ہندوستان میں قربانی کے بعد حلق کرنا

سوال : ادھر گزشتہ دو چار سال سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ بقرعید کے روز بہت سارے نوجوان اور کچھ عمر رسیدہ لوگ بھی حلق کرواکر یعنی سر منڈواکر (چکنی ہنڈی کرواکر) پھر رہے ہیں ۔ کچھ تو کہتے ہیں کہ حج اور قربانی کا ثواب مل جائے گا۔ آیا اس کی کوئی اصل بھی ہے یا کیا ؟
ایم بی اکرم، باؤلی گلاب سنگھ
جواب : قربانی کے بعد حلق کرنا (سرمنڈانا) حج کے مناسک سے ہے، غیر حاجی کیلئے عید کی قربانی کے بعد حلق کرنا ثابت نہیں۔ غیر حاجی کا قربانی کے بعد حلق کرنا اور تصور کرنا کہ یہ حج اور قربانی کے ثواب کے مساوی ہے، شرعاً ثابت نہیں۔

بائیں ہاتھ سے ذبح کرنا
سوال: بچپن سے ہی ہر کام بائیں ہاتھ (Left hand) سے کرتا ہوں۔ دائیں ہاتھ (Right hand) میں زیادہ طاقت نہیں۔ کیا میں بائیں ہاتھ (left hand) سے جانور ذبح کرسکتا ہوں؟ دوسرا جانور ذبح کرنے یا نومولود کے کان میں اذان دینے کیلئے باوضو ہونا لازمی ہے ؟
(2 کیا غصہ اور نشہ کی حالت میں اگر کوئی شخص تین طلاق پکاردے تو کیا طلاق پڑجاتی ہے اور میاں بیوی کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
نذیر احمد، بنگلور
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کام میں ’’تیامن‘‘ دائیں جانب سے آغاز کرنے کی ترغیب و تلقین کی ہے ۔ اس طرح ذبح بھی دائیں ہاتھ سے کرنا چاہئے اور اگر کوئی بائیں ہاتھ سے اللہ تعالیٰ کا نام لیکر ذبح کرے تو ذبح ہوجائے گا اور ذبیحہ حلال ہوگا تاہم یہ خلاف ادب ہے اور اگر کوئی عذر ہو مثلاً دائیں ہاتھ سے ذبح کرنے کی بناء ذبح صحیح نہ ہونے کا اندیشہ ہو تو مضائقہ نہیں۔
(2 ہمیشہ باوضو رہنا پسندیدہ و مستحسن ہے لیکن نو مولود کے کان میں اذان دینے یا جانور کو ذبح کرنے کیلئے باوضو ہونا شرعاً لازم و ضروری نہیں،مستحسن ہے۔
(3 اگر شوہر بیوی کی طرف نسبت کرتے ہوئے تین طلاق دیدے تو تین طلاق بہر صورت واقع ہوجاتی ہیں خواہ وہ نشہ میں ہو یا غصہ میں ہو یا مذاق و دلگی کے طور پر دے، اس کی بناء رشتہ نکاح بالکلیہ منقطع ہوجاتا ہے ۔ رجوع یا بغیر حلالہ تجدید نکاح کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔

جمعہ کے خطبہ کے دوران
تحیۃ المسجد پڑھنا
سوال : جمعہ کی نماز کے لئے بسا اوقات جب ہم داخل ہوتے ہیں تو خطبہ جمعہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس وقت ہم تحیۃ المسجد ادا کرسکتے ہیں یا نہیں، میں نے عرب ممالک میں دیکھا ہے کہ عرب حضرات مسجد میں داخل ہوتے ہی دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھتے ہیں۔ اگر خطبہ شروع ہوجائے تو بھی وہ ترک نہیں کرتے لیکن ہندوستان میں ہم عموماً خطبہ شروع ہونے کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھتے۔ کیا ہمارا عمل صحیح ہے ؟ کیا اس کا حد یث میں کوئی ثبوت ہے ۔ نیز بہتر عمل دونوں میں کیا ہے۔ واضح کیجئے۔
محمد عصام، تگل کنٹہ
جواب : احناف کے نزدیک خطبہ کے دوران گفتگو کرنا ، قرآن کی تلاوت کرنا اسی طرح نماز پڑھنا منع ہے ۔ امام شافعی کے نزدیک اگر کوئی شخص مسجد میں ایسے وقت داخل ہو جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو اس کو ہلکی دو رکعتیں پڑھ لینی چاہئے ۔ انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے استدلال کیا ہے کہ حضرت سلیک غطفانی جمعہ کے دن داخل ہوئے جبکہ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم نے نماز پڑھ لی۔ انہوں نے کہا: نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دو رکعت نماز پڑھ لو۔ روی عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ انہ قال ’’دخل سلیک الغطفانی یوم الجمعہ ۔ والنبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب فقال لہ اصلیت قال لا قال : فصل رکعتیں فقد امرہ بتحیۃ المسجد حالۃ الخطبۃ۔
احناف کی دلیل ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ فاستمعوا لہ وانصتوا (سورۃ الاعراف 204 ) جب قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو تم اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو۔ اس آیت کے نزول کے بعد مذکورہ حدیث شریف منسوخ ہوگئی ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلیک غطفانی کو دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا تھا، بعد ازاں امام کے خطبہ کے دوران نماز پڑھنے سے منع کردیا ۔ روی عن ابن عمر ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم امر سلیکا ان یرکع رکعتین ثم نھی الناس ان یصلوا والامام یخطب۔ (بدائع صنائع جلد اول ص : 593 ) مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ وہ دونوں جمعہ کے دن امام کے خطبہ کیلئے نکلنے کے بعد نماز اور کلام دونوں کو ناپسند کیا کرتے تھے۔ عن ابن عباس وابن عمر انھماکانا یکرھان الکلام و الصلاۃ بعد الجمعۃ بعد خروج الامام۔ بنایۃ 1012/2 ۔ حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب امام نکلے (خطبہ کیلئے) تو نہ کوئی نماز ہے اور نہ ہی گفتگو ہے۔ (موطا امام مالک) پس جب کوئی جمعہ کے دن مسجد میں ایسے وقت داخل ہو جبکہ امام خطبۂ جمعہ شروع کردیا ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ بیٹھ جائے اور توجہ سے خطبہ سنے۔

بیمار شخص پر نماز جمعہ
سوال : میرا پاؤں حادثہ میں ٹوٹ گیا ہے۔ میں چلنے پھرنے سے قاصر ہوں بلکہ طہارت کیلئے بھی دشواری ہوتی ہے۔ مسجد میرے گھر سے بہت قریب ہے لیکن بغیر کسی کے سہارے کے مسجد کو جانا مشکل ہے اور جمعہ کے وقت گھر میں کوئی مرد موجود نہیں رہتا ہے تو میں بادل ناخواستہ ظہر کی نماز ادا کرلیتا ہوں، شرعاً میرے لئے کوئی گنجائش ہے یا مجھے ہر صورت میں جمعہ ادا کرنے کیلئے مسجد کو جانا ہوگا۔
محمد فیصل، حمایت نگر
جواب : شرعاً بیمار شخص پر جمعہ کا وجوب نہیں۔ حدیث شریف میں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : چار افراد ایسے ہیں جن پر جمعہ کا وجوب نہیں۔ مسافر ، مریض ، غلام اور عورت۔ اس کی روایت ابو داؤد طیالسی نے اپنی مسند ص : 115 میں کی ہے۔ پس چونکہ آپ بیمار ہیں اور جمعہ کیلئے مسجد جانے پر قادر نہیں ہیں اس لئے آپ پر جمعہ کا وجوب نہیں۔ آپ کا گھر میں ظہر ادا کرنا کافی ہے۔

