یادِ رفتگان شاذ تمکنت

ڈاکٹر فاروق شکیل
اجمالی تعارف
نام : سیدمصلح الدین ، قلمی نام شاذؔ تمکنت ، پیدائش 31 جنوری 1933 ء حیدرآباد ، وفات 18 اگست 1985 ء حیدرآباد ، تعلیم ایم اے پی ایچ ڈی (عثمانیہ) ، پیشہ : مدرس شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ ، پہلا مجموعہ : تراشیدہ ، 1966 ، دوسرا مجموعہ ’’بیاض شام 1973 ء ، تیسرا مجموعہ : نیم خواب 1977 ء ، چوتھا مجموعہ دست فرہاد 1994 ء ، (بعد از مرگ) ، ’’کلیات شاذ‘‘ 2004 ء ، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہا ؤس دہلی (انتخاب کلام ورق انتخاب 1981 ء حیدرآباد (انڈیا) اور کراچی پاکستان سے ایک ساتھ شائع ہوا)
شاذ تمکنت یہ وہ خوبصورت نام ہے جو آج تک  ذہنوں پر رقم ہے۔ باوقار، بے مثال شاعر ، پسندیدہ استاد پرکشش شخصیت، اعلیٰ  ظرف  انسان، جن پر دکن کو ناز تھا جن کی شاعری کا سرور ہر سخن شناس پر چھایا رہتا تھا ۔ سنانے کا انداز بھی اتنا دل نشین ہوتا تھا کہ سننے والا مسحور ہوجاتا تھا ۔ موسیقی کی محفلوں میں جب ان کا گیت موج و ساحل سے ملو گایا جاتا تھا تو ذہن و دل مخمور ہوجاتے ۔ ان کی مناجات ’’کب تک مرے مولا‘‘ جسے پدم شری عزیز احمد خاں وارثی نے دل نشین دھن میں گاکر زبان زد خواص و عام کردیا یا پھر ان کی نعت ’’آپ اکیلے مل جائیں تو دامن تھام کے رولوں گا‘‘ آنکھوں کو پرنم کردیتی ہے ۔ شاذؔ تمکنت آج ہم میں نہیں ہیں لیکن ہمارے ذہنوں اور کتابوں میں زندہ ہیں۔
منتخب اشعار
زنجیرِ گل و لالہ چپکے سے ہلادینا
اے بادِ بہار اپنی آمد کا پتا دینا
جوہرِ چہرہ شناسی نہیں آئینے میں
اپنی بھولی ہوئی تصویر پہ رونا آیا
سانس لیں زخم کا ٹانکا نہ کھلے
ہم نے بس اتنا ہنر جانا ہے
یاد آتا ہے سر جام کسی کا کہنا
تم نہ پینا مری آنکھوں کی قسم ہے دیکھو
سانس روکے ہوئے پھرتا ہوں بھرے شہر میں شاذؔ
اس نے کیا راز دیا مجھ کو چھپانے کیلئے
شاذ پوچھو کہ یہ آنکھوں کا دھندلکا کب تک
رات آئی نہیں یا نہیں آئی ہے
وہی تصویر جسے میں نے بنایا سو بار
وہی تصویر پھر اک بار بنالیتا ہوں
ایک دنیا کی سنا کرتا ہوں ، چپ رہتا ہوں
تو منائے گا تو من جاؤں گا سچ کہتا ہوں
زندگی ہے تو بہرحال گزرجائے گی
دل کو سمجھایا تھا کل، آج بھی سمجھائیں گے
روشنی چھنتی ہوئی آس کے کاشانے سے
کوئی بھولے سے کھلا چھوڑ گیا پٹ جیسے
حد ہے تری آواز سنائی نہیں دیتی
شاید کہ مری روح میں کہرام بہت ہے
کبھی کبھی تو اندھیرا بھی خوبصورت ہے
ترا خیال کہیں روشنی نہ بن جائے
گھر سے نکلوں تو بھرے شہر کے ہنگامے ہیں
میں وہ مجبور تری یاد میں رو بھی نہ سکوں
مرا ضمیر بہت ہے تجھے سزا کیلئے
تو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کیلئے
وعدہ (نظم)
بھٹک رہے ہیں فراموشیوں کے کُہرے میں
دلوں میں یاد شب گم شدہ جگائے ہوئے
سلگتے بجھتے ہوئے دور اس کے جگنو
تمہاری راہ میں کب سے ہوں میں ستارہ بکف
محبتوں کے زمانے کا بوجھ اٹھائے ہوئے
غلط نہ سمجھو مرے غم کا اعتبار کرو
گھنیری شام جہاں دونوں وقت ملتے ہوں
شفق کے زینے پہ تم میرا انتظار کرو