یاد رفتگان ابراہیم جلیس

میرا کالم              مجتبیٰ حسین
ابراہیم جلیس افسانہ نگار تھے مگر میرے لئے صرف افسانہ تھے ، حالانکہ وہ میرے بڑے بھائی تھے ۔ وہ پڑوسی ملک کے شہر کراچی میں رہتے تھے مگر لگتا تھا کہ وہ لاکھوں کروڑوں میل دور ہیں حالانکہ یہ فاصلہ چند سو میل سے زیادہ کا نہیں تھا ۔ وہ مجھ سے تیرہ چودہ برس بڑے تھے ۔ مگر لگتا تھا وہ کافی عمر رسیدہ ہوگئے ہیں حالانکہ ان کی عمر 54 برس سے زیادہ نہیں تھی ۔ حقیقت جب افسانہ بن جاتی ہے ، فاصلے جب پھیل جاتے ہیں ، عمریں جب دھوکہ دینے لگتی ہیں تو دو بھائیوں کے رشتے کتنے بے بس و مجبور اور بے معنی ہوجاتے ہیں ۔ بھائی ہونے کے ناطے آج جب میں انہیں یاد کرتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ بچپن کی کچھ دھندلی دھندلی سی یادوں ، 1960 ء میں حیدرآباد میں ایک مہینہ کا ساتھ ، سال میں ایک یا دو بار آنے والے اُن کے خطوط اور اُن کے بارے میں اُن کے دوستوں سے سنی ہوئی باتوں کے سوائے میرے ذہن میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ دو ملکوں میں بسے ہوئے بھائیوں کی کُل کائنات یہی ہے ۔ سرحد صرف دو ملکوں کے درمیان سے نہیں گزرتی بلکہ رگوں میں دوڑنے والے ایک ہی خون کو بھی کاٹ دیتی ہے ۔
بچپن کی دھندلی یادوں کی مدد سے جب میں اپنے ذہن میں ان کی شبیہ بنانا چاہتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ بچپن میرا نہیں کسی اور کا تھا اور جو شبیہ میرے ذہن میں اُبھررہی ہے وہ جلیسؔ صاحب کی نہیں کسی اور کی ہے ۔ زندگی کا وہ مرحلہ بڑا کربناک ہوتا ہے جب آدمی کا بچپن خود اسے اجنبی دکھائی دے ۔ میرے ہوش سنبھالنے تک جلیسؔ صاحب گلبرگہ ہائی اسکول کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد علی گڑھ چلے گئے تھے ۔ البتہ گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ گلبرگہ آیا کرتے تھے ۔ مگر خاندان والوں کے لئے ان کا آنا نہ آنا برابر ہوتا تھا ۔ کیونکہ وہ دوستوں کے رسّیا تھے ۔ ہر دم دوستوں کے جھمیلوں میں گھرے رہتے تھے اور گرمی کی چھٹیاں اپنے دوستوں کے ساتھ گزار کر علی گڑھ واپس چلے جاتے تھے ۔ والد صاحب کی خواہش تھی کہ وہ تعلیم سے فارغ ہو کر سول سروس کا امتحان دیں اور کسی بڑے عہدے پر پہنچ جائیں ۔ لیکن انٹرمیڈیٹ کے طالب علم ہی تھے کہ انہوں نے پہلا افسانہ لکھ کر سول سرویس کی ساری ذمہ داریوں سے سبکدوشی اختیار کرلی اور والد صاحب نے چپ چاپ اپنی خواہش کو واپس لے لیا ۔ والدین بہت سے کام یوں ہی خاموشی کے ساتھ کئے جاتے ہیں اور اولاد کو اپنی خواہش کا علم نہیں ہونے دیتے ۔