ماں عیسائی باپ دہریہ
سوال : میں امریکہ میں زیر تعلیم ہوں، کالج میں میری ملاقات ایک لڑکی سے ہوئی جو اسلام کی طرف رغبت رکھتی ہے، اس کی ماں عیسائی ہے اور باپ دہریہ ہے۔ لڑکی عقیدہ کے اعتبار سے ماں سے متاثر ہے اور کبھی کبھی چرچ کو جاتی ہے لیکن اس کے دل میں اسلام کی عظمت اور احترام ہے۔ میں اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ بعض نے کہا کہ اس سے شادی کرنا درست ہے کیونکہ وہ عیسائی ہے لیکن میرے بعض رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ چونکہ اس کا باپ بے دین اور دہریہ ہے، اس لئے اس لڑکی سے شادی کرنا جائز نہیں۔ مجھے توقع ہے کہ اگر میں شادی کرلوں تو بہت جلد وہ اسلام کی خوبیوں سے متاثر ہوکر اپنی خوشی اور رغبت سے اسلام قبول کرلے گی۔ آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔
بذریعہ ای میل
جواب : اہل کتاب لڑکی سے مسلمان لڑکے کا نکاح کرنا شرعاً جائز ہے۔ چونکہ لڑکی مذہباً ماں سے متاثر ہے اور عیسائی عقیدہ پر ہے، باپ کے عقیدہ پر نہیں اس لئے اہل کتاب لڑکی سے نکاح کرنا جائز ہے۔ واضح رہے کہ علمائے کرام نے موجودہ دور میں اہل کتاب لڑکی سے اگرچہ نکاح جائز ہے لیکن اس کو ناپسند کیا ہے اور اس کا اثر نسل اور اولاد پر ظاہر ہوتا ہے۔ نیز ایک مسلمان مرد کو اپنی عیسائی بیوی کو چرچ جانے سے منع کرنے کا حق ہے۔

