ہندوستان کی جیلوں میں محروس قبائیلی و مسلم قیدیوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ

افراد خاندان سے ملاقات کی عدم اجازت ، ادویات کے استعمال پر روک ، پروفیسر سائی بابا کی پریس کانفرنس
حیدرآباد ۔30 مئی (سیاست نیوز) ہندوستان بھرکی جیلوں میںمحروس قبائیلی اورمسلم قیدیوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ مذکورہ قیدیوں پر آئے دن کسی نہ کسی الزام کا اضافہ کرتے ہوئے ان کی رہائی پر روک لگانے کی سازشوں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب ناگپور جیل میںمحروس سیمی کارکنوں کی رہائی کی پیروی کے لئے وکلاء بھی عدم دلچسپی رکھا ہے ۔ مائو نوازوں کی مدد کے الزام میںدوسال تک قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد رہا ئی حاصل کرنے والے جسمانی معذور پروفیسر جی این سائی بابا دہلی یونیورسٹی نے ان باتوں کاانکشاف کیاہے ۔ آج یہاں ایس پی حال رام کوٹ پر اسٹرگل کمیٹی آف ریلیز پروفیسر جی این سائی بابا کے زیراہتمام منعقدہ انٹر ایکٹیو سیشن سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر جی این سائی بابا نے قبائیلی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ پولیس اور مرکزی انتظامیہ کے متعصبانہ رویہ کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے مزیدکہاکہ چھتیس گڑھ کے علاقے بستر میںقبائیلوں پر ڈھائی جانے والے مظالم انتہاکو پہنچ گئے ہیں اور قبائیلوں کے حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کو بے بنیاد الزامات کے تحت گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ قیدیوں کے بھی جمہوری حقوق ہیںمگر حراست کے دوران جیل میں قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کا سلسلہ عام ہوتا جارہا ہے بالخصوص قبائیلی اور مسلم قیدیوں کو جیلوں میں درجہ چہارم کا شہری بنادیا گیا ہے ۔پروفیسر جی این سائی بابا نے کہاکہ جیل انتظامیہ میں بھی فرقہ پرست ذہن کے حامل عہدیدار حب الوطنی کے نام پر قبائیلی اور مسلم قیدیوں کے ساتھ برا سلوک کررہے ہیں ۔ نے اپنے جیل میںگذرے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ہائی بلڈپریشر ‘ شوگر کا مریض ہونے کے باوجود بھی مجھے انڈہ سل میںبند رکھا گیا اور میرے ساتھ مجرموں جیساسلوک کرتے ہوئے ادویات کے استعمال پر بھی پابندی لگادی گئی تھی۔ پروفیسرجی این سائی بابا نے مزیدکہاکہ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود مجھے اپنے گھروالوں سے ملنے اور ادویات کے استعمال سے مسلسل روکا جاتا رہا۔ یہی حال مسلم قیدیوں کا بھی کئی سالوں سے جیلوں میںبند مسلم قیدیوں کو ان کے افراد خاندان سے بھی ملنے کی اجاز ت نہیںہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہفتہ میںایک بار افراد خاندان سے ملاقات قیدیوں کے جمہوری حقوق میں ہے ۔یواے پی اے کے تحت مجھے گرفتار کیا گیا تھا اور پہلے تین ماہ میں مجھے کھانے اور پانی سے بھی محروم رکھا گیا جبکہ نو ماہ لگ گئے جیل انتظامیہ کو ایک معذور قیدی کے لئے ویسٹرن ٹائیلٹ تیار کرنے کے لئے جو میری ضمانت پر رہائی تک بھی غیرکارگرد تھا۔ انہوں نے کہاکہ ناگپور جیل میں قبائیلی اور مسلم قیدیوں کی بڑی تعداد محروس ہے جنھیںدھشت گردی اور نکسلزم کے الزامات میںمحروس رکھا گیا ہے ۔ انہوں نے بتایاکہ ابتدائی دنوں میں میں نے برسوں سے جیل میںمحروس قبائیلی اور مسلم قیدیوں کوان کے بنیادی حقوق کے متعلق درس دیا جو جیل انتظامیہ کو ناگوار گذار اور مجھے ان قیدیوں سے علیحدہ رکھا گیا۔انہوں نے کہاکہ نئی ریاست تلنگانہ کی تشکیل سے جو امیدیں تلنگانہ کے قبائیلی اور اقلیتی طبقات کو وابستہ تھیں ان پر پورا کرنے میں ریاستی حکومت ناکام ہوگئی ہے ۔ انہوں نے تلنگانہ ریاست کو بنا سر اور پیر کی نئی ریاست کا درجہ دیتے ہوئے کہاکہ جہاں پر اقلیتیں ومعاشی طور پر پسماندہ طبقات اپنی بقاء کی جدوجہد کررہی ہیں وہاں پر حکمرانوں کی سرد مہری نئی ریاست کی ترقی میںسب سے بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے ۔پروفیسرہرا گوپال‘ انقلابی مصنف ورا ورا رائواور دیگر نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