بچپن کی یادوں میں ایک یاد میرے ذہن میں بہت نمایاں ہے ۔ کبھی کبھار جلیسؔ صاحب کو دوستوں سے فرصت ملتی تو خاندان کے چھوٹے بچوں کو بھوتوں کی کہانیاں سنا کر ڈراتے تھے ۔ یہ ان کا محبوب مشغلہ تھا ۔ انہیں بھوتوں کی ایسی خوفناک کہانیاں یاد تھیں کہ انہیں سن کر ریڑھ کی ہڈی تک لرز جاتی تھی ۔ اکثر کہانیاں خود ان کے ذہن کی پیداوار ہوتی تھیں ، کیونکہ بڑے ہو کر نہ میں نے یہ کہانیاں کہیں پڑھیں نہ سنیں ۔ یہ ان کی افسانہ نگاری کا فطری آغاز تھا ۔ ان کہانیوں کی نمایاں خصوصیت یہ ہوتی تھی کہ ان میں ایک ظالم بھوت ہوتا تھا اور ایک مظلوم آدمی ۔ اگرچہ کہانی کے آخر میں وہ مظلوم آدمی کے ہاتھوں ہی اس ظالم بھوت کا خاتمہ کراتے تھے ۔ لیکن ظالم بھوت کے ظلم کی تفصیلات اور مظلوم آدمی کی جد وجہد اور حوصلے کو وہ ایسی اثر انگیزی کے ساتھ بیان کرتے تھے کہ ہم دم بخود رہ جاتے تھے ۔ جب کوئی خوفناک کہانی سنالیتے تو بچوں کے چہروں کو دیکھ کر اندازہ لگانے کی کوشش کرتے تھے کہ کون کتنا ڈرتا ہے ۔ کوئی بچہ زیادہ ڈر جاتا تھا تو ایک زوردار قہقہہ لگا کر کہتے تھے ’’ارے یہ تو صرف کہانی ہے ، اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے ؟ بھوت آئے گا تو میں اس کا مقابلہ کروں گا ۔ میں اکیلا ہی دنیا کے سارے بھوتوں کا مقابلہ کرسکتا ہوں‘‘ ۔ ان کے ان جملوں سے ہمیں بڑی ہمت ملتی تھی ۔ جلیسؔ صاحب زندگی بھر بھوتوں سے لڑتے رہے اور ظالم کے خلاف مظلوم کی حمایت کرتے رہے ۔ یہ بات ان کی فطرت میں بنیادی اہمیت رکھتی تھی ۔
ان کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ ہر کام میں جلد بازی دکھاتے تھے ۔ یوں لگتا تھا جیسے ان کی رگوں میں خون نہیں پارہ دوڑ رہا ہے ۔ جذباتی انسانوں کا خون اکثر یوں ہی پارے میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ زندگی کے ہر کام میں انہوں نے عجلت کی ۔ ابھی علی گڑھ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہی تھے کہ وہ افسانہ نگار کی حیثیت سے سارے ہندوستان میں مشہور ہوچکے تھے ۔ میرے سب سے بڑے بھائی محبوب حسین جگرؔ نے ابھی گریجویشن بھی نہیں کیا تھا کہ یہ علی گڑھ سے گریجویٹ ہو کر گلبرگہ واپس آئے ۔ حالانکہ بھائیوں میں ان کا نمبر تیسرا تھا ، بیس سال کی عمر میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’زرد چہرے‘‘ شائع ہوا ۔ مجھے یاد ہے کہ وہ افسانوں کے اپنے پہلے مجموعہ کی کچھ کاپیاں لے کر گلبرگہ آئے تھے ۔ جب انہوں نے اس کتاب کا ایک نسخہ والد صاحب کی خدمت میں پیش کیا تو جلیسؔ صاحب کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں جیسے انہیں سول سرویس کا امتحان نہ دینے کا دکھ ہو ۔

جلیسؔ صاحب باغی اور سرکش ادیب تھے  لیکن جب وہ والد صاحب اور میرے سب سے بڑے بھائی محبوب حسین جگر صاحب کے روبرو ہوتے تو ان کی ساری بغاوت ، ساری سرکشی اور ساری شگفتہ مزاجی کافور ہوجاتی تھی ۔ ان دونوں شخصیتوں کے سامنے ان کی آنکھیں ہمیشہ جھکی ہوئی ہوتی تھیں ۔ بات بھی دوچار جملوں سے زیادہ نہیں کرتے تھے اور الٹے پاؤس واپس آکر پھر بغاوت اور سرکشی سے ہم کنار ہوجاتے تھے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے کردار کی تربیت انہی دو شخصیتوں کی مرہون منت تھی ۔
