ہند۔ چین تعلقات ‘ اتار چڑھاو

ہندوستان اور چین ایک دوسرے کے پڑوسی اور دیرینہ تعلقات رکھنے والے ممالک ہیں۔جغرافیائی اعتبار سے دونوںملکوں کو خصوصی اہمیت بھی حاصل ہے ۔ دونوں ملکوں کو اپنے اپنے علاقہ میںانتہائی مرکزی مقام حاصل ہے ۔عالمی امور میں بھی دونوں ملکوں کی اہمیت اور ان کی رائے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ دونوںملکوں کے صدیوں قدیم تعلقات رہے ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمہ سے قبل تک یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے بہترین دوست اور رفیق ہوا کرتے تھے ۔ ہندوستان کی خارجہ پالیسی جب تک ناوابستہ تحریک کی مطابقت میں رہی اس وقت تک دونوں ملکوں کے تعلقات مثالی ہوا کرتے تھے ۔دونوں ملکوں کے مابین تجارت کو بھی فروغ حاصل ہوتا رہا تھا تاہم سرد جنگ کے خاتمہ اور سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد سے ان تعلقات میں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہوگیا تھا ۔ جب سے ہندوستان کی دوستی امریکہ کے ساتھ گہری ہوتی گئی اور دونوں ملکوں کے مابین قرابت بڑھنے لگی اس وقت سے چین نے بھی علاقہ میں اپنے لئے پاکستان کی صورت میں نیا دوست تلاش کرلیا ہے ۔ سرد جنگ سے قبل پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو کافی استحکام حاصل تھا لیکن اب امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں وہ گرم جوشی نہیں رہی اور چین کے ساتھ تعلقات پاکستانی خارجہ پالیسی میںمرکزی مقام حاصل کرچکے ہیں۔ ایسے میں ہندوستان اور چین کے مابین اختلافات پیدا ہونے شروع ہوگئے ۔ دونوں ملکوں کے مابین سرحدی تنازعہ پر اختلافات پہلے ہی سے ہیں ۔ پاکستان کی ایما پر جب سے چین نے سرحدات کی وقفہ وقفہ سے خلاف ورزی شروع کی ہے ان اختلافات میں شدت پیدا ہونی شروع ہوگئی ہے ۔ کشمیر میں بھی چین کی جانب سے وقفہ وقفہ سے چین کی سرگرمیاں ہندوستان کیلئے تشویش کا باعث ہیں۔ جئیش محمد تنظیم کے سربراہ مسعود اظہر کو دہشت گردقرار دینے ہندوستان کی کوششوں میں چین کی جانب سے جو رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیںاس پر بھی ہندوستان نا راض ہے ۔ اب ایک طرح سے چین کا عملی طور پر جواب دینے کی کوشش کے طور پر ہندوستان نے چین کے ایک باغی لیڈر کو ہندوستان کا ویزا جاری کردیا ہے جسے چین کی جانب سے دہشت گرد قرار دیا جاچکا ہے ۔

ایک طرف دونوں ممالک کی جانب سے تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے ہر ممکنہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اعلی ترین سطح پر قائدین کے دورے ہو رہے ہیں۔ وزرا ایک دوسرے کے ملکوںکو آتے اور جاتے رہے ہیں ۔ وزرائے اعظم کے مابین تبادلہ خیال ہوا ہے ۔ اب آئندہ مہینے صدر جمہوریہ پرنب مکرجی بھی چین کا دورہ کرنے والے ہیں۔ دونوں ملکوں یہ ادعا کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے باہمی تعلقات کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس کے باوجود انتہائی اہمیت کے معاملات پر ایک دوسرے کے احساسات کا پاس و لحاظ رکھنے سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ اس صورتحال میں باہمی تعلقات کو بہتر اور مستحکم بنانے کی کوششیں ثمر آور ہونے کے امکانات کم سے کم ہوجاتے ہیں۔ عملی طور پر دونوں ملکوں کی خارجہ پالیسی میں ایک دوسرے کے تعلق سے بالکل برعکس موقف اختیار کیا گیا ہے ۔ دونوںممالک نے اپنی اپنی ترجیحات میں بھی تبدیلی پیدا کردی ہے ۔تجارتی محاذ پر بھی تعلقات اس سطح تک نہیں پہونچ پائے ہیں جتنی دونوں ملکوں میں صلاحیت پائی جاتی ہے ۔ دونوں ملکوں میں دنیا کی کثیر آبادی رہتی اور بستی ہے ۔ یہ دونوں ہی انتہائی بڑے ممالک ہیں اور اگر ان کے باہمی اختلافات کو دور کرلیا جاتا ہے تو دونوںملک ایک دوسرے کے تجربہ سے کافی فائدہ اٹھاسکتے ہیںاور اس سے ترقی کے سفر میںآسانی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ اس حقیقت سے چین کو اور ہندوستان کو انکار نہیں ہونا چاہئے کہ ایک دوسرے سے بہتر تعلقات خود دونوں ملکوں کے ‘ ان کے عوام کے اور سارے علاقہ کے مفادات وابستہ ہوسکتے ہیں۔

ہندوستان اور چین اہم ترین معاملات میں اگر ایک رائے ہوجائیں تو وہ عالمی سطح پر بھی موثر رول ادا کرسکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرسکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے تجربہ سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ ایک دوسرے کی ترقی میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔یقینی طور پر جہاں دو پڑوسی ہوتے ہیں ان میں اختلاف رائے ہوسکتا ہے لیکن اس اختلاف کو شدت سے بچانے اور اختلافات کو کم سے کم کرنے کیلئے کوشش ہونی چاہئے ۔ دونوں ملکوں کے مابین اعلی سطح پر جو رابطے ہو رہے ہیں وہ خوش آئند ہیں اور ان سے تعلقات میں بہتری کی سمت پیشرفت ہوسکتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ملک دوسرے ملک کی فکر و تشویش کو سمجھے ۔ اس کے احساسات کا خیال رکھے اور اپنے اپنے موقف میں نرمی پیدا کرے ۔ جب ایک دوسرے کے تعلق سے بہتر سمجھ بوجھ سے کام لیا جانا شروع ہوگا تو اختلافات کو دور کرنے میں بھی کافی مدد مل سکتی ہے ۔