ہندوستان۔ پاکستان کشیدگی فائدہ کس کا

محمد ریاض احمد
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی سے فائدہ کس کو ہوگا، اس بارے میں زیادہ غور و فکر کے بناء جواب دیا جاسکتا ہے۔ امریکہ ہندوستان کو اور چین پاکستان کو اپنے اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان پر سرجیکل حملوں سے متعلق ہندوستان کے دعوؤں اور پاکستان کی جانب سے ان دعوؤں کی تردید کا سلسلہ جاری ہی ہے کہ امریکہ اور چین نے ہندوستان اور پاکستان کو کشیدگی سے دور رہتے ہوئے بات چیت کے ذریعہ مسائل کے حل کا مشورہ دیا ہے۔ ویسے بھی مشورہ دینا آسان اور ان پر عمل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کو یہ جان لینا چاہیئے کہ ـآپسی لڑائی لائن آف کنٹرول عبور کرکے ایک دوسرے کے علاقہ میں داخل ہونے یا جنگ پر تیار ہونے سے کچھ فائدہ ہونے والا نہیں کیونکہ پہلے ہی سے دونوں ملک غربت، بیروزگاری ، بیماریوں کا شکار ہیں۔ اگر ہندوستان۔ پاکستان غربت ، بیروزگاری اور بیماریوں کے خلاف جنگ کرتے تو بہتر ہوتا اس سے دونوں ملکوں کے عوام کا فائدہ ہوتا اور سارے خطہ میں خوشگوار تبدیلیاں رونما ہوتی۔ دفاعی اور سیاسی مبصرین کے خیال میں ہندوستان اور پاکستان کو کشیدگی کم کرنے کے اقدامات کرنے چاہیئے ۔ دونوں ملکوں کی حکومتیں چاہے وہ ہندوستان میں نریندر مودی اور پاکستان میں نواز شریف کی حکومتیں کیوں نہ ہوں فی الوقت عوام کے دباؤ میں ہیں ان کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ خاص طور پر نریندر مودی حکومت کے بارے میں ہندوستان شہریوں میں یہ تاثر پایا جاتاہے کہ پچھلے ڈھائی سال کے دوران انہوں نے اور ان کی حکومت نے صرف دعوے کئے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ اور سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے بہانے وہ زائد از 50ملکوں کا دورہ کرچکے ہیں، ملک میں کسان خودکشی کررہے ہیں۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں میں فرقہ پرست سنگھ پریوار کے شرپسندوں ( گاؤ رکھشکوں) نے بے چینی پیدا کررکھی ہے۔ یہ شرپسند تحفظ گاؤ کے نام پر مسلمانوں کا قتل کررہے ہیں۔ دلتوں کی چمڑی ادھیڑ رہے ہیں، عیسائیوں کی عبادتگاہوں ( گرجا گھروں ) کو تباہ و برباد کررہے ہیں۔ ملک میں معقولیت پسندوں، امن وامان کی بات کرنے والے ادباء و شعراء کی زندگیوں کا خاتمہ کیا جارہا ہے۔ ان حالات میں بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کو اچھی طرح اندازہ ہوگیا ہے کہ پنجاب اور یو پی کے انتخابات میں بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑے گی اور اگر اتر پردیش میں بی جے پی اقتدار حاصل نہ کرسکی تو شاید 2019کے عام انتخابات میں ناکامی اس کا مقدر ہوگی۔ نریندر مودی حکومت پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے کشمیر میں محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی سے اتحاد کرکے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ حکومت میں شامل رہنے کے باوجود وہ کشمیر میں پچھلے 3 ماہ سے جاری بے چینی کو دور نہ کرسکی۔ تشدد پر قابو نہ پاسکی۔ اس تشدد میں 100سے زائد کشمیری بشمول نوجوان اور خواتین جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اڑی میں 18ہندوستانی سپاہیوں کی دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاکت پر تو مودی حکومت پر ملک کی سرحدوں کی حفاظت میں بھی ناکامی کا الزام عائد کردیا گیا۔ ان حالات میں وزیر اعظم نریندر مودی کیلئے ایک ہی امکان رہ گیا تھا کہ کسی نہ کسی طرح اڑی واقعہ کا انتقام لیا جائے۔ ہندوستانی فوج نے جو سرجیکل حملہ کیا ہے اُسی انتقام کی ایک کڑی ہے جبکہ پاکستان نے ہندوستان کے سرجیکل حملوں میں 50دہشت گردوں کی ہلاکتوں سے متعلق ہندوستانی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اپنے صرف دو سپاہیوں کے مارے جانے کی تصدیق کی اور سوشیل میڈیا میں ان دو سپاہیوں کی تصاویر بھی منظر عام پر لائی۔ جواب میں پاکستان نے ایک ہندوستانی سپاہی کو پکڑا ہے۔