میرے والد نے جب انہیں ایک افسانہ نگار کے روپ میں تسلیم کرلیا تو انہوں نے دور اندیشی کے طور پر یہ فیصلہ کیا کہ ان کی شادی کسی مالدار گھرانے میں کی جائے ۔ چنانچہ جس سال ان کے افسانوںکا پہلا مجموعہ شائع ہوا  ،اسی سال ان کی شادی گلبرگہ کے ایک نہایت متمول اور مالدار گھرانے میں ہوئی ۔ گلبرگہ کی ’’حیدر بلڈنگ‘‘‘ میں ان کی شادی کی دھندلی دھندلی سی یادیں اب بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں ۔ وہ فطرتاً دولت ، عیش و آرام ، امور خانہ داری اور اسی قماش کی دیگر دنیاوی مصروفیات سے بالکل بے نیاز تھے ۔ لہذا چند ہی دنوں بعد وہ اپنی ادبی مصروفیات میں الجھ گئے ۔
جلیسؔ صاحب کی زندگی کے بارے میں اب سوچتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ وہ بحرانوں اور طوفانوں کے پروردہ تھے ۔ زندگی میں جب کوئی بحران نہیں ہوتا تھا تو وہ ایک بحران پیدا کرلیتے تھے ۔ وہ بحران کے بغیر شاید زندہ بھی نہیں رہ سکتے تھے ۔ ان کی زندگی میںد و ہی چیزیں تھیں ۔ طوفان یا طوفان سے پہلے کی خاموشی ۔ اس دنیا میں بہت کم لوگ اپنے جذبہ کی سطح تک پہنچ کر زندہ رہتے ہیں مگر جلیسؔ صاحب اس سطح تک پہنچ کر زندہ رہے ۔ جذبہ نے ان سے جو کہا انہوں نے وہ کردکھایا ۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کی یکسانیت کو وہ کبھی برداشت نہ کرسکے ۔ ہمیشہ اپنے جذبہ کے ساتھ ساتھ چلتے رہے ۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی وہ کسی ملازمت سے دو سال سے زیادہ وابستہ رہے ہوں ۔ کچھ مہینوں کے لئے وہ حیدرآباد کے ایک سرکاری محکمہ کے پبلسٹی آفیسر بھی رہے مگر اس محکمہ کے وزیر سے لڑ کر انہوں نے اس ملازمت کو چھوڑ دیا ۔ وزیروں اور سرمایہ داروں سے لڑنا ان کا محبوب مشغلہ تھا ۔ انہوں نے فطرت ہی کچھ ایسی پائی تھی کہ ہمیشہ اپنے سے طاقتور آدمی سے ٹکر لیتے تھے اور اکثر اس لڑائی میں فاتح بن کر نمودار ہوتے تھے ۔ ان کے پاس ان فتوحات کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ۔ یہی ان کی زندگی کی کمائی تھی ۔ چند دن فلمی دنیا میں قسمت آزمائی کرنے گئے اور ساحر لدھیانوی کے ساتھ بمبئی کی سڑکوں کی خاک چھانی ۔ ان میں صبرکا مادہ بالکل نہیں تھا ۔ لہذا چند ہی دنوں میں بمبئی کے فلم سازوں سے لڑلڑاکر واپس چلے آئے ۔ عملی زندگی میں ان کا حال اس بچہ کا سا تھا جو ریت کے گھروندے بنا بنا کر توڑتا چلاجاتا ہے ۔ اور کبھی کسی گھروندے سے مطمئن نہیں ہوتا ۔ انہوں نے جو کچھ کمایا اپنے قلم سے کمایا ۔ غیرت اور خودداری کا یہ حال تھا کہ کبھی اپنی بیوی کی جائیداد اور ان کی دولت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ۔ ان کے لکھنے کی رفتار حیرت انگیز تھی ۔ اپنا مشہور ناول ’’چالیس کروڑ بھکاری‘‘ انہوں نے آٹھ دس دن کے اندر لکھا تھا ۔ پچیس برس کی عمر میں انہوں نے ایک ادیب کی حیثیت سے جو شہرت حاصل کرلی تھی وہ بہت سوں کو پچاس برس قلم گھسنے کے باوجود حاصل نہیں ہوتی ۔ وہ جب ادیبوں سے بھی الجھتے تھے تو اس احتیاط کو بطور خاص ملحوظ رکھتے تھے کہ جس ادیب پر وار کیا جائے ، وہ چوٹی کا ادیب ہو ، ورنہ ٹکر لینے کا فائدہ ہی کیا ہوا ۔