دیور سے پردہ
سوال : زینب کے شوہر بیرون ملک روزگار کے سلسلہ میں قیام کئے ہوئے ہیں ۔ زینب اپنے سسرال والوں کے ہمراہ رہتی ہے ۔ زینب کا ایک دیور بھی ہے جو بیرون ملک برسر خدمت تھا لیکن اب اپنے والدین کے پاس ہی رہتا ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ زینب کا مذکورہ دیور اپنی بھاوج کے ساتھ بے تکلفی کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتا ہے ۔ بے باکانہ کمرہ میں داخل ہوجاتا ہے ، کبھی ہاتھ تھام لیتا ہے اور انداز کلام بھی بے باکانہ و نامناسب رہتا ہے۔ اپنے دیور کے نازیبا و ناشائستہ طرز عمل کی اطلاع زینب نے اپنے شوہر کو کئی مرتبہ فون کے ذریعہ دے چکی ہے ۔ شوہر محترم بھی اس کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تمہارا دیور ہے تم اس کی بھاوج ہو۔ دیور و بھاوج کا ایک دوسرے سے مذاق کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ ان حالات میں زینب کو سخت خوف ہے کہ خدانخواستہ کہیں کوئی غلطی کا ارتکاب نہ ہوجائے۔ اس لئے زینب کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہئے ۔
نام مخفی
جواب : رشتہ دار دو طرح کے ہیں ، ایک محرم دوسرے غیر محرم ، محرم رشتہ دار وہ ہوتے ہیں جن سے ابدی طور پر نکاح حرام ہوتا ہے، جیسے والد بھائی ، چچا ، ماموں ، بھانجہ ، بھتیجہ وغیرہ ان سے خواتین کو پردہ کرنا نہیں ہے ۔ غیر محرم وہ رشتہ دار کہلاتے ہیں جن سے رشتہ نکاح ابدی طور پر حرام نہیں۔ جیسے دیور و دیگر رشتہ کے بھائی و دیگر رشتہ کے بھانجے ، بھتیجے و دیگر رشتہ کے ماموں چچا و غیرہ و دیگر اجانب ان سے رشتہ نکاح جائز ہے اس لئے ان سے پردہ کرنا شرعاً ضروری ہے۔ غیر محرم رشتہ داروں میں ’’ دیور‘‘ سے خاص طور پر احتیاط برتنے کی شریعت نے تاکید کی ہے کیونکہ اس سے زائد فتنہ کا اندیشہ ہے اس لئے حدیث پاک میں اس کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ خاص طور پر تنہائی کے مواقع میں دیور کا بھاوج سے ملنا ، بات چیت کرنا شرعاً درست نہیں۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایاکم والد خول علی النساء فقال رجل یا رسول اللہ افرأیت الحمو قال الحمو الموت ۔ (بخاری شریف) (مشکوٰۃ ص : 268 ) اس کے حاشیہ ص : 5 میں ہے ۔ قولہ الحموالموت ھذہ الکلمۃ یقولہا العرب للتنبیہ علی الشدۃ والفظاعۃ … والمراد تحذیر المرأۃ منھم فان الخوف من الاقارب اکثر والفتنۃ منھم اوقع لتمسکھم من الوصول والخلوۃ من غیر نکیر۔ اس لئے دیور پر شرعاً مذکورہ در سوال امور سے سخت اجتناب لازم ہے۔ کیونکہ تنہائی کے موقع پر بھاوج کے کمرہ میں داخل ہونا و دیگر قابل اعتراض برتاؤ (مذکورہ در سوال) سخت گناہ ہے۔ بھاوج کو چاہئے کہ ہر طرح اپنی حفاطت کا بندوبست کرے جب بھی دیور گھر میں رہے وہ اس وقت اپنی ساس کے ساتھ رہے۔ شوہر پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے بھائی کو غیر شرعی امور کے ارتکاب سے بچنے کی ہدایت کرے۔ اگر دیور اس کے باوجود اپنے طرز عمل سے باز نہ آئے تو شوہر کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بیوی کی حفاظت اور اس کو باعصمت رکھنے کا مناسب انتظام کرے۔

مہر معاف کرنے کے بعد مطالبہ کرنا
سوال : میری بہن شادی کے ابتدائی ایام میں اپنے شوہر کے ذمہ جو واجب الادا مہر تھا اس کو معاف کردیا اور وہ اپنی مرضی اور خوشی سے بغیر کسی زبردستی کے یہ کام انجام دی ۔ اب جبکہ شادی ہوئے تقریباً 15سال گزرچکے وہ دوبارہ اس کے معاف شدہ مہر کو طلب کر رہی ہے۔ آیا میری بہن کا مطالبہ ازروئے شرع درست ہے ؟
عائشہ، کریم نگر
جواب : مہر عورت کا حق ہے جو شوہر کے ذمہ واجب ہے ۔ تاوقتیکہ وہ اس کو ادا کردے یا بیوی اپنی خوشی سے اس کو معاف کردے۔ اگر عورت شوہر کے ذمہ واجب الادا مہر بغیر کسی جبر اپنی رضا و خوشی سے معاف کردے تو یہ شوہر کے ذمہ سے ساقط ہوجاتا ہے اور عورت کو دوبارہ اس کے طلب کرنے کا حق نہیں رہتا جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ جلد 1 صفحہ 171 میں ہے : واذا أبرأت المراۃ زوجھا عن المھر و اسقطت حقھا منہ لایکون لھا الرجوع من ذلک۔
پس صورت مسئول عنھا میں آپ کی بہن نے اپنا حق مہر اپنی خوشی و رضامندی سے معاف کردیا تھا تو اب ان کو شوہر سے مہر طلب کرنے کا شرعاً کوئی حق نہیں۔