یاد رفتگان شاذ تمکنت

میرا کالم            مجتبیٰ حسین
شاذؔ سے ابتدائی تناؤ کے بعد میرے اس سے دوستانہ مراسم اس وقت استوار ہوئے جب میں نے 1962 ء میں مزاح نگاری شروع کی ۔ ابتداء میں اس نے میرے بارے میں نہایت محتاط رویہ اختیار کیا لیکن رفتہ رفتہ وہ میری مزاح نگاری اور مزاح گوئی کا عادی بنتا چلا گیا ۔ وہ مجھے پیار سے ’’مجو میاں‘‘ پکارتا تھا۔ میں اکثر شاذ سے کہتا ’’شاذؔ ! مجھ سے ملنے سے پہلے تم میں حس مزاح کی کمی تھی ۔ ماشاء اللہ اب تم میں  مزاح کی زیادتی نظر آنے لگی ہے‘‘۔ اس پر شاذؔ کہتا ’’مجو میاں ! یہ جس مزاح صرف تمہارے لئے ہے۔ تمہارے پیشے کی لاج رکھنا مقصود ہے ورنہ کوئی اور میرے ساتھ اس طرح کا مذاق کر کے دیکھ لے‘‘۔
شاذ کے ساتھ کیسے کیسے عملی مذاق نہ کئے اور اس نے کس کشادہ دلی کے ساتھ اس مذاق کی پذیرائی نہ کی ۔ اب یاد کرنے بیٹھا ہوں تو آنکھیں اشکبار ہونے لگی ہیں۔ چار برس پہلے کی بات ہے۔ دہلی کی جامع مسجد کے علاقہ میں ہم رات کا کھانا کھانے جارہے تھے ۔ کچھ احباب بھی ساتھ تھے ۔ آگے آگے کچھ مزدور سر پر پیٹرومیکس اُٹھائے کسی تقریب سے واپس ہورہے تھے ۔ میں اچانک تیز قدموں سے چل کر پیٹرومیکس اُٹھائے  ہوئے ایک مزدور کے پاس پہنچا اور اس سے پوچھنے لگا ’’بھئی ! تمہارا کیا نام ہے ؟ ‘‘ مزدور نے کہا ’’باؤجی ! میرا نام عبدالرحمن ہے‘‘۔

میں نے کہا ’’بھئی ذرا رُک جاؤ۔ وہ صاحب جن کی بڑی بڑی زلفیں ہیں اور جو تمہارے پیچھے آرہے ہیں۔ تمہارا نام جاننا چاہتے ہیں‘‘۔
مزدور سر پر پیٹرومیکس اٹھائے رُک گیا ۔ جب شاذؔ سے اس کا سامنا ہوا تو اس نے کہا کہ ’’باؤجی! میرا نام عبدالرحمن ہے‘‘۔
شاذ نے کہا ’’اچھا تو تمہارا نام عبدالرحمن ہے۔ بڑی خوشی ہوئی تم سے مل کر۔ یہ بتاؤ چاہتے کیا ہو ؟ ‘‘
مزدور بولا ’’لو سنو ! باؤجی ! میں آپ سے کیا چاہوں گا ‘‘۔ پھر میری طرف اشارہ کر کے بولا ۔ ’’ ان باؤجی نے بتایا تھا کہ آپ میرا نام جاننا چاہتے ہیں۔ ‘‘ شاذ نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں میری طرف گھماکر پوچھا ’’اے مجو میاں! میں نے کب ان کا نام جاننا چاہا تھا ‘‘۔ میں نے کہا کہ پوچھ لو ان کا نام ورنہ بعد میں نہایت کرب کے ساتھ شعر کہوگے۔
آگے آگے کوئی مشعل سی لئے چلتا تھا
ہائے کیا نام تھا اُس شخص کا پوچھا بھی نہیں
شاذؔ نے زور دار قہقہہ لگایا ۔ اس رات وہ اتنا ہنسا کہ آنکھیں بھیگ گئیں۔ بہت دنوں بعد شاذؔ نے مجھے بتایا کہ اب وہ یہ غزل کسی مشاعرہ میں نہیں پڑھتا کیونکہ ہنسی آجاتی ہے ۔ یوں بھی اس شخص کا نام تو مجھے معلوم ہو ہی ہوگیا ہے ۔ عبدالرحمن ، عبدالرحمن ، ہائے عبدالرحمن۔
