ہندوستانی سرمایہ داروں کی بیرونی ممالک سرمایہ کاری پر توجہ

کرنسی تنسیخ کے بعد صورتحال یکسر تبدیل، ہندوستان کے معاشی بحران پر فیصلہ

محمد مبشر الدین خرم
حیدرآباد۔31ڈسمبر ۔ہندوستانی معیشت میں آرہے بحران کے سبب ہندستانی سرمایہ کار بالخصوص وہ سرمایہ کار جو جائیدادوں میں سرمایہ کاری کیا کرتے تھے اب ان کی دلچسپیاں دبئی‘ ترکی اور سعودی عرب کے بعض علاقو ں میں بڑھنے لگی ہیں۔ 2016 کے اواخر میں کرنسی تنسیخ کے فیصلہ کے بعد پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لینے پر یہ بات منظر عام پر آئی ہے کہ جو لوگ اثاثہ کے طور پر جائیدادیں خریدا کرتے تھے ان لوگوں نے رئیل اسٹیٹ شعبہ میں سرمایہ کاری بند کردی ہے اور تیزی سے بیرون ملک جائیدادوں کی خریدی کے رجحان میں اضافہ دیکھا جانے لگا ہے ۔ شہر حیدرآباد کے علاوہ ملک کی دیگر ریاستوں اور شہرو ںمیںبھی یہ رجحان پایاجانے لگا ہے اور ہندستانی معیشت کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے رئیل اسٹیٹ تاجرین دبئی میں اپنے آفس شروع کرنے لگے ہیں جس کے نتیجہ میں سرمایہ کاری بیرون ملک ہی ہونے لگی ہے۔ رئیل اسٹیٹ تجارت جو دبئی اور ترکی منتقل کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ملک کے معاشی حالات کا ایک سال کے دوران جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہورہے ہیں کیونکہ ہندستانی رئیل اسٹیٹ شعبہ میں سرمایہ کاری اور جائیدادوں کو بطور اثاثہخریدنیکے رجحان میں تیزی سے گراوٹ دیکھی جانے لگی ہے۔ حالیہ عرصہ میں ایک تا دو کروڑ کی اراضیات اور جائیدادوں کی خریدی بطور اثاثہ کرنے والوں نے بھی دبئی کا رخ کرنا شروع کردیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ترکی میں بھی ہندستانی سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ہے۔دبئی میں سال 2016کے اواخر میں رئیل اسٹیٹ شعبہ میں بیرونی سرمایہ کاری ہندستانی سرمایہ کاروں نے شروع کی ہے اور جاریہ سال کے دوران بھی ہندستانی سرمایہ کار دبئی کے رئیل اسٹیٹ شعبہ میں دیگر ممالک سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والے سرفہرست سرمایہ کاروں میں شمار کئے جانے کا امکان ہے۔ ہندستان میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے سلسلہ میں معاشی ماہرین کا کہناہے کہ جو بیرونی ممالک ہندستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں وہ ہندستانی معیشت یا یہاں کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اسٹاک مارکٹ میں کی جانے والی بیرونی سرمایہ کاری کے سبب ہندستانی معیشت سے بیرونی سرمایہ کار بھرپور منافع حاصل کر رہے ہیں جبکہ بیرونی سرمایہ کاری کسی صنعتی ادارہ کی شروعات کیلئے ’’میک ان انڈیا‘‘ میں نہیں کی جا رہی ہے بلکہ اسٹاک مارکٹ میں کی جانے والی سرمایہ کاری ملک کی معیشت کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ وہ کسی خانگی کمپنی کے شئیرس میں کی جانے والی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ ہندستانی رئیل اسٹیٹ سرمایہ کاروں کی جانب سے بیرون ملک سرمایہ کاری میں کیا جانے والا اضافہ ہندستانی رئیل اسٹیٹ شعبہ کو تباہ کرسکتا ہے اور ہندستان میں حکومت کی پالیسیوں کے سبب سرمایہ کار اپنے سرمایہ کو ملک کے باہر منتقل کرتے ہوئے بھاری منافع بھی حاصل کرنے لگے ہیں۔رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کے ذریعہ اثاثہ محفوظ کرنے اور ان کے ذریعہ منافع حاصل کرنے کے خواہشمندوں کی ترکی اور دبئی میں سرمایہ کاری کے سبب جائیدادوںکی قیمتوں میں گراوٹ ریکارڈ کی جانے لگی ہے۔ اس کے علاوہ ہندستانی رئیل اسٹیٹ تاجرین سعودی عرب میں بھی سرمایہ کاری کے سلسلہ میں غور کر رہے ہیں لیکن ابھی سعودی عرب میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے متعلق سعودی حکومت کی غیر واضح پالیسی کے سبب بڑی تعداد سعودی عرب کی جانب متوجہ نہیں ہے لیکن دبئی اور ترکی میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں بتدریج اضافہ ہونے لگا ہے اور اس سرمایہ کاری میں 2018کے دوران مزید اضافہ کا امکان ہے ۔ بیرونی ممالک بالخصوص دبئی میں سرمایہ کاری کرنے والے رئیل اسٹیٹ تاجرین کا کہناہے کہ ہندستان کی غیر واضح معاشی پالیسی اور سرمایہ کاروں کے علاوہ جائیداد مالکین کے مفادات کے تحفظ میں کوئی حکمت عملی نہ ہونے کے سبب تجارتی برادری اور سرمایہ کاروں میں احساس عدم تحفظ پیدا ہونے لگا ہے جس کے سبب دبئی ‘ ترکی اور سعودی عرب جیسے ممالک میں اثاثوں کی خریداری میں اضافہ ہونے لگا ہے اور اان جائیدادوں میں سرمایہ کاری کو محفوظ تصور کیا جانے لگا ہے۔ہندستانی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہندستان میں کی جانے والی بیرونی سرمایہ کاری نئے صنعتی اداروں کے قیام کیلئے کی جانی چاہئے لیکن اس کے برعکس یہ رجحان دیکھا جارہا ہے کہ بیرونی سرمایہ کار بیرونی راست سرمایہ کاری کے ذریعہ ہندستانی حصص مارکٹ میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے منافع حاصل کر رہے ہیں جبکہ نئے صنعتی اداروں کے قیام کے لئے کی جانے والی سرمایہ کاری ملک میں بیروزگاری کے خاتمہ میں کلیدی رول ادا کر سکتی ہے اور اس طرح کی سرمایہ کاری سے ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے کے علاوہ گھریلو پیداوار کی شرح میں اضافہ بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہورہاہے اور ہندستانی رئیل اسٹیٹ سرمایہ کار بیرون ملک سرمایہ کاری کر رہے ہیں جو کہ حکومت کی غلط پالیسی کا نتیجہ ہے۔