ہندوستان ایک کمزور وزیراعظم کا خواہاں

شیوم ویج
ہندوستان میں گزشتہ پارلیمانی انتخابات اور اس مرتبہ ہورہے پارلیمانی انتخابات میں وزیراعظم نریندرمودی کے کام کرنے کے انداز اور بحیثیت اقتدار کی کرسی پر ان کے تیور عوامی توجہ کا مرکز ہیں، کیونکہ 2014 میں جب ہندوستانیوں نے انتخابات میں یہ سوچ کر رائے دہی کی تھی انہیں ایک طاقتور وزیراعظم چاہیے ، لیکن انتخابات میں شاندار کامیابی کے بعد نریندر مودی کچھ زیادہ ہی طاقت ور ہوگئے اور اب جبکہ 2019 میں جو انتخابات ہو رہے ہیں اس میں ہندوستانی عوام کو کسی قدر کمزور نریندر مودی چاہیے۔ موجودہ انتخابات نریندر مودی اور غیر منظم اپوزیشن کے درمیان اصل مقابلہ ہے کیونکہ غیر منظم اپوزیشن کبھی بھی تاش کے پتوں کی طرح گرسکتی ہے ۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا اس وقت ہندوستان میں تیسرا ایسا محاذ موجود ہے جو کہ آئندہ 5 برس کے لئے ہندوستان میں حکومت قائم کر سکتا ہے جیسا کہ پہلے ہی مودی کہہ چکے ہیں کہ ان کی جماعت اس مرتبہ بھی 282 نشستوں پر کامیابی حاصل کرے گی ۔ ایسے ہی کچھ حالات کانگریس کے ساتھ بھی موجود ہیں جو کہ 150 یا اس سے زائد نشستوں کے حصول کے ذریعے حکومت بنانے کے لئے پر اعتماد ہے ، لیکن اسی حالت میں کانگریس کی حکومت سازی کو بی جے پی کسی بھی حال میں آسان ماحول فراہم نہیں کرے گی بلکہ وہ ہر وقت پارلیمنٹ اور راجیہ سبھا میں یکے بعد دیگرے پالیسی اور تنازعات کو کھڑا کرتے ہوئے حکومت کو کسی بھی طرح سے گرانے کی کوشش کرے گی۔