1948 میں وہ زندگی کے ایک بہت بڑے بحران سے گزرے اور ایک دن خاندان والوں کو پتہ چلا کہ وہ ہندوستان سے چلے گئے ہیں ۔ والد صاحب کو پورے دو مہینوں بعد ان کے ہندوستان سے چلے جانے کی اطلاع ملی ۔ کئی دنوں تک معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کہاں ہیں اور کیا کررہے ہیں ۔ پھر پتہ چلا کہ وہ لاہور میں کسی اخبار سے وابستہ ہوگئے ہیں ۔ پھر چند ہی دنوں بعد ان کا مشہور رپورتاژ ’’دو ملک ایک کہانی‘‘ چھپ کر آیا ۔جلیسؔ صاحب کی یہ وہ کتاب ہے جس میں انہوں نے نہ صرف اس برصغیر کو تقسیم کرنے والی سیاست سے ٹکر لی تھی بلکہ اپنے آپ سے بھی ٹکر لی تھی ۔ یہیں انہوں نے اپنے ٹوٹے پھوٹے وجود کو بڑے جتن کے ساتھ پھر سے جوڑا تھا ۔ اور بڑی بے باکی اور بے جگری کے ساتھ اپنے آپ کو بھی نشانۂ ملامت بنایا تھا ۔ یہ کتاب اوروں کے لئے تو اس برصغیر کی تاریخ کے ایک سنگین دور کی دستاویز ہے ، لیکن خود جلیسؔ صاحب کے لئے یہ کتاب ’’تزکیۂ نفس‘‘ کی حیثیت رکھتی تھی ۔ اسی کتاب کے ذریعہ انہوں نے اپنے دل میں چبھے ہوئے کانٹوں کو چن چن کر باہر نکالا ۔ اس کتاب کے بعد وہ پھر ایک بار چٹان کی طرح مضبوط بن گئے اور نئے بحرانوں سے ٹکر لینے کے لئے نکل کھڑے ہوئے ۔
جلیسؔ صاحب کی زندگی کے وہ دن بڑے کٹھن تھے ۔ نیا ملک  ،نئی سرزمین ، نئے لوگ ، ان حالات میں اپنے لئے جگہ بنانا ان کے لئے کتنا دشوار تھا ۔ مگر وہ ہمت ہارنا جانتے ہی نہ تھے ۔ ان کے بچے اور بیوی برسوں یہیں ہندوستان میں رہے ۔ وہ بیوی ، بچوں ، اپنے وطن ، اپنے رشتہ داروں اور اپنے احباب کے لئے تڑپتے رہے لیکن کبھی مایوس نہیں ہوئے ۔ نفرت ، لوٹ کھسوٹ اور انسان دشمن نظریات کے خلاف انہوں نے بدستور اپنی جنگ جاری رکھی ۔ اس ضمن میں وہ جیل بھی گئے ۔ والد صاحب کو جب پاکستان میں ان کی گرفتاری کا پتہ چلا تو وہ اس اطلاع سے یوں خوش ہوئے جیسے ان کی کوئی دیرینہ خواہش پوری ہوئی ہو ۔ پرانی نسل کے لوگ بھی کیسی کیسی باتوں پر خوش ہونا جانتے تھے اور آج ہماری خوشیاں کتنی مختلف ہیں ۔ جیل میں ہی انہو ںنے اپنی مشہور کتاب ’’جیل کے دن جیل کی راتیں‘‘ لکھی لیکن سچائی کو زیادہ دنوں تک سلاخوں کے پیچھے بند نہیں رکھا جاسکتا تھا ۔ وہ جیل سے باہر آئے تو فاتح بن چکے تھے ۔

