ہندوستان میں فرقہ پرستوں کا عروج اثرات و اندیشے

پروفیسر محمد سجاد
تاریخ کے تجربہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں 2014 سے عین قبل پیش آنے والے واقعات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جب بی جے پی غیر معمولی اکثریت سے برسر اقتدار آئی تھی ۔
2012 میں اترپردیش اسمبلی اور میونسپل اداروں میںمسلمانوں کی نمائندگی بڑھ گئی تھی ۔قانون ساز اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی 17 فیصد تک پہونچ گئی تھی جو ریاست میں ان کی آبادی 18.5 فیصد کے تناسب کے قریب تھی ۔ اس کے علاوہ بلدی اداروں میں جملہ 11,816 ارکان میں 3,681 منتخب ارکان مسلمان تھے اور ان اداروں میں ان کی نمائندگی 31 فیصد تک پہونچ گئی تھی ۔
اسی صورتحال کو مسلمانوں کی ترقی یا فروغ سمجھا گیا اور اس سے شائد جزوی طور پر پیش قیاسی ہو رہی تھی کہ یوگی آدتیہ ناتھ اقتدار پر فائز ہوجائیں گے ۔
بہار میں جہاں مسلمان آبادی کا 16.5 فیصد ہیں پنچایت سربراہوں میں ان کی نمائندگی 2001 سے ہی 16 فیصد کے آس پاس ہی رہی ہے ۔ در حقیقت 1980 کی دہائی سے فرقہ پرست طاقتوں کے عروج کا تعلق مسلمانوں میں شعور کی بیداری سے ہے جو خلیجی ممالک کی کمائی سے ہو رہی تھی اور اس کے فوائد پسماندہ طبقات کو بھی پہونچ رہے تھے کیونکہ منڈل کمیشن کی سفارشات کے تحت تعلیم اور ملازمتوں میں تحفظات فراہم کئے جا رہے تھے اور اس کے بعد مجالس مقامی میں بھی ان کا داخلہ ہوگیا اور پھر وہ مقامی سطح پر چھوٹی تجارتیں بھی کرنے لگے تھے ۔
مغربی بنگال میں تقریبا 25 فیصد مسلمان ہیں۔ یہاں کمیونسٹوں کے اقتدار نے ہندووں کو زعفرانی طاقتوں سے قریب ہونے سے روکے رکھا اور بیشتر پسماندہ مسلم برادریوں کو 2001 تک او بی سی فہرست سے باہر ہی رکھا گیا ۔
اب چونکہ انہیں او بی سی برادری میں شامل کردیا گیا ہے ایسے میں مغربی بنگال میں بھی زعفرانی طاقتوں کا عروج ممکن دکھائی دے رہا ہے ۔ موجودہ حالات میں ہندو آبادی کی اکثریت کو اقلیتی عروج سے آسانی سے خوفزدہ کیا جا رہا ہے اور انہیں یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں ( برطانوی ) نے عددی اعتبار سے اقلیت میں رہتے ہوئے بھی صدیوں تک حکمرانی کی ہے ۔ فرقہ پرست طاقتوں کی جانب سے ایک پیچیدہ تاریخی مسئلہ کو بہت زیادہ سہل انداز میں پیش کرنے کے نتیجہ میں یہ طبقات متاثر بھی ہو رہے ہیں۔ اسی طریقہ سے نفرت کو فروغ دینے والی سیاست عروج پاتی ہے ۔
آج کے دور میںسوشیل میڈیا پر بی جے پی کی تائید کرنے والوں کی اکثریت اسی طبقہ سے تعلق رکھتی ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ منڈل تحفظات سے وہ لوگ تعلیم ‘ تجارت اور روزگار کے معاملہ میں اہم عہدوں تک نہیں پہونچ پا رہے ہیں۔ فراخدلانہ معاشی پالیسیوں کے بعد نوجوانوںمیں بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور زرعی شعبہ بحران کا شکار ہے اور اس سے بھی یہ طبقہ متاثر ہوا ہے ۔ اسی عدم اطمینان اور ناراضگی کو مسلمانوںکے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو رسوا کیا جا رہا ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف بغض و عناد میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ تمام شعبوں میں سرائیت کرتا جا رہا ہے ۔ اس بغض و عناد کو نفرت اور مسلمانوں کے خلاف تشدد میں بدلا جا رہا ہے ۔
شہری علاقوں سے یہ صورتحال دیہی علاقوں تک پھیل گئی ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں بھی تجارتی مخالفتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خلیج میں برسر کار مسلم پروفیشنلس نے دیہی مارکٹوں میں بھی اپنی تجارت شروع کردی ہے ۔ پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے بھی تعلیم اور آگہی حاصل کرلی ہے ۔ بڑی مساجد اور تہواروں کے موقع پر عوامی تعیشات میں ان کی موجودگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ حالانکہ اس طرح کے بیشتر معاملات اور عوامی رسوم و تہواروں کا تعلق در اصل خود مسلمانوں میں مسلکی اختلافات کو ظاہر کرتا ہے ۔
