ہندوستان میں خون کے اسٹیم سیلس کے عطیہ پر شعور بیداری

چار لاکھ افراد کے نمونے جمع کرنے میں داتری نامی تنظیم کامیاب ، خون کی بیماری سے بچانے کی مساعی
حیدرآباد۔27فروری(سیاست نیوز) انسان کو ہونے والی بیماریوں میں خون سے متعلق بیماریاں انہیں زندگی سے محروم کرنے والی ثابت ہوتی ہیں لیکن ان کی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ جس طرح خون کا عطیہ دیتے ہوئے انسان کی زندگی بچائی جا سکتی ہے اسی طرح اسٹیم سیلس کے عطیہ کے ذریعہ بھی کسی کو زندگی عطا کی جاسکتی ہے لیکن عوام میں شعور نہ ہونے کے سبب خون سے متعلق بیماریوں میں مبتلاء افراد دنیا بھر میں اسٹیم سیلس کی تلاش میں مصروف ہیں اور اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان سے میاچ کرنے والا اسٹیم سیلس میسر آجائے تو زندگی بچائی جائے۔ تھیلیسمیا کے علاوہ خون کے کینسر میں مبتلاء افراد کو اگر بروقت ان کے میاچنگ اسٹیم سیلس دستیاب ہوجاتے ہیں تو انہیں نئی زندگی مل سکتی ہے۔ ہندستان کی آبادی 120 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے لیکن اس کے باوجود اسٹیم سیلس کے لئے لوگ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کا رخ کرتے ہیں تاکہ انہیں اسٹیم سیلس حاصل ہوجائیں اور زندگی کو بچایا جاسکے ۔ماہرین کا کہناہے کہ خون کے کینسر کے100سے زائد اقسام ہیں اور ان میں نصف سے زیادہ ایسے ہیں جن کا علاج صرف اسٹیم سیلس کے ذریعہ ہی ممکن ہوسکتا ہے ۔

اسٹیم سیلس بلڈ گروپ کی طرح بہ آسانی میاچ نہیں ہوتے بلکہ یہ جینیاتی طور پر میاچ ہونا ضروری ہے اسی لئے ان کے 100 فیصد میاچ ہونے پر ہی اس کا علاج کیا جاسکتا ہے اور اکثر یہ جینیاتی اسٹیم سیلس خاندان اور بھائی بہنوں کے درمیان ہی میاچ کرتے ہیں لیکن جب ان میں بھی نہیں میسر آتے تو مریضوں کے رشتہ دار دنیا بھر میں اسٹیم سیلس کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اسٹیم سیلس کا عطیہ دینے کا رجحان ہے لیکن ہندستان میں 2009 سے داتری نامی تنظیم اس سلسلہ میں شعور بیداری کی کوشش کرتے ہوئے 4لاکھ افراد کے نمونوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جبکہ ہندستان کی 120کروڑ کی آبادی میں ہزاروں مریضوں کو درکار اسٹیم سیلس حاصل ہوسکتے ہیں۔ خون کے کینسر میں مبتلاء مریضوں کے علاوہ تھیلیسمیا کے مریضوں کے لئے اسٹیم سیلس کا حاصل ہونا نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے کیونکہ اس کے ذریعہ ہی ان کا مکمل علاج ممکن ہے اور اسکے ذریعہ قطعی علاج کے بعد وہ عام زندگی گذارنے کے متحمل ہوجاتے ہیں۔

مسٹر کرن جو کہ داتری نامی تنظیم کے ساتھ خدمات انجام دیتے ہیں نے بتایا کہ اسٹیم سیلس کا عطیہ کوئی مشکل کام نہیں ہے بلکہ جس طرح خون کا عطیہ دیا جاتا ہے اسی طرح اسٹیم سیلس کا عطیہ دیا جاسکتا ہے اور ایک شخص زندگی میں کتنی بھی مرتبہ اسٹیم سیلس کا عطیہ دے سکتا ہے کیونکہ انسان کے جسم میں اسٹیم سیلس کی زندگی 48 گھنٹے ہوتی ہے اور ان کی پیداوار کا جائزہ لیا جائے تو انسانی جسم کیلئے پیدا ہونے والے اسٹیم سیلس میں صرف 2 فیصد اسٹیم سیلس کارکرد ہوتے ہیں جبکہ 98فیصد اسٹیم سیلس 48 گھنٹے بعد فوت ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہندستانی قوانین کے اعتبار سے 18تا50 سال کے افراد اسٹیم سیلس کا عطیہ دے سکتے ہیں اور انہیں کوئی مسائل نہیں ہوتے ۔ مسٹر کرن نے کہا کہ شعور نہ ہونے کے سبب عوام اسٹیم سیلس کے عطیہ سے خود کو دور رکھے ہوئے ہے جبکہ اسٹیم سیلس کا عطیہ دینا بھی خون کا عطیہ دینے جیسا ہی ہے ۔تھیلیسمیا متاثرین کو اگر ان کا میاچ اسٹیم سیلس میسر آجاتے ہیں تو ایسی صورت میں انہیں زندگی میں ہر ماہ خون چڑھانے سے نجات حاصل ہوجاتی ہے اور خون کے کینسر میں مبتلاء افراد کو اسٹیم سیلس حاصل ہونے سے انہیں مکمل نئی زندگی مل جاتی ہے اسی لئے عوام بالخصوص نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اسٹیم سیلس کے عطیہ پر توجہ مرکوز کریں اور اسٹیم سیلس کے نمونہ کو داتری نامی تنظیم کے پاس جمع کروائیں تاکہ ضرورت پڑنے پر مریض یا ان کے رشتہ دار ان عطیہ دہندگان سے رابطہ قائم کرسکیں جن کے اسٹیم سیلس میاچ حاصل ہوں۔