میں نے کہا ’’شاذ ! یہ تم نے بڑی زیادتی کی ۔ اتنی اچھی غزل مشاعرہ میں نہیں پڑھتے۔ نام اگر معلوم ہوگیا ہے تو نام نہ پوچھو ، اس کا کام ہی پوچھو ، پتہ ہی پوچھ لو ۔ تمہاری معلومات میں تو اضافہ ہونا ہی چاہئے ‘‘۔ شاذؔ کا پھر ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا۔ یہ بھی چار سال پہلے کی بات ہے ۔ 31 ڈسمبر کی تاریخ تھی اور میں اسی دن حیدرآباد پہنچا تھا ۔ نئے سال کی آمد میں ابھی چھ سات گھنٹے باقی تھے ۔ شام کا وقت تھا ۔ میں نے شاذؔ کو فون ملایا ۔ جب اس نے ’’ہیلو‘‘ کہا تو اچانک مجھے مذاق کی سوجھی ۔ میں نے اپنی آواز کو بدل کر پنجابی لہجہ میں کہا ’’شاذ جی ہوں گے جی ‘‘ شاذؔ نے کہا کہ ’’بول رہا ہوں‘‘۔
میں نے کہا ’’نمستے شاذؔ جی ! میں پی سی اروڈہ بول رہا ہوں۔ اوشا کمپنی کا مینجنگ ڈائرکٹر آپ کا چھوٹا سا مداح ہوں جی۔ آج ہی دہلی سے آیا ہوں۔ آپ کو شنکر شاد کے مشاعروں میں کئی بار سنا ہے جی ۔ آپ کے ساتھ آج کی شام گزارنا چاہتا ہوں۔ شام میں کیا پروگرام ہے جی آپ کا ‘‘۔
شاذ نے کہا ’’اروڑہ صاحب ! یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے‘‘۔
میں نے نقلی اروڑہ کے لہجہ میں کہا ’’ شاذ جیؔ یہ کیا آپ ذرا نوازی کی بات کرتے ہیں۔ شام میں ملئے زیادہ نوازی بھی کروں گا ۔ آپ میرے پسندیدہ شاعر ہیں‘‘۔

شاذؔ نے ہنس کر کہا ’’اروڑہ صاحب ! یہ تو بتائیے کہ آپ کہاں رکے ہیں۔ ویسے تو آج شام ایک دوست نے نئے سال کی تقریب میں بلا رکھا ہے ۔ مگر آپ دہلی سے آئے ہیں۔ آپ کا حق زیادہ ہے‘‘۔
میں نے کہا ’’شام میں سات بجے رٹز ہوٹل کے لاؤنج میں آجائیے۔ میں وہیں آپ کو ملوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر میں نے ریسیور رکھ دیا ۔ ’کوئی دو گھنٹوں بعد میں نے اپنی اصلی آواز میں شاذ کو فون کیا ۔ وہ بے حد خوش ہوا۔ پوچھنے لگا ’’تم کب دہلی سے آئے ؟‘‘
میں نے کہا ’’آج ہی آیا ہوں۔ ویسے آج تو نئے سال کی رات ہے ۔ تمہارا نیا سال کہاں طلوع ہورہا ہے؟ ‘‘
بولا ’’یار دہلی سے میرا ایک دوست پی سی اروڑہ آیا ہوا ہے ۔ اوشا کمپنی کا مینجنگ ڈائرکٹر ہے ۔ رٹز ہوٹل میں ٹھہرا ہے۔ اس کے ہاں جانا ہے ۔ مگر تم آگئے ہو تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اکیلا چلا جاؤں ۔ تم ٹھیک سات بجے رٹز ہوٹل کے لاونچ میں آجاؤ ۔ میں بھی وہیں آجاؤں گا۔ پھر ہم ہوں گے ، ہمارا نیا سال ہوگا اور ہمارا پی سی اروڑہ ہوگا  تو پھر پروگرام پکا ہے نا‘‘۔
میں نے کہا ’’یار ! میں تو پی سی اروڑہ سے واقف نہیں ہوں، یوں بھی وہ تمہارا مداح ہے۔ اس نے تمہیں بلایا ہے ۔ مجھے تو نہیں بلایا ۔ پتہ نہیں کس ٹائپ کا آدمی ہے۔‘‘
شاذؔ نے ہنستے ہوئے کہا ’’کس ٹائپ کا آدمی ہے ، اس کا ندازہ اسی سے لگالو کہ جب میں نے رسماً اس سے کہاکہ آپ کی ذرہ نوازی ہے تو کہنے لگا شام میں آجائیں تو آپ کی زیادہ نوازی بھی کروں گا۔ ایسے آدمی سے کیسا تکلف ۔ مجو میاں ! اسی بات پر آجاؤ  آج کی شام رٹز ہوٹل پر۔ میں نے وعدہ کرلیا اور شام میں جان بوجھ کر آدھا گھنٹہ دیر سے رٹز ہوٹل پہنچا تو دیکھا تو میاں شاذ نہایت نفیس سوٹ پہنے، ہونٹوں پر پان کی سرخی جمائے، اپنے بال بکھرائے بیٹھے ہیں۔
