ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے

میراکالم سید امتیاز الدین

گرمی شباب پر ہے۔ الیکشن کی سرگرمیاں آخری مراحل میں ہیں۔ کسی کو اپنی زبان پر قابو نہیں۔ قدم قدم پر ضابطہ اخلاق کی یاد دہانی کرانی پڑتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں اور صحیح کہتے ہیں کہ 2014 ء جیسا الیکشن ہماری جمہوریت کی تاریخ میں نہیں آیا۔ اس کی ایک سیدھی سادی وجہ یہ بھی ہے کہ اتنا لمبا الیکشن بہت صبر آزما ثابت ہورہا ہے۔ جو لوگ برسر اقتدار ہیں اُن کو جلدی ہو نہ ہو لیکن جو لوگ اقتدار میں آنا چاہتے ہیں اُن کا پیمانۂ صبر لبریز ہوچکا ہے۔ کیچڑ اتنا اُچھالا جاچکا ہے کہ اب کیچڑ کی قلت محسوس ہونے لگی ہے۔ آج ہم نے ایک انگریزی اخبار میں دیکھا کہ 1962 ء سے لے کر 1989 ء تک جو انتخابات ہوئے تھے اُن کی مدت چار سے لے کر چھ دن تک تھی۔ پچھلے چند سالوں سے انتخابات کی مدت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپسی تلخیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ اوٹ پٹانگ باتیں کی جارہی ہیں۔ لگتا ہے جیسے صرف گالیاں دینا باقی رہ گیا ہے۔ کبھی نہایت تلخ اور کڑوی فضا میں کوئی میٹھی بات بھی سننے میں آجاتی ہے تو یک گونہ راحت سی محسوس ہوتی ہے۔

پچھلے دنوں ہم نے پڑھا کہ ہمارے ایک اہم اور خوش مزاج رہنما ڈگ وجئے سنگھ جی نے اپنی گوں ناگوں مصروفیات کے باوجود معاملاتِ دل کے لئے بھی وقت نکالا۔ ایک انگریزی اخبار نے اُن کا ایک بڑا دلکش فوٹو شائع کیا جس میں وہ ایک ٹی وی جرنلسٹ کے ساتھ دکھائے گئے۔ ہمیں یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ اِن دونوں کو شاعری سے بہت دلچسپی ہے اور یہی دلچسپی دونوں کے قرب کا سبب بنی۔ عام خیال یہ ہے کہ عشق کی منزلیں بہت کٹھن ہوتی ہیں۔ لیکن اِن دونوں پریمیوں کے لئے یہ بہت آسان ثابت ہوئیں۔ ڈگ وجئے سنگھ کی اہلیہ پچھلے سال کینسر سے انتقال کرگئیں اور ٹی وی اینکر باہمی رضامندی کی بنیاد پر اپنے شوہر سے علیحدہ ہورہی ہیں۔ اب کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ ڈگ وجئے سنگھ کے سیاسی حریف ہاتھ مل رہے ہیں کہ اُنھیں عیب جوئی کا کوئی موقع نہیں مل سکا ورنہ الیکشن کے زمانے سے بہتر زمانہ اور کیا ہوسکتا تھا کہ تھوڑا سا کیچڑ اِس بہانے بھی اُچھالا جائے۔

سچی بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو انسانی زندگی اور فطرت سے جُڑا ہوا ہے۔ ایسے واقعات عام آدمیوں کی زندگی میں روز ہی ہوا کرتے ہیں۔ لیکن جب کسی مشہور شخصیت کے ساتھ کوئی بات پیش آتی ہے تو لوگ بات کا بتنگڑ بنادیتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں دل کی خاطر جنگیں لڑی گئی ہیں۔ ہم تاریخ کے طالب علم تو نہیں رہے لیکن ہم نے سنا ہے کہ جہانگیر جس کا عدل مشہور ہے دل کے ہاتھوں مجبور ہوا تھا۔ اُس نے نور جہاں کے شوہر شیر افگن خاں کو ایک خطرناک مہم پر روانہ کردیا تھا جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے اور نور جہاں ملکۂ ہندوستان بن گئی۔ ویسے ملکۂ نور خاں کی مخفی صلاحیتیں عہدِ جہانگیری میں کُھل کر سامنے آئیں۔ سنا ہے کہ گلاب کا عطر اُسی کی ایجاد ہے۔ وہ شاعرہ بھی تھی۔ جہانگیر نے عید کا چاند دیکھ کر مصرع پڑھا تھا ’جہاں ہلال عید بروئے فلک ہویدا شد‘‘ تو نور جہاں نے گرہ لگائی ’’کلیدِ میکدہ گم گشتہ بود پیدا شد‘‘۔ قصہ مختصر فنونِ لطیفہ میں یہ مہارت اُس کے ملکہ بننے کی وجہ سے کُھل کر سامنے آئی۔

