ہوا کے سامنے سینہ سپر تو رہتا ہے

راہول۔پرینکا بمقابلہ مودی۔امیت شاہ
کشمیر اسمبلی انتخابات میں تاخیر کیوں؟

رشیدالدین
لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے کیلئے پرچہ نامزدگی کے ادخال کا سلسلہ جاری ہے۔ سیاسی جماعتوں اور قائدین نے ایک دوسرے کے خلاف حملوں کو تیز کردیا گیا لیکن عوام میں الیکشن کو لیکر کوئی خاص دلچسپی دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ رائے دہندوں میں عدم دلچسپی اور بے حسی کی آخر کیا وجوہات ہیں۔ کیا عوام کا سیاستدانوں پر سے بھروسہ اٹھ گیا ہے ؟ پارٹیوں اور امیدواروں کے اعلانات اور وعدوں کو سن سن کر عوام کے کان پک چکے ہیں۔ الیکشن سے قبل خوشحالی کے خواب اور ہتھیلی میں جنت دکھائی جاتی ہے لیکن نتائج کے ساتھ ہی پھر وہی مسائل جوں کے توں برقرار۔ آخر کب تک الیکشن پروسیس کو مذاق بنایا جاتا رہے گا۔ بات دراصل یہ ہے کہ ملک میں سیاسی جماعتوں کو انتخابی وعدوں کے بارے میں جوابدہ بنانے کا کوئی قانون یا میکانزم موجود نہیں جس کا فائدہ سیاسی جماعتیں اٹھا رہی ہیں۔ عوام کو خوش کرنے کیلئے ناقابل عمل وعدوں پر مبنی منشور جاری کئے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن ضابطہ اخلاق کے نفاذ اور رقومات کے خرچ کی نگرانی تو کرتا ہے لیکن پارٹیوں کے انتخابی منشور کے قابل عمل ہونے کی جانچ کون کرے گا۔ پارٹیوں اور امیدواروں کو پابند کیا جائے کہ وہ وعدوں پر عمل آوری کے بارے میں الیکشن کمیشن کو مطمئن کریں۔ پانچ سال گزرنے کے بعد اور نئے انتخابات سے قبل برسر اقتدار پارٹی اور منتخب نمائندے وعدوں کی تکمیل کے بارے میں پرفارمنس رپورٹ داخل کریں جسے عوام کیلئے بھی جاری کردیا جائے تاکہ وہ جان سکے کہ کون کتنا سچا اور ہمدرد ہے۔ پارٹیاں ہر الیکشن میں نئے وعدوں کے ساتھ عوام کے درمیان آرہی ہیں۔ اقتدار اور اپوزیشن میں علحدہ علحدہ موقف ہوتا ہے، بھلے ہی مسائل یکساں کیوں نہ ہوں۔ پارٹیوں کے اس رویہ نے الیکشن کے جمہوری نظام پر عوام کے اعتماد کو متزلزل کردیا ہے۔ نتیجہ میں چناؤ دن بہ دن مہینگے ہوچکے ہیں۔ ریالیوں اور جلسوں میں دکھائی دینے والی زیادہ تر بھیڑ رضاکارانہ طور پر نہیں بلکہ رقومات کے عوض لائی جاتی ہے ۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پانچ سال کی کمائی ہوئی دولت کا کچھ حصہ عوام پر خرچ کیا جاتا ہے۔ کانگریس اور بی جے پی نے ایک دوسرے کے اسکامس کو بے نقاب کرنا شروع کردیا ہے، جسے انتخابی ماحول میں سیاسی سرجیکل اسٹرائیک کہا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امیت شاہ جارحانہ تیور کے ذریعہ 2014 ء کے انتخابی نتائج کو دہرانہ چاہتے ہیں جبکہ کانگریس صدر راہول گاندھی اور جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے بی جے پی کو دوسری میعاد سے روکنے کا بیڑہ اٹھایا ہے ۔ پرینکا کی اترپردیش میں گنگا یاترا جاری ہے۔ ’’ووٹ کیلئے بوٹ‘‘ یعنی کشتی میں سفر دراصل یو پی کانگریس کی عظمت رفتہ کو بحال کرنا ہے۔ پرینکا گاندھی کے عملی سیاست میں قدم رکھنے سے کانگریس میں نئی جان ضرور آئی ہے لیکن اترپردیش میں کس حد تک فائدہ ہوگا کہنا مشکل ہے۔ ریاست کی دو بڑی طاقتوں ایس پی اور بی ایس پی اتحاد نے کانگریس کے چیلنج میں اضافہ کردیا ہے۔ اگر پرینکا کی مقبولیت اور کرشمہ کا جادو چل گیا تب بھی سیکولر ووٹ کی تقسیم کا خطرہ برقرار رہے گا۔ ملک کی دیگر ریاستوں میں پرینکا گاندھی بی جے پی کے لئے خطرہ ہوسکتی ہیں۔ انتخابی مہم کے ابتدائی دور میں اہم سیاسی جماعتوں کے ایک یا دو اسٹار کیمپینر میدان میں نظر آرہے ہیں۔ پارٹیوں نے اپنے ہراول دستوں کو ابھی نہیں چھوڑا ہے ۔ بی جے پی سے نریندر مودی اور امیت شاہ ، کانگریس سے راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔ علاقائی پارٹیوں میں صورتحال دلچسپ ہے۔ کہیں باپ بیٹے تو کہیں ماں بیٹا۔ تلنگانہ اور آندھراپردیش کی برسر اقتدار پارٹیوں نے باپ بیٹا انتخابی مہم پر چھائے ہوئے ہیں۔ کے سی آر ۔ کے ٹی آر اور دوسری طرف نائیڈو ۔ لوکیش۔ آندھراپردیش کی اپوزیشن پارٹی میں جگن کے ساتھ ان کی ماں اور بہن مہم میں شریک ہیں۔ الیکشن کے اعلان سے قبل قومی اتحاد کے قیام کی مساعی کی گئی لیکن یہ محض فوٹو سیشن تک محدود رہی۔ ریاستوں میں کوئی بھی نشستوں کی قربانی دینے تیار نہیں ہے ۔ قومی اتحاد کے اسٹیج پر چندرا بابو نائیڈو ، ممتا بنرجی ، اکھلیش یادو ، مایاوتی ، اور اروند کجریوال دکھائی دیئے لیکن ان کی ریاستوں میں کانگریس کیلئے نشستیں چھوڑنے تیار نہیں۔ اس طرح بیشتر ریاستوں میں سیکولر پارٹیاں تنہا مقابلہ کر رہی ہیں۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے علاقائی جماعتوں پر مشتمل فیڈرل فرنٹ کی مہم چلائی تھی لیکن یہ محض خواب بن کر رہ گئی ۔ علاقائی جماعتوں نے اس ووٹ کٹوا فرنٹ کی تائید نہیں کی۔ نریندر مودی حکومت کے عوام دشمن فیصلوں کے خلاف غیر بی جے پی اتحاد کی تشکیل میں رکاوٹ کیلئے کون ذمہ دار ہیں۔ عوام سوال کر رہے ہیں کہ جب ایجنڈہ ایک تھا تو پھر نشستوں پر مفاہمت کیوں نہیں ؟ اگر بی جے پی کے خلاف ہر حلقہ میں اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار ہوتا تو صورتحال یقینی طور پر مختلف ہوتی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ غیر بی جے پی پلیٹ فارم پر بی جے پی کے ہمدرد موجود ہیں تو کسی بھی صورت میں مخالف بی جے پی ووٹ متحد کرنا نہیں چاہتے ۔چندر شیکھر راؤ نے فیڈرل فرنٹ کی کوششوں سے مایوسی کے بعد قومی جماعت کے قیام کا اشارہ دیا ہے ۔ کے سی آر کی سیاسی اننگز کا گہرائی سے جائزہ لیں تو ان کے لئے اعلانات کرنا فیشن بن چکا ہے۔ انہوں نے سابق میں بھی اس طرح کے کئی دعوے کئے تھے لیکن عمل میں صفر ثابت ہوئے ۔ الغرض کئی ریاستوں میں علاقائی جماعتیں کانگریس کو شجر ممنوعہ تصور کر رہی ہیں۔ راہول گاندھی کو وزیراعظم کے طور پر کانگریس پروجکٹ کر رہی ہے لیکن اترپردیش ، بہار ، مغربی بنگال ، آندھراپردیش ، اڈیشہ ، ٹاملناڈو ، دہلی ، ہریانہ ، گجرات اور تلنگانہ میں اس کا موقف کمزور ہے۔ ان حالات میں اپوزیشن ایک منتشر گھر کی حالت میں بی جے پی اور نریندر مودی کا مقابلہ کس طرح کرپائے گا؟
پلوامہ دہشت گرد حملہ اور پھر پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ہندوستانی فضائیہ کی کارروائی کے بعد ملک میں نریندر مودی کا موقف مستحکم ہوا ہے۔ ان دونوں واقعات کو دیش بھکتی سے جوڑ کر بی جے پی رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے ۔ جہاں تک قوم پرستی کا سوال ہے ، یہ جذبہ کسی مخصوص طبقہ کے بجائے ساری قوم میں ہونا چاہئے لیکن بی جے پی کو ہندو ووٹ بینک کی ضرورت ہے ، لہذا وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ صرف بی جے پی حکومت ملک کو دہشت گرد کارروائیوں سے بچا سکتی ہے۔ دوسری طرف کانگریس کی مہم کا سارا دارومدار رافیل جنگی طیاروں کی خریدی میں دھاندلیوں پر دکھائی دے رہا ہے ۔ محض ایک مسئلہ سے کامیابی کا حصول ممکن نہیں اور یہ عام آدمی سے جڑا ہوا مسئلہ نہیں ہے ۔ کانگریس اور اس کی انتخابی مہم کے ذمہ داروں کو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانی پڑے گی ۔ انتخابات سے عین قبل نریندر مودی حکومت نے کئی اسکیمات کا اعلان کیا۔ پنشن اور دیگر امدادی رقومات میں اضافہ کیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ رائے دہی سے قبل عوام کے بینک اکاؤنٹ میں راست طور پر اسکیمات کی رقم جمع کردی جائے تاکہ بی جے پی کے حق میں فیصلہ ہوسکے۔ تلنگانہ میں رائے دہی سے 48 گھنٹے قبل بینک اکاؤنٹ میں رعیتو بندھو اسکیم کی رقم جمع کی گئی تھی ۔ الیکشن کمیشن نے اس مرتبہ کئی نئی پابندیاں عائد کردی ہیں ۔ سوشیل میڈیا کو بھی ضابطہ اخلاق کے دائرہ کار میں شامل کرلیا گیا۔ الیکشن کمیشن کیلئے ضابطہ اخلاق پر عمل آوری کو یقینی بنانا اس لئے بھی آسان نہیں کیونکہ ریاستوں میں عہدیدار مقامی حکومتوں کے تحت کام کرتے ہیں اور وہ کسی نہ کسی طرح برسر اقتدار پارٹی سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ بی جے پی نے 2019 ء میں اپنے سینئر 91 سالہ ایل کے اڈوانی کے سیاسی کیریئر کو ختم کردیا ۔ پارٹی نے گاندھی نگر لوک سبھا حلقہ سے امیت شاہ کی امیدواری کا اعلان کیا۔ اس طرح ایل کے اڈوانی کے دور کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ ایل کے اڈوانی جنہوں نے 1990 ء میں رام مندر تحریک کی قیادت کرتے ہوئے دو ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل بی جے پی کو اقتدار کی راہ پر گامزن کردیا تھا، آج وہ پارٹی میں اجنبی بن چکے ہیں۔ ایل کے اڈوانی 1998 ء سے گاندھی نگر لوک سبھا حلقہ سے منتخب ہورہے تھے اور امیت شاہ ان کے پول مینجر تھے، جو آج پارٹی صدر کی حیثیت سے خود اپنے استاد کا ٹکٹ کاٹ چکے ہیں۔ ویسے بھی نریندر مودی کے سیاسی عروج کے ساتھ ہی ایل کے اڈوانی کی سیاست کو گہن لگ چکا تھا۔ ان کے ساتھ اٹل بہاری واجپائی اور مرلی منوہر جوشی بھی پس منظر میں چلے گئے تھے ۔ ایل کے اڈوانی کو اگرچہ زائد عمر کے سبب لوک سبھا انتخابات سے دور رکھنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے لیکن سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ نریندر مودی نے وزیراعظم کے عہدہ کے لئے اڈوانی کی جانب سے شیوراج سنگھ چوہان کی تائید کا بدلہ لے لیا ہے ۔ رام مندر تحریک سے لیکر بابری مسجد کی شہادت تک ملک میں رتھ یاترا کے سبب فسادات کی داستانیں آج بھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ بی جے پی میں اڈوانی کا جو حشر ہوا ، اس سے یہ ضرور کہا جائے گا کہ بابری مسجد اپنے قاتلوں کا پیچھا کر رہی ہے۔ دوسری طرف مرکزی حکومت نے کشمیر میںلوک سبھا انتخابات کے ساتھ اسمبلی انتخابات کے انعقاد کی مخالفت کی ہے ۔ الیکشن کمیشن نے لوک سبھا انتخابات کی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب لوک سبھا الیکشن کیلئے حالات سازگار ہیں تو پھر اسمبلی الیکشن کیلئے پرآشوب کیسے ہوسکتے ہیں ، بیک وقت دونوں چناؤ کیلئے رائے دہی مقرر کی جاسکتی ہے۔ اپنے مطلب کیلئے پارلیمنٹ کا الیکشن اور مقامی افراد کو اپنی پسندیدہ حکومت کے قیام سے محروم رکھنا کہاں کا انصاف ہے۔ ملک کے حالات پر وسیم بریلوی کا یہ شعر ہمیں یاد آگیا ؎
ہوا کے سامنے سینہ سپر تو رہتا ہے
مگر چراغ ہے بجھنے کا ڈر تو رہتا ہے