تھے۔ کچھ فرق تو ہے نا ؟ ‘‘
میں نے کہا ’’ہاں پہلے سے بہتر دکھائی دیتے ہو‘‘۔ بولا ’’کھانے پینے میں سخت پرہیز کرتا ہوں‘‘۔ میں نے کہا ’’اگر تم نے ابتداء میں ہی شعر و ادب ، ادیبوں اور شاعروں کی صحبت سے پرہیز کیا ہوتا تو اس وقت کھانے پینے میں پرہیز کرنے کی  نوبت نہ آتی‘‘۔ وہ پھر ہنسنے لگا۔
میں کوئی گھنٹہ بھر شاذؔ کے ساتھ رہا۔ اس نے مایوسی ، اداسی ، موت وغیرہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی بلکہ مجھ سے یہ بھی کہا کہ وہ اگست میں ایک مشاعرے میں شرکت کیلئے دہلی آنے کا منصوبہ بنارہا ہے ۔ میں نے بھی اسے دہلی آنے سے منع نہیں کیا۔ یہ نہیں کہا کہ اسے اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہئے کیونکہ بعض باتیں صرف اس لئے کہی جاتی ہیں کہ ان پر عمل نہ کیا جائے۔

شاذؔ کو اب یاد کرنے بیٹھا ہوں تو کم و بیش تیس برسوں کا عرصہ میرے سامنے پھیلا ہوا ہے ۔ دوستی کا ، بے تعلقی کا ، قربت کا اور دوری کا ۔ شاذؔ مجھ سے عمر میں دو تین برس بڑا تھا۔ یونیورسٹی میں بھی ہم دونوں کا کبھی ساتھ نہیں رہا۔ کیونکہ شاذؔ نے زیادہ تر ایوننگ کالجس میں ہی تعلیم حاصل کی ۔ شاذؔ سے 1955 ء اور 1956 ء کے آس پاس حیدرآباد کے مرحوم اورینٹ ہوٹل میں ملاقات ہوئی تھی ۔ حیدرآباد کے ادبی ماحول کا وہ سب سے زرین دور تھا۔ مخدوم محی الدین ، شاہد صدیقی، خورشید احمد جامی اور سلیمان اریب بقید حیات تھے۔ نئے شاعروں اور ادیبوں کی پوری ایک نسل ابھر رہی تھی بلکہ ابھر چکی تھی ۔ شاعروں میں عزیز قیسی ، وحید اختر ، شاذ تمکنت ، قاضی سلیم ، مغنی تبسم ، سکندر توفیق ، انور معظم، سعادت سعید اور راشد آذر اور ادیبوں میں اقبال متین ، جیلانی بانو ، نقی تنویر ، عوض سعید، عاتق شاہ ، آمنہ ابوالحسن، ظفر عالمگیر، وقار لطیف ، اکرام جاوید ، ابراہیم شفیق وغیرہ نمایاں تھے۔ ان میں سے اکثر کی شامیں اسی اورینٹ ہوٹل میں گزرتی تھیں۔ ادیبوں اور شاعروں کی ٹولی الگ جمتی تھی۔ یونیورسٹی کے چند بے فکرے اور کھلنڈرے نوجوانوںکی بیٹھک الگ جمتی تھی ۔ میرا  تعلق اسی مؤخر الذکر ٹولی سے تھا ۔ اس وقت تک ادب سے میرا براہِ راست کوئی تعلق پیدا نہیں ہوا تھا ۔ سارا وقت شور شرابے ، خوش گپیوں اور لطیفہ بازی میں بسر ہوتا تھا۔ شاذؔ سے میرے مراسم کی بنیاد پہلے پہل یہیں پڑی۔ یہ اور بات ہے کہ ان مراسم کی نوعیت ذرا مختلف تھی۔ شاذؔ بنیادی طور پر خود پسند ، خود بین و خود آراء ہونے کے ساتھ ساتھ سنجیدہ ، متین اور برد بار نوجوان تھا ۔ ملتا سب سے تھا لیکن جسے دوستی کہتے ہیں، وہ صرف چند لوگوں سے کرتا تھا ۔ اسے شہرت بھی بہت جلد مل گئی تھی اور وہ ہر دم اپنی شخصیت کو اس شہرت کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں لگا  رہتا تھا۔ وہ نہایت خوش لباس تھا ۔ اپنی چال ڈھال ، بات چیت ، وضع قطع ایسی رکھتا تھا کہ کسی کو یہ تعارف کرانے کی حاجت ہی پیش نہ آتی تھی کہ وہ شاعر ہے ۔ایسے سنجیدہ اور متین آدمی کی محفل میں بھلا ہم جیسوں کا کیسے گزر ہوسکتا تھا ۔ یوں بھی وہ اپنے اور ہم لوگوں کی محفل کے درمیان ایک شریفانہ فاصلہ قائم رکھنے کے دانستہ جتن کرتا تھا۔ جب ہماری ٹیبل سے بلند بانگ قہقہے بلند ہو تے تھے تو شاذؔ کے چہرے پر ایک عجیب سی ناگواری چھلکنے لگتی تھی ۔ اس نے ابتداء میں کبھی بھی مجھے قابل اعتنا نہیں سمجھا ۔ ہمیشہ مجھ سے دور رہنے کی کوشش کی مگر اورینٹ ہوٹل میں کبھی کبھی کوئی ایسا موقع بھی آجاتا تھا ، جب شاذؔ کو مجبوراً ہماری ٹیبل پر آ بیٹھنا پڑتا تھا۔ یہ لمحے اس کیلئے سخت آزمائش کے ہوتے تھے ۔ ایسی ہی ایک محفل کی یاد اب مجھے آرہی ہے ۔ شاذؔ کو کشمیر سے ایک مشاعرہ میں شرکت کیلئے بذریعہ طیارہ آنے کی دعوت دی گئی تھی اور منتظمین نے طیارہ کا ٹکٹ بھی روانہ کردیا تھا ۔ مجھے دن میں کسی دوست نے اس کی اطلاع دے دی تھی ۔ شام کو میں اورینٹ ہوٹل میں اپنے بے فکرے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ دور سے شاذؔ اپنے ہاتھ میں پلین کا ٹکٹ پکڑے آتا ہوا دکھائی دیا۔ میں نے فوراً اپنے دوستوں کو پابند کیا کہ اگر خدانخواستہ شاذؔ ہماری ٹیبل پر آجائے تو کشمیر کے مشاعرہ اور پلین کے ٹکٹ کی بات کوئی نہیں کرے گا۔ شاذؔ نے ادھر ادھر دیکھا کہ شاعروں اور ادیبوں کی ٹولی کا کوئی فرد اسے مل جائے ۔ وہاں کوئی نہیں تھا ۔ وہ ایک ادا کے ساتھ چلتا ہوا ، اپنے ہاتھ میں ٹکٹ کو لہراتا ہوا ، ہماری میز کی طرف چلا آیا ۔ پہلے تو اس نے ٹیبل کے بیچوں بیچ پلین کے ٹکٹ کو رکھا اور ہم لوگوں کا حال پوچھنے لگا ۔ ادھر ادھر کی بہت سی باتیں کیں۔ پلین کے ٹکٹ کو دو ایک بار اُٹھا کر پھر ٹیبل پر رکھا ۔ مگر کسی نے ٹکٹ کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا ۔ جب ہوٹل کا بیرا پانی کا گلاس  ٹیبل پر رکھنے لگا تو شاذؔ نے بیرے کو ٹوکتے ہوئے کہا ’’میاں ذرا احتیاط سے پانی رکھنا، یہاں پلین کا ٹکٹ رکھا ہے ‘‘۔ ہم لوگ تب بھی خاموش رہے ۔ دوسری بار جب بیرا چائے کی پیالیاں ٹیبل پر رکھنے لگا تو شاذؔ نے پھر ایک بار اسے ٹوکا ’’میاں ! چائے کی پیالیاں ذرا احتیاط سے رکھنا۔ یہاں پلین کا ٹکٹ رکھا ہے‘‘۔ ہمارے منہ تب بھی بند رہے ، مگر اسی اثناء میں برابر کی ٹیبل پر سوشلسٹ پارٹی کے لیڈر گوسوامی نے ، جو اپنے پرزور قہقہے کے لئے بدنام تھے ، کسی بات پر زور دار قہقہہ لگایا تو میں نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا ’’گوسوامی صاحب ! ہمارا کچھ خیال کیجئے۔ ذرا احتیاط سے قہقہہ لگائیے۔ یہاں پلین کا ٹکٹ رکھا ہے ۔ اگر خدانحواستہ اُڑ گیا تو …‘‘