وہ روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں طنزیہ کالم لکھا کرتے تھے ۔ اس کے بعد انہوں نے افسانہ نگاری سے کم و بیش کنارہ کشی اختیار کرلی ۔ اور ایک صحافی کی حیثیت سے شہرت کی نئی منزلیں طے کرنے لگے ۔ سابق صدر امریکہ لنڈن بی جانسن کی شخصی دعوت پر امریکہ گئے ۔ چین کی سیاحت کی ، ماوزے تنگ سے ملے ، روس گئے ، مشرق وسطی گئے ، یوروپ گئے ، مشرق بعید گئے ۔ غرض دنیا کے ہر ملک کی سیاحت کی ۔ چار سال پہلے وہ ہانگ کانگ جاتے ہوئے چند گھنٹوں کے لئے دہلی کے ہوائی اڈے پر بھی رُکے ۔ وہ جانتے تھے کہ اپنے ایک بھائی سے چند فرلانگ کے فاصلہ پر ہیں ۔ لیکن عملاً یہ فاصلہ کتنا لمبا تھا  ۔انہوںنے صرف اتنا کیا کہ ایک خط لکھ کر دہلی کے ہوائی اڈے پر پوسٹ کردیا اور اپنے سفر پر روانہ ہوگئے ۔ وہ زندگی کے سفر میں رُکنا اور پلٹ کر دیکھنا جانتے ہی نہ تھے ۔ سفر مدام سفر ، یہی ان کا نصب العین تھا ۔ پاکستان جا کر بھی انہوں نے عملی زندگی کے بارے میں اپنا انداز نہیں بدلا ۔ ہر دوسرے تیسرے سال وہ کوئی نئی ملازمت ڈھونڈ لیتے تھے ۔ اخباروں میں طنزیہ کالم لکھے ، فلمیں بنائیں ، روزنامہ  ’’انجام‘‘  کے ایڈیٹر بنے اور اپنا ذاتی اخبار ’’عوامی عدالت‘‘ نکالا ۔ آخر وقت میں وہ روزنامہ ’’مساوات‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے تھے ۔
1960 ء میں وہ ایک مہینے کے لئے حیدرآباد آئے تھے ۔ حیدرآباد سے انہیں بے پناہ پیار تھا ۔ اسی شہر میں انہوں نے شہرت کی ابتدائی منزلیں طے کی تھیں ۔ یہیں سے اپنے باضابطہ ادبی سفر کا آغاز کیا تھا  ۔اسی شہر کے گلی کوچوں میں ان کی جوانی بیتی تھی ۔ یہیں انہوں نے مستقبل کے سہانے خواب دیکھے تھے ۔ حیدرآباد کے احباب اور حیدرآباد کے لوگ ان کی سب سے بڑی کمزوری تھے ۔ ان کی آمد کے موقع پر جب حیدرآباد میں جلسہ ہوا تو ادب دوستوں کا ایک سیلاب تھا جو امڈ آیا تھا ۔ وہ اس والہانہ محبت کواپنے دل میں سمیٹے چپ چاپ پاکستان لوٹ گئے ۔ جاتے ہوئے کہہ گئے تھے ’’دو تین سال بعد میں پھر آؤں گا‘‘ ۔ سترہ برس بیت گئے مگروہ پھر بھی نہ آئے ۔ زندگی کی جد وجہد نے انہیں پھر مہلت ہی نہ دی ۔ جاتے ہوئے بھی ان کی آنکھوں میں آنسو نہ تھے ۔ وہ رونا بالکل نہیں جانتے تھے ۔ حالانکہ وہ اپنے شہر نگاراں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ رہے تھے ۔ میں نے جب 1962ء میں مزاح نگاری شروع کی تو وہ اس اطلاع پر بے حد خوش ہوئے تھے ، بڑے پیار کے ساتھ انہوں نے میرے پہلے مضمون کی تعریف میں خط لکھا تھا ۔ وہ خط لکھنے کے معاملے میں خاصے لاپروا تھے ۔ سال میں دو ایک بار خط لکھ کر اپنی خیریت کی اطلاع ہم لوگوں کو پہنچایا کرتے تھے ۔ ان کا آخری خط میرے بڑے بھائی محبوب حسین جگرؔ کے نام آیا تھا ۔ یہ خط 30 مارچ 1977ء کو لکھا گیا تھا ۔ اس خط میں بہت سی خانگی باتیں کرنے کے بعد میرے بارے میں ایک جملہ یہ لکھا تھا:’’مرنے سے پہلے کرشن چندر کا ایک خط 28 فروری کا لکھا ہوا ملا جس میں لکھا تھا ، ادھر ہند میں مجتبیٰ نے دھوم مچا رکھی ہے ۔ چشم بدور ۔ یہ جملہ پڑھ کر دل کئی دن مسرت سے معمور رہا‘‘ ۔ جگرؔ صاحب نے یہ خط مجھے بھیج دیا تھا ۔ ان کی مسرت کے خیال سے میں بھی کئی دن مسرور رہا کیونکہ میں انہیں کسی اور طرح مسرت نہیں پہنچا سکتا تھا ۔ ہم لوگوں کے درمیان اب ایسی ہی چھوٹی موٹی مسرتیں رہ گئی تھیں ۔
