ہندوستان میں دعوت دین کا کام کرنا آسان

حیدرآباد۔ 27 جنوری(پریس نوٹ) آندھراپردیش کے مشہور وکیل وسیم احمد نے کہاکہ ہمارے پیارے ملک ہندوستان کے دستور میں بہت زیادہ مذہبی آزادی کا حق دیا گیا ہے۔ یہاں کا دستور اور قانون ہم پر اللہ سبحانہ تعالی کی جانب سے عائد دعوت دین کی ذمہ داری کو پورا کرنے میں کافی مددگار ہے۔ہمیں صرف اس دستور کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہاں یو آئی آر سی کے پانچ روزہ دعوتی تربیتی کیمپ میں ’’ہندوستانی دستور کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے دعوت دین کیسے انجام دیں‘‘کے عنوان پر خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر صوبائی جمعیت اہلحدیث کے امیر ڈاکٹر سعید احمد مدنی‘ یو آئی آر سی کے صدر برادر شفیع‘ نائب صدر محمد خضر‘ جوائنٹ سکریٹری برادر سراج الرحمن اور جوائنٹ سکریٹری برادر سید الیاس احمد بھی موجود تھے۔ وسیم احمد نے کہا کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد کی سب سے بڑی غلطی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہی وطن عزیز کے دستور اور قانون سے واقف نہیں ہیں۔ وہ جاننا ہی نہیں چاہتے کہ انہیں کیا حقوق حاصل ہیں۔ دستور کے تحت ہر شہری کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے‘ اُس پر عمل کرنے اور اُس کی تبلیغ کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے لیکن اس کی کچھ شرائط بھی ہیں۔ انہوں نے دستور کی دفعہ 25 کے ساتھ ساتھ دیگر دفعات اور حقوق کی تفصیلات سے داعی حضرات کو واقف کروایا۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا بیحد ضروری ہے کہ ہمارے کسی کام سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے اور امن و سکون کی فضاء خراب نہ ہونے پائے کیوں کہ ہم مسلمان امن کے سفیر ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہر غیرمسلم تک اللہ کے احکامات پہنچانا اُمت مسلمہ کی ذمہ داری ہے اور ہندوستانی دستور کی روشنی میں اگر ہم اس کام کو پوری مستعدی کے ساتھ انجام دیتے ہیں تو ہمارے لیے راہیں بہت آسان ہیں۔ وسیم احمدنے‘ جو کہ یو آئی آر سی کے لیگل اڈوائزر بھی ہیں ‘ مزید کہا کہ ہم رسول اکرم ﷺکی حیات طیبہ کو اپنے لیے مثال بناتے ہوئے برادران وطن کو درپیش مسائل کا حل پیش کرسکتے ہیں۔ یہ تمام لوگ حق قبول کرسکتے ہیں بشرطیکہ ہم اس امانت یعنی قرآن مجید اور رسول اکرم ﷺ کی مبارک زندگی پر ہم خود عمل کرنا شروع کردیں۔ یہ صرف علماء اور اسکالرس کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان کو اپنے قول و فعل کے ذریعے دعوت دین کا پیغام پہنچانا ضروری ہے اور یہ ہمارے لیے لازمی ہے۔ اب مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہ دعوت دین کو اپنا مقصد بنالیں کیوں کہ رسول اکرم ؐ اور صحابہ کرام کی زندگی ہمیں یہی سبق دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو مقصد ہی کو نہ سمجھے گا اور اسے حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کرے گا اسے کوئی فائدہ حاصل ہونے کی امید نہیں۔ہمیں نہ صرف اپنی بلکہ تمام انسانوں کی بھی ابھی سے اصلاح کی طرف متوجہ ہونا چاہئیے تاکہ کل ہمیں یہ کہنا نہ پڑے’’ یعنی جب تک دنیا میں رہے خواب غفلت میں سوئے رہے اور کوئی کام کیا تو ظالمانہ کیا۔‘‘