ہند و دہشت گردی کی اصطلاح

ایک عرصہ سے فقط مسلم ہی دہشت گرد تھے
ہندو بھی دہشت گرد ہیں یہ اک نئی تحقیق ہے
ہند و دہشت گردی کی اصطلاح
گذشتہ چند برسوں کے دوران ہندوستان میں دہشت گردی نے نیا رخ اختیار کرلیا ہے ۔ گوا میں ہونے والے معمولی بم دھماکوں سے لے کر سمجھوتہ ایکسپریس ‘ مالیگاوں اور حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد میں ہوئے بم دھماکوں میں ہندو دہشت گردوں کے ملوث ہونے کا پتہ چلا ہے جس کے بعد سے ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرستوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ یہ ہمیشہ ہی دہشت گردی کو مسلمانوں اور اسلام سے جوڑنے میں پیش پیش رہا کرتے تھے ۔ مہاراشٹرا کے انسداد دہشت گردی دستہ سے وابستہ آنجہانی ہیمنت کرکرے نے ملک میں مختلف مقامات پر ہوئے بم دھماکوں میں ہندو دہشت گردوں کے رول کو بے نقاب کرتے ہوئے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر ‘ اسیمانند سوامی ‘ کرنل پروہت اور دوسرے ملزمین کو گرفتار کیا تھا ۔ اس وقت سے مختلف دھماکوں میں ہندو دہشت گردوں کے رول کا پتہ چلنا شروع ہوا تھا اور مسلمانوں و خاص طور پر تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنانے والے عہدیداران پولیس کا منہ بند ہونے لگا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ مرکز کی نریندر مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کو ہندو دہشت گردی کی اصطلاح پسند نہیں آئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے یہ کہا کہ ہندو دہشت گردی کی اصطلاح سابقہ یو پی اے حکومت نے شروع کی تھی جس کے نتیجہ میں دہشت گردی کے خلاف جدوجہد نرم پڑگئی ۔ یہ درست ہے کہ دہشت گردوں کا عملا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ دہشت گردی کو کسی ایک مذہب سے جوڑا جاسکتا ہے ۔ جس طرح جرائم پیشہ افراد کا کسی ایک مذہب سے تعلق نہیں ہوتا اسی طرح دہشت گردوں کو بھی ایک مذہب سے جوڑ کر مذہب کو بدنام یا رسوا نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن جس طرح سے ہندو فرقہ پرستوں نے ہندوستان میں دہشت گردانہ حملوں کیلئے مسلمانوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تھا اور مذہب اسلام کو اس سے جوڑتے رہے تھے اس کے بعد ہندو دہشت گردی کی اصطلاح کا رائج ہونا فطری بات تھی کیونکہ کئی بم دھماکوں میں ہندو مذہب کے ماننے والوں کا رول بے نقاب ہوا تھا ۔ ہر مذہب کے ماننے والوں میں اچھے اور برے دونوں طرح کے افراد شامل ہوتے ہیں یہ ان کی شخصی برائی ہوتی ہے مذہب کی نہیں۔
جس طرح راج ناتھ سنگھ نے ہندو دہشت گردی کی اصطلاح پر اعتراض کیا ہے اسی طرح ماضی میں اسلامی دہشت گردی یا جہادی جیسی اصطلاحات کو بھی متعصبانہ ذہنیت کے ساتھ عام کیا گیا ۔ ذرائع ابلاغ نے بھی در پردہ اس میں اپنا رول ادا کیا اور انہوں نے ہی عوام کے ذہنوں میں مسلمانوں کی شبیہہ کو متاثر کرنے میں سب سے زیادہ رول ادا کیا تھا ۔ جب اسلام کو اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑا جاتا رہا تھا اس وقت نہ راج ناتھ سنگھ نے اعتراض کیا تھا نہ کسی اور گوشے نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی ۔ یہ حقیقت ہے کہ کچھ انصاف پسند شخصیتوں اور گوشوں نے ایسی اصطلاحات پر ابتداء سے اعتراض کیا تھا لیکن راج ناتھ سنگھ کی پارٹی ہی مسلمانوں کو اور اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے اور جہادی جیسی اصطلاحات کو ہوا دینے میں سب سے آگی رہی ہے ۔ خود بی جے پی کی ہم قبیل غیر سیاسی تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ کو مسلمانوں سے جوڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی تھی ۔ حد تو یہ ہوگئی تھی کہ تحقیقاتی ایجنسیوں کے بعض اعلی عہدیدار بھی جائے وقوع پر پہونچتے ہی یا پہونچنے سے قبل ہی ان دھماکوں کو مسلمانوں سے مربوط کردیا کرتے تھے ۔ تاہم آنجہانی ہیمنت کرکرے نے تحقیقات کو کسی پیشگی نقطہ نظر کے تابع رکھنے کی بجائے پیشہ ورانہ مہارت اور دیانت داری کے ساتھ آگے بڑھاتے ہوئے ہندو دہشت گردوں کے رول کو بے نقاب کیا تھا ۔ ان حملوں کے الزامات میں کئی ہندو تنظیموں کے کارکنوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے تھے اور وہ جیلوں میں ہیں۔
جس طرح راج ناتھ سنگھ نے ہندو دہشت گردی کی اصطلاح کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اسی طرح انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کو صرف دہشت گردی کی اصطلاح تک محدود رکھنے کی وکالت کریں۔ ہندو دہشت گردی کی اصطلاح پر جس طرح کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اسی طرح اسلامی دہشت گردی یا جہادی جیسی اصطلاحات کو ہوا دینے والوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جائے ۔ راج ناتھ سنگھ نے آج جہاں ہندو دہشت گردی کی اصطلاح کی مذمت کی وہیں انہیں ان عناصر کی بھی مذمت کرنی چاہئے تھی جنہوں نے دہشت گردی کو مسلمانوںو اسلام سے جوڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ لیکن راج ناتھ سنگھ نے اس سے گریز کیا ۔ اس سے خود ان کے دوہرے معیارات ظاہر ہوتے ہیں۔ جہاں ایک مذہب کو جوڑنے کی مذمت کی جاتی ہے وہیں دوسرے مذہب کو اس سے جوڑنے کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