جلیسؔ صاحب نے اپنی زندگی کے بہت سے کام جلد ہی کرڈالے ۔ شاید انہیں پتہ تھا کہ کارِ جہاں بہت زیادہ دراز نہ ہوسکے گا ۔ مگر انہیں اپنے خاندان کے لئے بہت کچھ کرنا تھا ۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ذاتی خوش حالی کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہ تھا ۔ دو لڑکیوں کے ہاتھ پیلے کرنے تھے ، انہیں اپنے گھر سے وداع کرنا تھا ، وہ سماج اور انسانیت سے وابستہ اپنے کاموں کو پورا کرنے کے بعد اپنے گھر کی طرف توجہ دینا چاہتے تھے ۔ لیکن بیچ راستے میں ہی زندگی کی شام آگئی ۔ وہ زندگی بھر بحرانوں اور طوفانوں سے گزرے ۔ ہم لوگ ان کے بحرانوں سے ہمیشہ پریشان رہتے تھے ۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ یقین بھی رہتا تھا کہ وہ ان بحرانوں پر قابو پالیں گے ، کیونکہ 54 برس سے یہی ہوتا آرہا تھا ۔ ان کے انتقال سے تین چار دن پہلے ہندوستان کے اخبارات میں ان کی پریس کانفرنس کی رپورٹ چھپی تھی جس سے یہ پتہ چلا کہ پاکستان کی فوجی حکومت نے ان کے اخبار پر قبضہ کرلیا ہے اور یہ کہ ان کا اخبار اب شائع نہیں ہوگا ۔ اس خبر کو پڑھ کر تشویش ضرور ہوئی تھی مگر یقین تھا کہ وہ حسب معمول اس بحران سے فتح یاب یا ہو کر نکلیں گے ۔

27 اکتوبر 1977 کو جب کہ جلیسؔ صاحب کو اس دنیا سے رخصت ہوئے پورے 27 گھنٹے بیت چکے تھے ، اور ان کا جسد خاکی منوں مٹی کے بوجھ تلے دب چکا تھا ۔ مجھے ’’ٹائمس آف انڈیا‘‘ کی خبر سے پتہ چلا کہ ارض دکن کے باغی ادیب نے وادی سندھ میں اپنا آخری پڑاؤ ڈال دیا ہے ۔ دو بھائیوں کے بیچ کمیونی کیشن کا یہی ایک سنگین ذریعہ رہ گیا تھا ۔ ان کے انتقال سے دو ملکوں میں رہنے والے بھائیوں کے درمیان دبی دبی سی جو ایک کہانی انتیس برسوں سے جاری تھی وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی ۔ کہانیاں یوں ہی زمانہ اور تاریخ میں بکھر جاتی ہیں ۔ مجھے جلیسؔ صاحب کی وہ بھوتوں والی کہانیاں بہت یاد آئیں جن میں وہ ہمیشہ مظلوم کے ہاتھوں ظالم کا خاتمہ کرواتے تھے ۔ جب تک کہانیاں ان کے قبضۂ قدرت میں رہیں کبھی بھوتوں کو یہ موقع نہ مل سکا کہ وہ مظلوم کا خاتمہ کرسکیں ۔ مگر جلیسؔ صاحب کی مجبوری یہ تھی کہ وہ خود اپنی زندگی کی کہانی کے خالق نہیں بن سکتے تھے ۔ جبھی تو ان کی زندگی کی کہانی کا انجام ویسا نہیں ہوا جیسا کہ ان کی لکھی ہوئی کہانیوں کا ہوا کرتا تھا ۔ اس دنیا میں یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک کہانی کار اپنی مرضی سے اپنی زندگی کی کہانی کے انجام کا فیصلہ کرے ۔ (نومبر 1977ء )