یادیں اپنے اساتذہ کی

میرا کالم سید امتیاز الدین
5 ستمبر کا دن ہمارے ملک میں یوم اساتدہ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اساتذہ قوم کی اہم ترین خدمت انجام دیتے ہیں ۔ ایک پوری نسل اُن کی نگرانی میں تربیت پاتی ہے ۔ اگر استاد کو قوم کا معمار کہا جائے تو یہ بات صد فیصد درست ہوگی ۔ 5 ستمبر ہمارے ملک کے دوسرے صدر جمہوریہ ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن کا یوم پیدائش ہے ۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن عالمی شہرت یافتہ فلسفی ، مانے ہوئے ادیب اور انگریزی کے بے مثال مقرر تھے ۔ جب برطانیہ کے وزیر اعظم سر انتھونی ایڈن ہندوستان کے سرکاری دورے پر آئے تھے تو اُن کے اعزاز میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں خیرمقدمی تقریب رکھی گئی تھی ۔ اُس موقع پر ڈاکٹر رادھا کرشنن نے جو تقریر کی تھی اُسے سُن کر سر انتھونی ایڈن نے کہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی تقریر سنتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں ایک چھوٹا بچہ ہوں جسے ابھی ٹھیک سے رینگنا بھی نہیں آتا ۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن کی اصل شناخت یہ تھی کہ اُن کی عمر کا بڑا حصہ درس و تدریس میں گذارا ۔ جب وہ یونیورسٹی کے پروفیسر تھے تو اُن کے شاگرد اپنی شاگردی پر فخر کرتے تھے۔ ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ یونیورسٹی کی پروفیسری کے زمانے میں اُن کا تقرر ایک امریکن یونیورسٹی میں بحیثیت وزیٹنگ پروفیسر ہوگیا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب مدراس سے بحری جہاز سے امریکہ سفر کرنے والے تھے جب وہ امریکہ جانے کیلئے سامان سفر لے کر نکلے تو بندرگاہ تک جانے کیلئے ایک تانگہ اُن کیلئے تیار تھا ۔ ڈاکٹر صاحب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اُن کیلئے تانگہ تو موجود تھا لیکن گھوڑا غائب تھا ۔

دراصل گھوڑے کو اُن کے شاگردوں نے نکال دیا تھا ۔ رادھا کرشنن ابھی حیرت زدہ تھے کہ اُن کے بہت سے شاگرد نہایت ادب سے اُن کے سامنے آگئے اور کہا کہ ہمارے لئے یہ بات باعث عزت ہوگی کہ ہم آپ کو تانگے میں بٹھاکر خود لے چلیں۔ اسی طرح ہمارے تیسرے پریسیڈنٹ ڈاکٹر ذاکر حسین کا تعلق بھی درس و تدریس سے تھا ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کیلئے اُن کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اس تمہید کے ذریعہ آج ہم اپنے چند اساتذہ کو یاد کرنا چاہتے ہیں ۔ جن کے فیض صحبت سے ہم نے بھی تھوڑی بہت تعلیم حاصل کی اور چار لوگوں میں بیٹھنے کے قابل ہوئے ۔ ہم نے نرسری یا کنڈرگارٹن کی تعلیم حاصل نہیں کی اور براہ راست چوتھی جماعت میں شریک ہوئے ۔ ہمارا اسکول سرکاری تھا ۔ یہاںاردو اور تلگو ذریعہ تعلیم تھا ۔ ہمارے اسکول کے ہیڈ ماسٹر کا نام بالاجی سنگھ ٹھاکر تھا ۔ سب لوگ اُنہیں ٹھاکر صاحب کہتے تھے ۔ ٹھاکر صاحب ایک بہترین استاد بھی تھے اور بحیثیت ہیڈ ماسٹر بہترین ایڈمنسٹریٹر تھے ۔ گو ہمارا اسکول صرف ساتویں جماعت تک تھا اور اُس کے وسائل بھی زیادہ نہیں تھے لیکن ٹھاکر صاحب نے ایک ریڈنگ روم اور سائنس کلب قائم کیا تھا ۔ ریڈنگ روم میں اردو انگریزی اور تلگو کے اخبارات آتے تھے ۔ بچوں کو ترغیب دی جاتی تھی کہ انٹرویل اور خالی پیریڈ میں ریڈنگ روم جائیں اور اپنی معلومات میں اضافہ کریں ۔ اسی طرح سائنس کلب میں درسی کتابوں کے تجربات کو عملی طور پر کرنے کا انتظام تھا ۔ ٹھاکر صاحب وقتاً فوقتاً ہر کلاس کا معائنہ کرتے اور طلباء کی تعلیمی حالت سے باخبر رہتے ۔ ہمارے ریاضی کے استاد عبدالحکیم صاحب کا مجھ پر بڑا احسان رہا ۔ میں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا لیکن اسکول اکیلے جانے سے ڈرتا تھا ۔ صبح میں بھائی لے جاتے تھے اور شام میں گھر سے ایک ملازمہ آتی تھی جو مجھے واپس لاتی تھی ۔ عبدالحکیم صاحب مجھ سے کہتے تھے کہ تم میں اکیلے آنے جانے کی ہمت پیدا کرنی چاہئے ۔ ایک دن اسکول ساڑھے تین بجے کی بجائے ایک بجے چھوٹ گیا ۔ مولوی صاحب نے کہا ، چلو میں تمہیںگھر چھوڑ دیتا ہوں ۔ میں اُن کے ساتھ ہوگیا ہم بمشکل ایک فرلانگ گئے ہوں گے کہ اُنہوں نے کہا مجھے کچھ ضروری کام ہے ۔ یہاں سے تم اکیلے چلے جاؤ ۔ میں تیز تیز قدم ڈالتے ہوئے اکیلے گھر پہونچ گیا ۔ اِس کے بعد میرا ڈر دور ہوگیا اور میں اسکول اکیلے جانے لگا ۔ اِس طرح مجھ میں خود اعتمادی اور ہمت پیدا ہوئی ۔

ساتویں کے بعد مجھے چادر گھاٹ ہائی اسکول میں شریک کرایا گیا جو اُس وقت شہر کے بہترین اسکولوں میں شمار ہوتا تھا ۔ ہمارے اساتذہ قابل اور محنتی تھے ۔ انگریزی ایم اے شکور صاحب پڑھاتے تھے ۔ اُن کو انگریزی زبان سے بے حد محبت تھی ۔ ہم سے وہ انگریزی میں گفتگو کرتے تھے ۔ ہمارا تلفظ اور گرامر درست کیا کرتے تھے ۔ ہم کو بھی انگریزی سے لگاؤ اُن کی وجہ سے پیدا ہوا ۔ ریاضی کے استاد محبوب علی صاحب تھے ۔ چھٹویں میں وہ ہم کو اتنا ہوم ورک دیا کرتے تھے کہ ساری تعطیلات اُسی کی نذر ہوجاتی تھیں ۔ مجھے وہ بہت چاہتے تھے ۔ جب میں میٹرک یعنی گیارھویں جماعت میں تھا تو میرے پاس گھڑی نہیں تھی ۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ امتحان کا پرچہ حل کرتے وقت گھڑی کا ہونا ضروری ہے ورنہ کبھی وقت کا صحیح اندازہ نہ ہونے سے کوئی سوال چھوٹ جاسکتا ہے ۔ امتحان کے پہلے تم میری گھڑی لے لینا اور امتحان کے بعد واپس کردینا ۔ اُن کے اِس پرخلوص اور شفقت آمیز رویے سے میرے بھائی اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے مجھے امتحان سے پہلے ایک گھڑی دلادی ۔ ہمارے ایک اور استاد ایس سبرانیم صاح تھے ۔ وہ مدراس کے گریجویٹ تھے ۔ انہوں نے مجھے انگریزی کے تحریری اور تقریری مقابلوں میں حصہ لینے کی ترغیب دی ۔ جس سے مجھے بہت فائدہ ہوا ۔ اردو کے استاد مولوی مرزا قدرت اللہ بیگ صاحب تھے ۔ جس سال میں نے میٹرک کا امتحان دیا تو امتحان کے بعد انہوں نے مجھے اپنے گھر بلایا ۔ کہنے لگے ، مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے ۔ اس لئے میں ایک راز کا کام تمہیں سونپتا ہوں ۔ میٹرک کے اردو کے پرچے میرے پاس آئے ہوئے ہیں ۔ مجھے اِن دنوں فرصت نہیں ہے ۔ تم نے خود اسی سال امتحان دیا ہے اور ہر سوال تمہیں ازبر ہے ۔ تم ان پرچوں کو حفاظت سے لے جاؤ اور ایک ہفتے میں جانچ کر مجھے لوٹا دو ۔ ہاں خیال رہے کہ پہلے دن پرچے جانچ کر مجھے دینا ۔ میں انہیں چیف اگزامنر کو دکھلاؤں گا ۔ وہ مطمئن ہوجائیں تو باقی پرچے بھی اسی طرح جانچ دینا ۔ میں نے حسب الحکم ایسا ہی کیا ۔ اُس سال چیف اگزامنر محترمہ زینت ساجدہ تھیں ۔ انہوں نے میرے جانچے ہوئے پرچے دیکھے ۔ ظاہر ہے کہ مولوی صاحب نے اُن سے یہ راز کی بات نہیں کہی تھی ۔ زینت ساجدہ نے صرف اتنا کہا کہ نمبرات اور زیادہ کھل کر دیجئے تاکہ بچوں کا فائدہ ہو ۔ بہرحال ہفتے عشرے میں میں نے مولوی صاحب کے حکم کی تعمیل کردی ۔ اُس کے بعد میں کالج میں داخل ہوگیا تھا اور بھول بھی گیا کہ میں نے مولوی صاحب کا کام کیا تھا ۔ کوئی چھ آٹھ مہینے کے بعد اچانک ایک دن مولوی صاحب ہمارے گھر آئے ۔

جیب سے سو روپئے نکالے اور کہا کہ پرچے جانچنے کے دو سو روپئے اب ملے ہیں ۔ سو روپئے میں رکھ رہا ہوں ۔ سو روپئے تم رکھ لو ۔ رمضان کے دن تھے ۔ میں نے پرچے جانچنے کو محض ایک خدمت سمجھ کر کیا تھا اور بھول بھی گیا تھا ۔ رمضان میں ہم کو پیسوں کی ضرورت بھی تھی ۔ مولوی صاحب کے دئے ہوئے سو روپئے بہت کام آئے ۔ ہمارے تاریخ و جغرافیہ کے اُستاد مولوی میر اقبال علی زیدی صاحب تھے ۔ بہت اچھا پڑھاتے تھے لیکن ان کی عجیب و غریب طبیعت تھی ۔ کوئی بات ناگوار گذرتی تو غیظ و غضب کا وہ عالم ہوتا کہ ہماری روح فنا ہوجاتی ۔ ایک مرتبہ رجب کے مہینے میں حضرت علیؓ کے یوم ولادت کے سلسلے میں دارالشفاء ہائی اسکول کی جانب سے ایک تقریری مقابلہ رکھا گیا تھا جو الاوہ سرطوق میں منعقد ہونے والا تھا ۔ ہمارے اسکول سے میرا اور میرے ایک ہم جماعت قادر حسین خان کا نام بطور ٹیم بھیجا گیا ۔

چار پانچ عنوانات دئے گئے تھے جو حضرت علی کی پاکیزہ زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق تھے ۔ ہماری دینی معلومات کافی ناقص تھیں اور انعام کے قابل تقریر کرنے کیلئے کافی معلومات چاہئے تھیں ۔ ہم نے سوچا کیوں نہ اس سلسلے میں زیدی صاحب سے مدد کی درخواست کی جائے ۔ مولوی زیدی صاحب ہمارے کلاس ٹیچر بھی تھے ۔ حسب معمول وہ پہلے گھنٹے میں آئے اور روز کی طرح پہلے حاضری لی ۔ اس کے بعد ہم ڈرتے ڈرتے کھڑے ہوئے ۔ زیدی صاحب نے پوچھا کیا بات ہے ؟ ہم نے دارالشفاء ہائی اسکول کا مراسلہ اُن کی خدمت میں پیش کیا ۔ زیدی صاحب نے سرسری طور پر اُسے دیکھا اور واپس کردیا پھر ہم نے عرض کیا ۔ ان عنوانات میں سے کسی ایک عنوان پر کچھ مواد اور نکتے بیان فرمادیجئے تاکہ ہم تقریری مقابلے میں حصہ لے سکیں ۔ زیدی صاحب کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ آئی جو عام طور پر اُس کے بعد آنے والے غیظ و غضب کا پیش خیمہ ہوتی تھی ۔ غضبناک ہوکر کہنے لگے ۔ ’ علی آپ کیلئے بھی ہیں اور میرے لئے بھی ۔ آپ کو خود مواد فراہم کرنا چاہئے اور تقریر کرنی چاہئے‘ ۔ ہم جانتے تھے کہ یہ غصہ عارضی ہے ۔ اس لئے جو بھی وہ کہیں خاموشی سے سننا چاہئے ۔ چنانچہ دو تین منٹ کے بعد وہ پھر سے شفیق استاد بن گئے ۔ کہنے لگے ’ اِس وقت تو مجھے کلاس نوٹس لکھانے ہیں ۔ اسکول کے اوقات کے بعد ملنا ، اسکول کے بعد کوئی آدھے گھنٹے کے اندر ہم کو انہوں نے ایسا عمدہ مواد فراہم کیا ، ایسے ایسے نکتے سمجھائے کہ ہماری زبردست تقریر تیار ہوگئی ۔ جب تقریری مقابلہ میں اِس ناچیز کا نام پکارا گیا اور ہم نے تقریر شروع کی تو ہر ہر جملے پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسنے لگے ۔ پہلا انعام مجھی کو ملا ۔ بعض اصحاب نے شخصی طور پر تحائف دئے ۔ کوئی سجاد حسین صاحب تھے جو ایک ماہ نامہ نکالتے تھے ۔ انہوں نے میرا پتہ لیا اور ایک سال کیلئے پرچہ جاری کردیا ۔ اپنے رسالے کا ایک شمارہ اُسی وقت یہ شعر لکھ کر دیا ۔

کیا دوں تجھے کچھ پاس دکھائی نہیں دیتا
کیوں میرے خدا ساری خدائی نہیں دیتا
ایک صاحب نے جیب سے ایک قیمتی فاونٹن پن نکالا اور مجھے عطا کردیا ۔ اُس زمانے میں ایک نواب طاہر علی خان صاحب ہوا کرتے تھے ۔ جن کے نام کے ساتھ ارم کاٹیج معظم جاہی مارکٹ لکھا ہوتا تھا ۔ اُن کی طرف سے میرے لئے پچیس روپئے کے خصوصی انعام کا اعلان ہوا ۔ یہ 1958 کی بات ہے ۔ دوسرے دن ہم نے مولوی زیدی صاحب کو پوری روداد سنائی ۔ مولوی صاحب نے ایک بے نیازانہ مسکراہٹ کے ساتھ ہماری بات سنی ۔ نہ اپنا احسان جتایا نہ کسی سے بولتے پھرے کہ دیکھو میری ہدایت اور مدد سے یہ لڑکا اول آیا ۔ یہ ہمارے اساتذہ کی عالی ظرفی تھی ۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج سرکاری مدارس کا وہ معیار باقی نہیں ہے ۔ پہلے خوشحال گھرانوں کے بچے بھی سرکاری مدارس میں تعلیم حاصل کرتے تھے ۔ آج غریب اور متوسط طبقے کے لوگ بھی اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں شریک کراتے ہیں۔ کہیں سرکاری مدارس کی عمارتیں نہایت بوسیدہ اور مخدوش ہیں، کہیں اساتذہ کی عدم دلچسپی کا رونا ہے ۔ نتائج بھی اطمینان بخش نہیں ہیں ۔ آج یوم اساتذہ کے موقع پر ہمیں اپنا محاسبہ کی ضرورت ہے ۔ سب سے مقدم بات تو یہ ہے کہ طلباء اُستاد کے مقام کو پہچانیں اور اُن کا ادب کریں ۔ اساتذہ بھی ہر طالب علم کو خدا کی دی ہوئی امانت سمجھیں ۔ جس طرح قلعی گر برتنوں کو چمکاتا ہے ۔ اُسی طرح اساتذہ اپنے شاگردوں کے دماغوں کو جلا بخشیں ۔ آج اگر آپ کسی وظیفہ یاب اعلی عہدیدار ، انجینئیر یا ڈاکٹر سے پوچھیں کہ اُس نے ابتدائی تعلیم کہاں حاصل کی تو پتہ چلے گا کہ اُن میں سے بیشتر نے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کی تھی ۔ اب وہ بات کیوں نہیں ۔ ہمارے دل میں اساتذہ کی بہت عزت ہے ۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ آج کے اساتذہ اور آج کے طالبِ علم اور خود محکمہ تعلیم اِس یوم اساتذہ کے موقع پر نظام تعلیم میں بہتری اور عمدہ کارکردگی کی طرف پوری توجہ دے گا ۔
ذرا نم ہوتو یہ مٹی بہت زر خیز ہے ساقی