میں نے کہا ’’مجھے دیر تو نہیں ہوئی‘‘۔
شاذؔ نے کہا ۔ ’’تمہیں تو دیر نہیں ہوئی البتہ اس چغد پی سی اروڑہ کا کہیں پتہ نہیں چل رہا ہے۔ میں نے کاؤنٹر پر بھی پوچھا ۔ معلوم ہوا یہاں کوئی پی سی اروڑہ نہیں ہے۔ ایک بی پی اروڑہ ضرور ہے۔ میں نے اُس سے بات کی۔ وہ مجھ کو جاننا تو بہت دور کی بات ہے ، اوشا کمپنی تک کو نہیں جانتا‘‘۔
میں نے کہا ’’شاذؔ تمہیں کئی بار سمجھایا کہ اپنے مداحوں پر اندھا اعتماد نہ کرو۔ تم نہیں مانتے۔ اب نئے سال کا کیا ہوگا؟‘‘
شاذؔ نے کہا ’’تم فکر نہ کرو۔ اپنے راشدؔ آزر کے ہاں چلتے ہیں۔ اس نے مجھے آج کی شام بلایا ہے ، تم بھی چلو‘‘۔

مگر میں نے پہلے ہی اپنے ایک دوست کو کہہ دیا تھا کہ شام میں شاذؔ کو لے کر نظام کلب پر آؤں گا۔ ہم نے نئے سال کی وہ رات نظام کلب میں گزاری۔ شاذؔ بڑی دیر تک پی سی اروڑہ کو کوستا رہا۔ مگر جب نئے سال کی آمد کا اعلان ہوا تو شاذ زمانے کو کوس رہا تھا ۔ اس رات میں نے پہلی بار شاذؔ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ اُس کے دل میں نہ جانے یہ بات کیوں بیٹھ گئی تھی کہ حیدرآباد نے اس کی قدر نہیں کی۔ مجھ سے کہنے لگا۔’’مجو میاں ! یہ تم نے اچھا کیا کہ دہلی چلے گئے ۔ اس شہر میں اب کیا رکھا ہے‘‘۔ میں نے زندگی میں پہلی اور آخری بار شاذؔ کو وہیں دلاسہ دیا تھا کیونکہ شاذ کسی کے سامنے اپنے دکھ کا اظہار نہیں کرتا تھا ۔ اسے ایک مدت تک یہ پتہ نہ چل سکا کہ اس شام کا پی سی اروڑہ میں ہی تھا ۔ وہ میری باتوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیتا تھا ۔ جب شاذؔ نے اپنے کلام کا انتخاب شائع کرنے کا فیصلہ کیا تو اس نے مجھ سے کہا’’میں اپنے اس انتخاب کا نام ’’ورق انتخاب ‘‘رکھنا چاہتا ہوں۔ اس نام کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ ‘‘
میں نے کہا ’’شاذ! تمہارے کلام کے انتخاب کیلئے اس سے بہتر کوئی اور نام ہو ہی نہیں سکتا کیوں کہ تمہارے اچھے کلام کا اگر کڑا انتخاب کیا جائے تو یہ ایک ہی ورق میںآجائے گا۔ پھر چھپائی کاخرچہ بھی کم آئے گا۔ لوگ سمجھتے نہیں ایک ورق کی خاطر ساری کتاب چھاپ لیتے ہیں‘‘۔
شاذ نے میرے تبصرے پر جو قہقہہ لگایا تھا وہ اب تک میرے کانوں میں گونج رہا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ دکن کے اس البیلے شاعر نے ، جس کی انا اور خودداری اکثر ہمالیہ سے باتیں کرتی تھی، مجھے ہمیشہ عزیز رکھا۔ دہلی آتے ہی وہ مجھے فون کردیتا تھا۔ ’’مجو میاں ! ہم آگئے ، فوراً چلے آؤ‘‘۔
