ہندوستان کو بچانے متبادل سیاست ناگزیر‘ امیروں کا تسلط مضر

کنہیا کمار

حالات کچھ اس طرح بدلتے گئے کہ مجھے اندازہ نہ ہوا کہ میں کب ’اتفاقی سیاستدان‘ بن گیا۔ ویسے تو میں ہمیشہ سیاسی نقطہ نظر سے سوچ کا حامل رہا ہوں، لیکن چند سال قبل تک، میں اور میرے دوستوں نے ایسی تجویز کو ہنس کر اُڑا دیا ہوتا کہ پارلیمنٹ کیلئے الیکشن لڑا جائے۔ میں تربیت کے اعتبار سے علم دوست ہوسکتا ہوں؛ لیکن ہم ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں ہمیں ہمارے اطراف و اکناف تشدد دیکھنے میں آتا رہتا ہے، چاہے وہ لغوی معنی میں ہو، نفسیاتی ہو یا منظم، اور اس لئے کوئی اور چیز سے کہیں بڑھ کر میں جہدکار ہوں۔ لیکن اب، موجودہ حکومت کے پانچ سال بعد میں انتخابی سیاست میں ہوں، اور اس کے باوجود میں کوئی ’سیاستدان‘ نہیں ہوں۔ میں اسے میری سماجی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ متبادل سیاست کا حصہ بنوں… ایسی سیاست جو نفرت اور ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو اور لڑے؛ ایسی سیاست جو ایسے ہندوستان کا خواب دیکھے جو اُس سے کہیں پرے ہوجائے جو کچھ ہمیں تقسیم کرے، اور اُس کی خوشی منائے جو کچھ ہمیں متحد کرے؛ ایسی سیاست جو ایسے سماج کا خواب دیکھے جو واقعی انفرادی حقوق سب کی ترقی اور ترقی پسند سوچ کی قدر کرے؛ ایسی سیاست جو وہ جمہوریت کا خواب دیکھے جو اتنی طاقتور ضرور رہے کہ نہ صرف گزشتہ 5 سال کے نقصان کا ازالہ کرے، بلکہ آنے والے 20 سال کے مواقع سے استفادہ اٹھائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جدوجہد کررہے ہیں۔ اور یہی میری کہانی ہے۔
یہ کہانی خاص نہیں کہ میں کون ہوں۔ میں ویسا ہی تھا جیسے میرے اطراف زیادہ تر لوگ ہوتے ہیں… اسکول میں، میں نے پولیو خوراک دیئے؛ کالج میں، میں نے کوچنگ کلاس میں کام کیا؛ دہلی میں، جب میں یو پی ایس سی امتحان کیلئے پڑھائی کررہا تھا، میں نے جاب بھی کیا۔ میرے اپنے بھائی نے گارڈ کی حیثیت سے آسام میں کام کیا، اور مجھے یو پی ایس سی کوچنگ کلاسیس کیلئے رقم بھیجی۔ تاہم، حکومت کی جانب سے یو پی ایس سی میں سی ایس اے ٹی کے اضافے نے سیول سرویسز میں کبھی بھی شامل ہونے کے میرے امکانات تباہ کردیئے۔ CSAT نے ہندی ذریعہ تعلیم اور بالخصوص علوم انسانیات کے اسٹوڈنٹس کے آل انڈیا سرویسز میں داخلے کے امکان کو لگ بھگ ختم کردیا۔ علاوہ ازیں، میں سی ایس اے ٹی کلاسیس کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن میں ان باتوں پر کوئی افسوس نہیں کرتا ہوں۔ یو پی ایس سی کیلئے پڑھائی کے دوران مجھے میری تدریسی اور سیاسی بیداری کا اندازہ ہوا۔ جو ابھی تک ٹھیک ہے۔ میں جب جے این یو کو پہنچا تو میں نے جانا کہ میں میری ریسرچ کے ذریعے اپنے لوگوں کی بہتری کیلئے کچھ حصہ ادا کرسکتا ہوں۔ لیکن میرے لئے، جے این یو کبھی محض ایک ادارہ نہ رہا، یہ ایسی جگہ ہے جہاں کی اپنی زندگی ہے جو آپ کو آزادی سے سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے، نہ صرف درسی کتب سے بلکہ زندگی کے تجربات اور سماجی تحریکات سے بھی سیکھ سکتے ہیں۔ فعالیت، ہمیشہ میری ترجیح رہی؛ حتیٰ کہ جب میں نے صدر اسٹوڈنٹس یونین کے عہدہ کیلئے مسابقت کی، میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ اسٹوڈنٹس اس قدر بڑی تعداد میں میری حمایت کریں گے۔ وہیں سے میری زندگی کا رُخ بالکلیہ بدل گیا۔