اس طرح کے اجتماعات کو اکثر ہندووں کے خلاف مسلمانوں کی طاقت آزمائی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ روایتی غلبہ والے مذہبی اکثریت کس طرح سے اپنے احساس عدم تحفظ کو فرقہ وارانہ خطوط پر مہم چلاتے ہوئے مذہبی اظہار یگانگت کے ذریعہ خود اقلیت پر منتقل کرنا چاہتی ہے ۔ اس کیلئے مسلمانوں کو یکا و تنہا کیا جا رہا ہے اور انہیں بدنام بھی کیا جا رہا ہے ۔ اسی طریقہ سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مبنی سماجی دھاگہ کو متاثر کیا جا رہا ہے جس کے نتیجہ میں جارحانہ ہندوتوا کو فروغ مل رہا ہے ۔
جارحانہ ہندوتوا کا احیاء 1980 کے دہے میں ہوا اور 1990 اور 2000 کی دہائی میں یہ زیادہ خطرناک نہیں رہا ۔ ملک کے بیشتر حصوں میں اس کا اثر کم رہا جب ماتحت گروپس اپنے حال سے آگے آ رہے تھے اور اعلی ذات والوں کو اقتدار سے بیدخل کر رہے تھے ۔ کانگریس پارٹی مسلسل اپنے اہم اصولوں سے سمجھوتہ کرتی رہی جس کے نتیجہ میں عوام میں اس کی تائید کم ہوتی رہی اور عملا وہ تقریبا ہر شعبہ سے باہر ہوگئی ۔
1946 سے کانگریس نے مسلمانوں کو نظر انداز کرنا شروع کردیا اور اس حد تک کیا کہ مسلسل درخواستوں کے باوجود کانگریس نے مسلم غلبہ والی نشستوں سے بھی مسلم امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیا ۔ اس کی غیر سنجیدگی کا پتہ 1938 میں ہی مل گیا تھا جب مسلم عوامی رابطہ مہم شروع کی گئی تھی اور اکثریتی اور اقلیتی فرقہ وارانہ طاقتوں مہاسبھا اور لیگ نے اس کا استحصال کیا تھا ۔ تاہم 1938 سے 1946 کے درمیان کے برخلاف اب 2014 کے بعد ایک علیحدہ مملکت کے وعدہ کے ساتھ کوئی جناح پیدا نہیں ہوسکتا کیونکہ اب کوئی محدود مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سامراجی مملکت ہے ۔ ہم کو اب موجودہ حالات کو اس کے تمام تر حقائق کے ساتھ قبول کرنا ہوگا ۔
حالانکہ اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ آج کے دور میں سامراجی طاقتوں کی مقامی اور عالمی سرمایہ دارایت کی وجہ سے امیر اور غریب کا فرق بڑھتا جا رہا ہے جس کے نتیجہ میں شناخت پر مبنی نفرت اور تشدد کو ہوا دی جا رہی ہے اور سماج میں تقسیم کا بیج بویا جا رہا ہے ۔ دو تاریخی مواقع ایسے ہیں جن میں شائد قریبی مماثلت ہوبھی سکتی ہے اور نہیں بھی ۔ اس کے باوجود 1938 کے بعد کے نوآبادیاتی ہندوستان اور 2014 کے بعد کے جمہوری ہندوستان میں دو بہت تشویشناک مماثلتیں ہیں۔ یہ بھی ایک تشویشناک مسئلہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو اختیارات سے ہنوز محروم نہیں کیا جاسکتا اور نہ انہیں نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔
ایسے میں تشویشناک سوال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کو حاشیہ پر کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو صورتحال کیا رنگ لائے گی ؟ ۔
کیا انہیں انتخابی اور سیاسی اعتبار سے غیر اہم ‘ خاموش اور بے وزن ہی رکھا جائیگا اور اس کے باوجود برسر اقتدار جماعت انہیں بدنام کرتی رہے گی اور کیا یہ لوگ سکیولر جماعتوں کیلئے بوجھ ہی بنتے رہیں گے جیسا کہ آج کے گجرات میں ہے ؟ ۔
کیا یہ ایسا معاملہ ہے جہاں ایک خاموش اور غیر اہم اقلیت فرقہ پرست اکثریت ہی کو خوش کرتی رہے گی ؟ ۔
ہندوستانی قوم پرستی یقینی طور پر تشویشناک انداز میں بدل رہی ہے ۔ یہ نفرت پر مبنی ہے اور اس سے مسلمانوں کو خارج کیا جا رہا ہے ۔ اس سے ان تمام خیالات کی تائید ہوگی جن کی وجہ سے ہمارا ملک 1947 میں تقسیم ہوگیا تھا ۔
قومیں اس طرح سے نہیں بنتیں۔ اس کے برخلاف یہ وہ راہیں ہیں جن سے قومیں ختم ہوجاتی ہیں۔
اس کا ہمیں قبل از وقت خیال رکھنا ہوگا ۔
کیا ہم رکھ پائیں گے ؟ ۔