یہ تو رہا دہشت گردانہ حملہ اور اس کے جواب میں سرجیکل حملہ لیکن اس کے بعد امریکہ اور چین کافی سرگرم ہوگئے ہیں خاص طور پر امریکہ کی مشیر قومی سلامتی نے ہندوستان کے مشیر قومی سلامتی اجیت دولال سے بات چیت کی۔ اس بات چیت میں امریکی مشیر قومی سلامتی نے ہندوستانی مشیر قومی سلامتی کو کیا مشورہ دیا یہ تو معلوم نہ ہوسکا لیکن بعد میں امریکہ کا جو بیان سامنے آیا اس میں کہا گیا کہ ہندوستان اور پاکستان کو کشیدگی کم کرکے مذاکرات کا عمل جاری رکھنا چاہیئے۔ امریکہ جانتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کی افواج رابطے میں رہی ہے۔ اس بارے میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان جان کیری کا کہنا ہے کہ دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان پیدا ہوئی اس کشیدگی میں کمی کیلئے دونوں افواج کے درمیان رابطوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیئے۔ ویسے بھی 27ستمبر کو وزیر خارجہ سشما سوراج اور ان کے امریکی ہم منصب جان کیری کی ملاقات میں سرحد پار دہشت گردی اور کشمیر میں جاری تشدد کا موضوع زیر بحث آچکا ہے۔ اس وقت جان کیری نے دونوں نیو کلیر طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ پر محتاط رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ امریکی ترجمان نے ہندو پاک کو برقراری امن کا مشورہ دیتے ہوئے یہی کہا ہے کہ دونوں ممالک کیلئے امریکہ کا پیغام یہی ہے کہ وہ خطرات سے نمٹنے اور کشیدگی کا باعث بننے والے اقدامات سے بچنے کیلئے مذاکرات کی راہ اختیار کریں کیونکہ امریکہ چاہتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان زندگی کے ہر شعبہ میں تعاون و اشتراک میں اضافہ ہو۔ مسٹر کیری کے مطابق امریکہ نے خطہ میں دہشت گردی سے لاحق خطرات پر ہمیشہ سے ہی گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ امریکہ نے ایک بات واضح کی کہ وہ لشکر طیبہ، حقانی گروپ اور جیش محمد جیسے انتہاپسند گروپوں کے خلاف کارروائی پر زور دیتا رہے گا۔امریکی حکومت کے خیال میں دہشت گردی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک لعنت ہے جس کا صفایہ ضروری ہے۔ دوسری جانب انڈیا ٹائمس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اڑی حملہ کے بعد ہندوستان نے ساری توجہ اور توانائیاں ایل او سی پر جھونک دی ہیں ان حالات میں چینی سرحد پر ہندوستان کیلئے چیلنجس بڑھ گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے حوالے سے منظر عام پر آئی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انڈیا ٹائمس نے لکھا ہے کہ ستمبر کے اوائل میں چینی سپاہی ارونا چل پردیش میں 45کلو میٹر اندر گھس آئے اور یہ دعوے کرتے ہوئے کہ یہ علاقہ چین کا ہے ان لوگوں نے وہاں ایک شیلٹر تعمیر کردیا۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً 40 چینی فوجیوں نے انجا ضلع میں لائن آف ایکچول کنٹرول کے اندر 45 کلو میٹر کے علاقہ میں ایک عارضی شیلٹر تعمیر کردیا ہے تاہم ہندوستانی فوج کے ذرائع نے چینی فوج کی دراندازی کی تردید کی ہے۔ لیکن اتنا ضرور کہا ہے کہ اس علاقہ میں ہندوستانی اور چینی فوج مسلسل گشت کرتی رہی ہے۔ چین ارونا چل پردیش کو جنوبی تبت کا علاقہ تصور کرتا ہے جس کے نتیجہ میں سرحد پر ہند۔ چین فوج کے درمیان تناؤ کی کیفیت برقرار رہتی ہے۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ہند۔ پاک کشیدگی نے مودی اور نواز شریف کو عوامی ہمدردیاں بٹورنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ خاص طور پر وزیر اعظم مودی کے خلاف عوامی برہمی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا تھا جس پر شاید اجیت دوول نے حرکت میں آکر مودی کو خواب غفلت سے بیدار ہوکر حالات کو اپنے اور بی جے پی کے حق میں سازگار بنانے کا مشورہ دیا۔بہرحال ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کو یہ سوچ لینا چاہیئے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ، حملوں اور جوابی حملوں سے فائدہ کس کا ہوگا۔؟
mriyaz2002@yahoo.com