میرے اس جملے کو سنتے ہی شاذؔ نے پلین کا ٹکٹ اٹھایا اور کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا ’’تم لوگ صرف مسخرے ہو۔ بات کرنے تک کی تمیز نہیں رکھتے۔ تم لوگوں کی محفل میں کسی شریف آدمی کو نہیں آنا چاہئے ۔ ‘‘ یہ کہہ کر شاذؔ غصہ سے چلا گیا ۔

اور یوں میرے اور شاذؔ کے درمیان کچھ عرصہ کیلئے ایک عجیب سا تناؤ پیدا ہوگیا۔ اس تناؤ سے شاذؔ کا تو کچھ نہیں بگڑنا تھا، البتہ میں ایک اچھے شاعر اور ایک اچھے دوست کی صحبت سے محروم ہوگیا۔ وہ زمانہ شاذؔ کی شاعری کے شباب کا زمانہ تھا اور اس کے شخصی شباب کا بھی ۔ سلیمان اریب کے رسالہ ’’صبا‘‘ کے دفتر میں شاعروں اور ادیبوں کی محفلیں جمتیں، بحثیں ہوتیں، ہنگامے ہوتے ، معاصرانہ چشمکیں چلتیں، پھبتیاں کسی جاتیں ، ادب میں شاعروں کے مقام کا تعین کیا جاتا ۔ یہ اور بات ہے کہ دن میں کسی کو کسی مقام پر بٹھادیا جاتا تو رات کی محفلوں میں اسے وہاں سے ضرورت شعری کے تحت اُٹھا بھی دیا جاتا اور اُس کی جگہ کسی اور کو بٹھادیا جاتا ۔ ادب میں مقام کے معاملہ میں وحید اختر اور شاذ تمکنت میں ہمیشہ اٹھک بیٹھک جاری رہتی۔ دونوںمیں خوب ٹھنتی ۔ سلیمان اریب بیچ بچاؤ کرتے اور انہیں پھر اپنے پروں میں سمیٹ لیتے ۔ حالانکہ وحید اختر اور شاذ تمکنت دونوں کے مزاجوں اور اسلوب میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ شاذؔ اور وحید اختر دونوں ہی ہند و پاک کے سارے معیاری رسالوں میں چھپتے تھے اور انہیں برصغیر میں یکساں مقبولیت حاصل ہوگئی تھی لیکن مشاعروں میں شاذؔ اپنی مخصوص رومانیت ، احساس کی نرمی و ملائمت اور اپنے لہجے کے اچھوتے ڈھنگ کی وجہ سے بے پناہ داد وصول کرتا تھا ۔ شاذؔ اپنے دوستوں کے انتخاب کے معاملے میں نہایت سخت تھا ۔ افسانہ نگار عوض سعید ، اس کا دوست بھی تھا اور مداح بھی ، ہمدم بھی تھا اور ہم راز بھی۔ دونوں کی اس گہری دوستی کے بارے میں ایک مرتبہ میں نے شاذؔ سے کہا تھا۔’’تم دونوں کی اٹوٹ دوستی کا راز یہ ہے کہ عوض سعید کو تمہاری شاعری سمجھ میں نہیں آتی اور تمہیں عوض سعید کے افسانے سمجھ میں نہیں آتے۔ جس دن تم دونوں ایک دوسرے کو سمجھ لوگے ، اس دن تم دونوں کی دوستی ختم ہوجائے گی۔ ‘‘       (دوسری قسط اگلے اتوارکو)
(21 اگست 1985 ء)