ہند۔پاک مذاکرات کی منسوخی کا ذمہ دار کون ؟

غضنفر علی خان

بڑی امیدوں اور آرزوؤں سے 23 اگست کو ہندوستان اور پاکستان کے سیکوریٹی امور کے مشیروں کی بات چیت نئی دہلی میں ہونے والی تھی لیکن آخری لمحات میں یہ منسوخ کردی گئی۔ گفتگو کی  منسوخی کا اعلان پاکستان کے مشیر برائے صیانتی امور  سرتاج عزیز نے کیا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ پاکستان اس بات چیت میں کشمیر کے علحدگی پسند حریت کے لیڈروں کو شامل کرنا چاہتا تھا جبکہ ہندوستان اس کا مخالف تھا اور رہے گا کیونکہ حریت کانفرنس کے لیڈر کسی بھی طرح ، کسی بھی زاویہ سے کشمیری عوام کے نمائندہ نہیں ہیں، ان کی کوئی سیاسی شناخت بھی نہیں ہے ۔  حریت کانفرنس 27 چھوٹی چھوٹی مقامی پارٹیوں پر مشتمل ایک گروپ ہے جس نے کبھی بھی کشمیر اسمبلی میں کوئی نمائندہ منتخب نہیں کیا اور نہ کبھی اس کا کوئی لیڈر پارلیمان کی دہلیز تک پہنچ سکا۔ کشمیری عوام گزشتہ کئی برسوں سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ وہاں کی نیشنل کانفرنس اور مفتی سعید کی پارٹی کانگریس حدیہ کہ بائیں بازو کی جماعت بھی چناؤ میں حصہ لیتی ہے۔ ایک کمیونسٹ رکن اسمبلی کیلئے منتخب ہوتا ہے لیکن سوائے گلی کوچوں اور سڑکوں پر بے ہنگم مظاہرے کرنے ، خلاف قانون حرکات کرنے ، کرفیو نافذ کرنے کے حالات پیدا کرنے کے حریت کانفرنس کا کہیں وجود تک نہیں ہے ۔

کشمیری عوام کی نمائندگی کرنے کا جھوٹا دعویٰ کرنے والی حریت کیوں قانونی ایوانوں میں اپنے نمائندے نہیں بھیجواتی ہے۔ کیوں کشمیر اسمبلی میں وہ سب کچھ نہیں کہا جاتا جو سڑکوں اور گلی کوچوں میں کہا جاتا ہے۔ ہر اہم موقع پر پاکستانی پرچم لہرانے پاکستان کی بے محل تائید کرنے اور موافق پاکستان نعرے بلند کرنے والے حریت کے لیڈروں کی اور کوئی سیاسی شناخت کشمیر میں نہیں ہے ۔ فاروق عبداللہ ، عمر عبداللہ ، مفتی سعید ان کی صاحبزادی محبوبہ مفتی البتہ ہر انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں ۔ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے پاکستان حریت کانفرنس کے لیڈروں کو دونوں  میں ہونے والی اعلیٰ سطح کی بات چیت میں شامل کرنے کی ضد کرتا ہے ۔ حالانکہ ہند۔پاک کے درمیان تاشقند معاہدہ، شملہ معاہدہ میں یہ واضح کردیا گیا ہے۔ دونوں ممالک میں صرف دو طرفہ مذاکرات ہوئی ہیں یعنی کوئی تیسرا فریق نہیں ہوتا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ دور دراز کے ملک امریکہ کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہے لیکن ہمارے پڑوسی ملک نے کبھی عقل کے ناخن نہیں لئے ۔حریت کانفرنس کے لیڈروں سے عیدالفطر کے موقع پر پاکستانی سفیر برائے ہند کا ان ممنوعہ لیڈروں کا مدعو کیا جانا صاف ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان، ہندوستانی جذبات کا احترام نہیں کرتا ہے، جبکہ ڈپلومیسی کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ پڑوس ملک کے داخلی معاملات میں دوسرا ملک مداخلت نہ کرے۔ اگر ہندوستان اپنے طور پر پاکستان دہشت پسند گروپ میں سے کسی گروپ سے بات چیت کرنا چاہے تو کیا پاکستان اس کی اجازت دے گا اور کیا ایسی صورتحال باہمی تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہوگی ۔