دو سال پہلے وہ شنکر شاد کے مشاعرے میں آیا تھا ۔ مشاعرہ تو ہوگیا مگر شاذ دہلی سے جانے کا نام نہ لیتا تھا۔ ایک عجیب سی بے کیفی اور بے دلی اس کے سارے وجود پرطاری تھی۔ میں ہر روز ٹرین میں اس کے واپس جانے کا ریزرویشن کروادیتا جسے وہ شام میں کینسل کروادیتا تھا ۔ چار دنوں تک یہی ہوتا رہا ۔ پانچویں دن میں نے ہنس کر شاذؔ سے کہا۔ ’’کب تک میرے مولا آخر کب تک ؟ ‘‘ ایک روکھی سوکھی مسکراہٹ کے ساتھ شاذ نے کہا ’’مجو میاں ! اس کے بعد تو جاناہی پڑے گا‘‘۔ اور وہ اس دن حیدرآباد چلا گیا ۔ شاذ کو میں نے اسی مشاعرہ میں آخری بار سنا تھا ۔ اس کے بعد والے سال وہ دہلی آیا تو میں امریکہ میں تھا ۔ شاذؔ جب بھی دہلی کے کسی مشاعرہ میں آتا تو میں اس میں ضرور شرکت کرتا تھا۔ اس لئے نہیں کہ شاذؔ میری کمزوری تھا بلکہ اس لئے کہ جب شاذؔ کسی ترنم اور ڈرامہ بازی کے بغیر دونوں ہاتھوں سے مشاعرہ لوٹنے لگتا تھا تو میرے تصور میں چارمینار کے مینار کچھ اور اونچے ہوجاتے تھے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کی عمارت کچھ اور بھی پر شکوہ نظر آنے لگتی تھی۔ نوبت پہاڑ ہمالیہ کی طرح اونچا دکھائی دینے لگتا تھا ۔ دکن دیس کی سانولی سلونی شاموں کا حسن کچھ اور بھی نکھر آتا تھا ۔ اب شاذؔ نہیں ہے تو ان شاموں میں کون رنگ بھرے گا۔
وہ ایک ایسا سادہ لوح رومانی شاعر تھا جس نے جب دیکھا کہ دنیا اس کی رومانیت کی سطح تک اٹھ کر جی نہیں پا رہی ہے تو وہ چپ چاپ دنیا ہی کو چھوڑ کر چلا گیا ۔ شاذؔ جیسا طرحدار شاعر اب دکن دیس میں کہاں ملے گا جس نے اپنے سوائے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ اپنی انا کی حفاظت کے لئے وہ بڑے سے بڑے آدمی سے ٹکر لے لیتا تھا اور اپنے ادنیٰ سے ادنیٰ چاہنے والے کی محبت کے آگے اپنا سب کچھ قربان کردیتا تھا۔

آنکھوں کے ایک ڈاکٹر شاذؔ کے مداح تھے۔ میں نے ایک دن ان ڈاکٹر صاحب سے شکایت کی ۔ ’’ڈاکٹر صاحب ! شاذؔ کی بینائی بہت خراب ہوچکی ہے۔ آپ ٹھیک سے اس کا علاج نہیں کرتے ۔ ذرا دیکھئے نا ! ارض دکن میں شاذ کو اب اپنے سوائے کوئی اور دکھائی ہی نہیں دیتا‘‘۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب کے ساتھ شاذؔ بھی ہنس پڑا تھا۔ اب شاذؔ نہیں ہے تو احساس ہوتا ہے کہ شاذؔ کی نہیں بلکہ ہماری بینائی خراب ہوگئی تھی ۔ مخدوم کے بعد ارض دکن میں شاذؔ سچ مچ اکیلا رہ گیا تھا ۔ اب شاعری کی بساط اُلٹ چکی ہے۔ یقیناً وہ ہمارے آگے مشعل سی لئے چلتا تھا ۔ ہم نے اس کا نام بھی جانا، اُس سے اُس کا کلام بھی سنا مگر یہ نہیں پوچھا کہ بھیا  اپنے دل میں کونسا غم چھپائے پھرتے ہو۔ کچھ اتا پتا اس غم کا بھی دیتے جاؤ۔ یہ اجنبی اور گمنام سا غم تمہارے جی کو کہاں سے لگ گیا۔ مگر اب تو پوچھنے کا وقت بھی نکل چکا ۔ عرصہ سے شاذؔ ایک ٹھہرا ہوا دریا تھا اور بڑی دیر سے چپ تھا۔ شاذؔ کو جتنا یاد کرتا ہوں اسی کا ایک شعر بار بار یاد آتاہے  ؎
یہی تجھ سے اپنا تھا واسطہ، یہی تھی حیاتِ معاشقہ
تری خلوتوں کے شریک تھے، تری انجمن سے چلے گئے
(21 اگست 1985 ء)