اب جبکہ ہندوستان میں پارلیمانی انتخابات کا ماحول ہے تو سب سے پہلے یہ سوال اٹھتا ہے کیا اب بی جے پی یقینی طور پر اکثریت حاصل کرپائے گی اور اگر ایسا ہوتا ہے تو مودی 2014 سے زیادہ طاقتور ہو جائیں گے۔گذشتہ انتخابات میں ترقی کے نام پر کیے جانے والے کئی ایک اہم وعدوں کا پورا نہ ہونے کے باوجود اگر بی جے پی کو سادہ اکثریت بھی حاصل ہوجاتی ہے تو نریندر مودی کی مطلق العنانیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور اگر ایسا ہوا تو مودی کی جانب سے مزید تغلقی فیصلے کیے جا سکتے ہیں ۔ 2014 کے انتخابات میں جہاں وکاس کے نام پر کئی ایک ایسے وعدے کیے گئے تھے جو کہ سبز باغ ہونے کے علاوہ کچھ ثابت نہیں ہوئے تھے اور اب جبکہ ان وعدوں کی عدم تکمیل کے باوجود بی جے پی کو سادہ اکثریت مل جاتی ہے تو پھر مودی کی جانب سے کئی ایک فیصلے ہو سکتے ہیں جیسا کہ انہوں نے 2014 میں کامیابی کے بعد نوٹ بندی ، جی ایس ٹی کے علاوہ ہندوستان کے کئی اہم اداروں کی آزادی کو بھی محدود کر دیا ہے ۔ اس کے علاوہ آسام اور بنگال تا کشمیر اور کیرلا کی صورت حال اطمینان بحش نہیں ہے ۔ مزید طاقتور مودی کا مطلب یہ ہو گا کہ ہندوستان میں ہندو توا اور انتہا پسندی کو اور فروغ ملے گا۔ ہندوستان اس وقت ایک کمزور مودی کیوں چاہتا ہے اس کی بھی کئی وجوہات ہیں ۔کیونکہ طاقتور مودی کے آگے کئی تجارتی ادارے منہ کھولنے کی ہمت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے دیکھا گیا کہ ہندوستان میں کاروبار کی صورتحال زوال پذیر ہوگئی ہے لہذا ایسے حالات میں ہندوستان چاہتا ہے کہ انہیں ایک کمزور مودی ملے جس کے ذریعے وہ نہ صرف اپنی پسند کی حکومت چلا سکے بلکہ اپنے مفاد میں ہونے والے فیصلوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ سکے ۔ اگر مودی 200 سے زائد نشستوں کے ساتھ کامیابی حاصل کرتے ہیں تو پھر وہ کسی کی نہیں سنیں گے۔ یہ سننے میں بھی عجیب لگتا ہے کہ ملک خود ایک کمزور وزیراعظم کی تمنا کر رہا ہے لیکن اس کی کئی ایک اہم وجوہات ہیں۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران طاقتور مودی کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے اور مطلق العنانیت نے کئی افراد اور کئی شعبوں کو کمزورکر دیا ہے ۔ یہ سب پر عیاں ہے کہ ایک اہم کارنامہ کے باوجود ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کو آج ہندوستان کی تاریخ میں ایمرجنسی واقعے کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے جبکہ راجو گاندھی نے پانچ چوتھائی اکثریت سے کامیابی بھی حاصل کرتے ہوئے اس کا فائدہ نہیں اٹھاپائے ۔ بطور طاقتور لیڈر اس کا سب سے پہلے یہی ذہن ہوتا ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ ہندوستان اس وقت ایک کمزور وزیراعظم کا خواہاں ہے کیونکہ وزیراعظم اگر چند افراد اور جماعتوں کی حمایت سے اقتدار کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو اسے ہمیشہ اپنے حمایتیوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے ، جس کی وجہ سے وہ کوئی ایسا فیصلہ نہیںکر پاتا جس سے کہ اکثریت کو اور اسے حمایت دینے والوں کو ناراض کرنے کی وجہ بن سکے ۔ 2014 کے انتخابات میں ہندوستانیوں نے باہو بلی کو منتخب کیا تھا نہ کہ چوکیدار کو منتخب کیا تھا۔

عوام جب چوکیدار کا انتخاب کرتے ہیں تو انہیں اپنی نیند میں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی ، 2019 کے انتخابات میں بھی ہندوستان کو ایک ایسے چوکیدار کی ضرورت ہے جس سے عوام کو خوف نہ ہو ۔ چوکیدار حفاظت کے لئے ہوتا ہے نہ کہ اپنے فیصلے عوام کا فائدہ ہو یا نہ ہو لوگوں پر صادر کرنے کے لئے ہوتا ہے ۔ 5 سال کا عرصہ کافی طویل ہوتا ہے اور ہم کسی بھی ایسے شخص یا خاتون کو یہ اختیار نہیں دے سکتے کہ وہ 1.3 بلین عوام کی قسمت کا فیصلہ کر سکے، اس لئے نہیں کہ ہم نے اسے ووٹ دے کر منتخب کیا ہے اور وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر ہمارے خلاف یا ہمیں پریشان کرنے والا کوئی بھی فیصلہ کر سکے کیونکہ ہمیں ایک ایسا وزیراعظم چاہیے جس پر جمہوری ملک کے طاقتور ادارے نظر رکھ سکیں چونکہ ہندوستان میں سپریم کورٹ ، راجیہ سبھا، الیکشن کمیشن اورلو ک پال کے علاوہ کئی ایسے ادارے ہیں جو کہ عوامی فلاح بہبود کے لیے قائم کیے گئے ہیں اگر ایک طاقتور وزیر اعظم ان اداروں کو ہی اپنے مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرے تو پھر عوام کے لیے بہتر فیصلے ہونے کی امید ہی نہیں کی جا سکتی ۔ ہندوستان میں آئندہ حکومت اگر سی بی آئی کو اپنے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرے تو ہمارے پاس ایسا اپوزیشن بھی ہونا چاہیے جو کہ اسے غلط قرار دیتے ہوئے طاقتور وزیر اعظم اور اس کے حمایتیوں کو روک سکے ۔ بہرکیف ایک جملے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں اس وقت ایک کمزور وزیراعظم کا طاقتور نظریہ ہے۔