میرے پورے سیاسی سفر میں ہمیشہ میں نے ان لوگوں پر سوال اٹھائے اور تنقید کی جنھوں نے اقتدار کے اپنے منصبوں کا بیجا استعمال کیا۔ موجودہ حکومت تو بہت ہی مختلف ثابت ہوئی۔ پولیس کی دھمکی اور لاٹھی چارج پہلے بھی ہوا کرتے تھے؛ لیکن بدگوئی، فرضی خبروں، شدید نفرت کی مربوط مہمات، اور استبداد پسند اصطلاحات جیسے ’قوم دشمن‘ واقعی بہت نئی باتیں ہیں۔ ایک قدیم کہاوت جو عام طور پر یونانی مدبر Pericles سے منسوب کی جاتی ہے، یوں ہے :’ محض اس لئے کہ آپ سیاست میں دلچسپی نہیں لیتے ہو، یہ مطلب نہیں ہوتا کہ سیاست کو آپ سے دلچسپی نہیں ہے‘۔ بہرحال، میں نے سیاست میں دلچسپی لی، اور سیاست نے بلاشبہ مجھ میں دلچسپی دکھائی۔ جب ہم پر مملکت کی جانب سے حملہ ہوا، ہمارے سامنے دو متبادل تھے… لڑیں یا خودسپرد ہوجائیں۔ لیکن میری رائے میں ہمارے پاس واقعی صرف ایک متبادل تھا۔ لہٰذا، ہم نے جدوجہد کی، اور وہ جدوجہد مجھے وہاں لے آئی جہاں آج میں ہوں۔ میں یہاں آپ کو یہ بتانے کیلئے نہیں ہوں اِس یا اُس پارٹی کا متبادل کیا رہے گا؛ میں یہاں آپ کو یہ بتانے کیلئے ہوں کہ اس ملک کی متبادل سیاست کیا ہونی چاہئے۔ یہ متبادل سیاست محض جبر و استبداد کے خلاف لڑائی نہیں، بلکہ جدوجہد برائے آزادی اور مساوات بھی ہے۔ یہ محض بی جے پی۔ آر ایس ایس کے ہندوتوا جنون کے خلاف نہیں بلکہ امبیڈکر کی سماجی مشمولیت کیلئے بھی ہے۔ یہ محض ہجوم کی داداگری کے خلاف نہیں، بلکہ حقیقی شراکت والی جمہوریت کیلئے بھی ہے۔ یہ میری لڑائی نہیں ہے۔ یہ ہماری جدوجہد ہے۔
مستقبل کیلئے ہمارا ویژن
کوئی تبدیلی لانے کیلئے پہلا اقدام سیاست کو امیروں کی جیبوں سے باہر نکالنا، اور اسے متوسط ٹیکس دہندہ کے ہاتھوں میں دوبارہ پہنچا دینا ہوتا ہے۔ یہ تو وہی ہوتا ؍ ہوتی ہے جو حکومت کو فنڈز فراہم کرتی ہے، لیکن اس کے مسائل ہمارے مباحثوں سے بالکلیہ غائب رہتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ یہ ایسی حکومت نہیں جو ٹیکس ادا کرنے والے کیلئے چلائی جارہی ہے، یہ تو پولیٹیکل مشین ہے جو امیروں کیلئے چلتی ہے۔ اس طرح کے سسٹم کو ضرور ختم کرنا چاہئے؛ حکومت لازماً حکومت کو واپس ہونی چاہئے۔
ہمارا دوسرا قدم مسئلہ پر مبنی متبادل سیاست کا قیام ہونا چاہئے۔ ہمیں سرکاری تعلیم، سرکاری نگہداشت صحت اور سرکاری بنیادی ڈھانچہ کی حالت پر ضرور لب کشائی کرنا چاہئے۔ ہمیں ضرور حاشیہ پر کئے جاچکے لوگوں کیلئے آواز اٹھانا چاہئے… نہ صرف اقلیتوں کیلئے بلکہ خواجہ سراؤں اور LGBTQ کمیونٹی کیلئے بھی۔ ہمیں معاشرہ میں مرد افراد کی چودھراہٹ کے خلاف، اور حق آمادگی کیلئے بھی ضرور اٹھانا چاہئے۔ ہمیں آج ہمارے ملک کو درپیش نئے چیلنجوں پر ضرور لب کشائی کرنا چاہئے، ماحولیاتی استحکام سے لے کر ڈیجیٹل انقلاب اور حق رازداری تک۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں ضرور منظم ہونا، دباؤ ڈالنا اور اس متبادل سیاست کی اساس پر ووٹ ڈالنا چاہئے۔
آخر میں، یہی متبادل سیاست ہے جس کے ذریعے ہمیں ہماری جمہوریت کو سنوارنا چاہئے… روایتی طریقہ کار سے شراکتی جمہوریت بنانا۔ یہ متبادل سیاست ہمیں فلاح پسندی کیلئے نیا چوکھٹا بنانے میں مدد کرے گی، ایسا فریم ورک جو جواب دہ اور شفاف ہو، ہاں، سب سے اہم یہ کہ وہ سب کی شراکت والا ہو۔ اسے چاہئے کہ نظرانداز کردہ لوگوں کا مدعا سنے اور اقتدار کے سامنے سچائی کہے۔ اسے ضرور حقیقی شراکت داری کیلئے، اس قوم میں ہر شہری کو بولنے کے حق کیلئے، خود کو منظم کرنے اور انتخابات لڑنے کیلئے اٹھ کھڑا ہونا چاہئے۔ صرف اس فریم ورک کے ذریعے ہی ہم ایسی جمہوریت کو فروغ دے سکتے ہیں جو وقت کی آزمائش پر کھری اُترے، ایسی جمہوریت جو مستقبل کے ہندوستان کی وہ خوابوں کو سمجھنے میں مدد کرے جو ماضی سے بدستور تکمیل طلب ہیں۔ہم لڑیں گے۔ ہم جیتیں گے۔
(کنہیا کمار بہار میں لوک سبھا حلقہ بیگوسرائے کیلئے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا امیدوار ہیں)۔