پاکستان کے کسی دہشت پسند گروپ یا پاکستانی طالبان کو ہندوستانی سفیر برائے پاکستان اپنے سفارتخانہ پر مدعو کرے تو کیا پاکستان اسکی اجازت دے گا ؟ ہندوستان اس بات چیت میں پاکستان سے ہونے والی دہشت پسندی پر مرکوز رہنا چاہتا ہے ، دہشت گردی کا مسئلہ پاکستان کے لئے بھی اتنا ہی سنگین ہے جتنا کہ ہندوستان کے لئے ہے ۔ اپنے ملک کے کسی ناپسندیدہ گروہ سے بات چیت کرنے، اس کو مدعو کرنے کی اجازت کوئی بھی ملک نہیں دیتا۔ ہندوستان نے کبھی کشمیر کے مسئلہ پرمذاکرات سے انکار نہیں کیا بلکہ مذاکرات منعقد کرانے کے اس نے ٹریک 2 کی ڈپلومیسی بھی کی، لیکن پاکستان نے ہمیشہ ایسی کوششوں کو سبوتاج کیا ۔ ہوسکتا ہیکہ پاکستان کی حکومت سبوتاج نہ کرتی ہو لیکن کچھ چھپی ہوئی طاقتیں پاکستان میں ہیں جو ہند۔پاک مذاکرات کے وقت رکاوٹ پیدا کردیتی ہیں اور ان طاقتوں پر پاکستانی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔ اکثر تو یہ دیکھا گیا ہے کہ پاکستانی فوج بات چیت سے قبل یا مذاکرات کے انعقاد کے عمل کے شروع ہونے سے’’ قبل از وقت شرائط‘‘ عائد کردیتی ہے ۔ یہ کام فوج کھل کر نہیں کرتی بلکہ پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈال کر اپنی بات منوالیتی ہے ۔ چنانچہ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔ وزیراعظم  نواز شریف نہایت شرافت سے روس کے دورہ کے موقع اوفا میں مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا، جس میں بات چیت کرنے پر دونوں ممالک نے رضامندی ظاہر کی تھی لیکن ان کے مشیر سرتاج عزیز نے فوراً یہ کہہ دیا کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ بات چیت کے ایجنڈہ میں شامل نہیں ہوتا تب تک مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ سرتاج عزیز نے یہ شرط عائدکر کے اشارہ دیا کہ وزیراعظم نواز شریف ’سب کچھ‘ نہیں ہیں ، وہ (سرتاج عزیز) یا پاکستانی فوج کے سربراہ راحیل شریف جو چاہتے ہیں وہی ہوگا۔ بدستور فوج نے پیچھے سے دباؤ ڈالا اور اس دباؤ کے آگے نواز شریف کو جھکنا پڑا ۔ حالانکہ نواز شریف نے دو دن بعد یہ بھی کہا کہ ’’ کشمیر کے علحدگی پسند قائدین تیسرا فریق نہیں ہیں‘‘ وزیراعظم پاکستان منسوخی کیلئے اپنی خفت چھپانے کے لئے علحدگی پسندوں کو تیسرا فریق نہیں سمجھنے کی بات کر رہے ہیں، کیونکہ اپنے اس بیان میں انہوں نے تسلیم کیا کہ ’’حریت کے لیڈر تیسرا فریق تو نہیں ہیں لیکن مسئلہ کا ایک اہم فریق ضرور ہیں۔ کسی وزیراعظم کو ایسی تضاد بیانی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ کیوں پاکستانی وزیراعظم نے حریت کے تیسرا فریق ہونے سے انکار کیا اور اسی بیان سے دوسری سانس میں کہا کہ ’’ علحدگی پسند لیڈر مسئلہ کے فریق ضرور ہیں ۔ صاف ظاہر ہے کہ یہاں نواز شریف فوج کے دباؤ میں ہیں۔ وہ آزادانہ طور پر اپنے فیصلے نہ تو خود کرسکتے ہیں اور نہ اپنے فیصلوں کو مسلط کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ بات چیت کا منسوخ ہونا دونوں ممالک کیلئے بدبختی کی بات ہے ۔ دوسری طرف ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی بھی خارجی حکمت عملی کے نشیب و فراز سے ناآشنا ہیں۔ اوفا میں مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے سے پہلے کیوں انہوں نے واضح طور پر ایجنڈہ کو متعین نہیں کیا ۔ یہ شرط پہلے سے کیوں عائد نہیں کی گئی کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کے عہدیدار ہی بات چیت میں حصہ لیں گے ۔ اس اہم مسئلہ پر ابہام خارجہ حکمت عملی سے وزیراعظم مودی کی ناواقفیت کا اشارہ ہے۔ اگر دو طرفہ بات چیت کا مفہوم یہ ہے کہ صرف دو فریقین میں سرکاری سطح کے عہدیدار ہی شریک ہوسکتے ہیں تو پھر پا کستان کو علحدگی پسند عناصر کو شریک گفتگو کرنے پر اصرار کی جرات نہ ہوتی۔ ڈپلومیسی میں بعض وقت شرائط کا عائد کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ یہ غلطی ہم سے ضرور ہوئی ہے۔ بات چیت کی منسوخی کیلئے کم از کم اس حد تک ہمارے ملک کو بھی ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے ۔ دونوں ممالک کو یہ خوب سمجھ لینا چاہئے کہ باہمی بات چیت کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے ۔ دونوں جنگیں کر کے بھی دیکھ لئے ۔ سوائے جانی مالی نقصان کے اور کچھ نہیں ہوا۔ 1970 ء کی ہند۔پاک جنگ میں البتہ پاکستان سے بنگلہ دیش علحدہ ہوگیا۔ کم از کم اس واقعہ سے پاکستان کو سبق سیکھنا چاہئے تھا کہ جنگ میں اسی کو بڑا نقصان ہوگا۔ پاکستان ایک طرف تو یہ کہتا ہے کہ وہ ہندوستان سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا اور انہیں برقرار رکھنا چاہتا ہے تو دوسری طرف لائن آف کنٹرول پر خلاف ورزیاں کرتا ہے۔ پچھلے چند ماہ سے تو بین ا لاقوامی سرحد پر Proxy War کی کیفیت ہے۔ پا کستان ایسی ہر خلاف ورزی کے بعد الٹا ہندوستان پرالزام لگاتا ہے کہ ہم نے سرحدی خلاف ورزی کی ہے ۔ الزامات اور جوابی الزامات کا ایک سلسلہ چل رہا ہے ۔ یہ خلاف ورزیاں بھی دوستی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ سرحد پر ان جھڑپوں کا صحیح طور پر جائزہ لینے کیلئے کسی غیر جانبدار فریق کو نگران کار مقرر کیا جاسکتا ہے ۔ کم از کم پاکستان کے جھوٹ کا تو پتہ چل سکتاہے ۔ نئی دہلی کی بات چیت تو دہشت گردی کے مسئلہ پر ہونے والی تھی، یہ مسئلہ تو کہیں دور رہ گیا اور بیچ میں حریت کانفرنس کی شرکت دونوں ممالک کے درمیان رکاوٹ بن گئی لیکن اس منسوخ کردہ بات چیت کو پھر شرو ع کرنا ہوگا کیونکہ اس کے علاوہ برصغیر کے دونوں نیوکلیئر طاقت سے لیس ان ممالک کو اور کوئی راستہ نہیں ہے۔