پچاس کی دہائی میں پاکستان کے ایک وزیراعظم تھے جن کا نام تھا محمد علی بوگرہ۔ بوگرہ صاحب نے دوسری شادی کی اور اُس کے کچھ ہی دنوں بعد ہندوستان کے سرکاری دورہ پر آئے۔ چونکہ اُن کی پہلی بیوی پہلے سے ہی کافی جہاں دیدہ تھیں اسلئے وہ دوسری بیوی کو ساتھ لائے۔ یہاں محمد علی بوگرہ اعلیٰ عہدیداروں سے گفت و شنید میں مصروف رہے لیکن اُن کی بیگم نے پورا وقت دہلی کے بازاروں میں خریداری میں گزارا۔ بعض ناسمجھ لوگوں نے خیال کیاکہ محترمہ فضول خرچ ہیں لیکن سمجھ دار لوگ خوش ہوئے کہ اسطرح وہ دونوں ملکوں کے مابین تجارت کو فروغ دے رہی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ تجارت کو فروغ بھی حاصل ہوتا لیکن کیا کیجئے کہ وطن واپسی کے کچھ ہی دنوں میں محمد علی بوگرہ کو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا اور اُنھوں نے اُس کے بعد باقی زندگی اُمور خانہ داری میں گزاری۔

جان ایف کنیڈی امریکہ کا بہت مشہور پریسڈنٹ گزرا ہے۔ اُس کو کسی نے برسرِ راہ قتل کردیا۔ اُس کا سوگ ساری دنیا میں منایا گیا۔ اُس کی بیوہ جیکولین کنیڈی کو بہت سی مراعات دی گئیں۔ چند ہی سال بعد جان کنیڈی کے بھائی رابرٹ کنیڈی کو کسی نے قتل کردیا۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ میں یہ بات پھیل گئی کہ کنیڈی خاندان آفت زدہ ہے اور اس خاندان کے تمام افراد کسی نہ کسی مصیبت کا شکار ہوں گے۔ جیکولن کنیڈی ان باتوں سے اتنی وحشت زدہ ہوئیں کہ انھوں نے امریکہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ انھوںنے یونان کے ایک ارب پتی تاجر سے شادی رچالی۔ اُس تاجر کا نام تھا اُناسس۔ اُناسس نے اپنے پرائیوٹ جزیرے پر شادی کا اہتمام کیا۔ لیکن جیکولین کو یہ شادی راس نہ آئی۔ اُناسس بوڑھا بھی تھا ، بیمار رہا کرتا تھا اور اُس کے طور طریق بھی ٹھیک نہیں تھے۔ جب وہ مرا تو اُس کی جائیداد کا بہت بڑا حصہ اُس کی بیٹی کو ملا۔ جیکولین کو باقاعدہ قانونی لڑائی لڑنی پڑی تب جاکے اُس کو کچھ حصہ ملا جو تلچھٹ سے زیادہ نہیں تھا۔

ہم نے ابھی کہاکہ بیچارہ اُناسس ارب پتی تو تھا لیکن بہت بوڑھا تھا اور بیمار بھی رہا کرتا تھا۔ اس پر ہمیں ایک بات یاد آگئی۔ آج سے سو سال پہلے تک بھی لوگ دنیا کے سفر پر نکلتے تو بحری جہاز ہی سے سفر کرتے ایک نہایت امیر میاں بیوی دنیا گھومنے نکلے۔ امیر خاتون ایک نیکلس پہنی ہوئی تھی جس میں نہایت بیش قیمت ہیرا جڑا ہوا تھا۔ ایک ہم سفر خاتون نے اُس ہیرے کو دیکھا تو بہت متاثر ہوئیں اور اُس امیر خاتون سے دریافت کیاکہ اس ہیرے کا نام کیا ہے۔ اُس خاتون نے جواب دیا کہ اس ہیرے کا نام جارج ہیرا ہے۔ پھر ہمسفر خاتون نے سوال کیاکہ اکثر بیش قیمت ہیروں کے ساتھ کوئی نحوست بھی لگی ہوئی ہوتی ہے کہ اس ہیرے کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہے۔ امیر خاتون نے جواب دیا، ہاں اِس کے ساتھ بھی ایک نحوست ہے، میرے بوڑھے شوہر مسٹر جارج۔
دل کے معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ لوگ سب کچھ قربان کردیتے ہیں۔ برطانیہ کے ایک بادشاہ تھے ایڈورڈ ہشتم۔ اُن کا دل ایک خاتون پر آگیا تھا جو طلاق شدہ تھیں۔ ایڈورڈ کو ملک کے بعض اُصولوں کے تحت اِس شادی کی اجازت نہیں ملی۔ ایڈورڈ نے تخت و تاج کو ٹھکرا دیا اور اپنی پسند کی شادی کرلی۔

شادیوں کی بات چلی تو ہم کو اپنے زمانہ کی باکمال اور نہایت خوبصورت اداکارہ الزبتھ ٹیلر کی یاد آگئی۔ اُنھوں نے بھی شادیوں کا ایک ناقابل تسخیر ریکارڈ قائم کردیا تھا۔ ویسے تو مشہور ہیرو رچرڈ برٹن بھی کچھ عرصہ تک اُن کے شوہر رہے لیکن ایلزبتھ ٹیلر نے اتنے غیر معروف اصحاب سے شادیاں رچائیں کہ لوگ زوجیت کی نسبت بجائے شوہر کے ایلزبتھ ٹیلر کی طرف کرنے لگے جیسے چوتھے مسٹر ایلزبتھ ٹیلر، پانچویں مسٹر ایلزبتھ ٹیلر وغیرہ۔
حال میں فرانس کے ایک پریسڈنٹ ہوا کرتے تھے جن کا نام تھا موسیو سرکوزی۔ پتہ نہیں اُن کی عمر کیا تھی لیکن اُن کا دل جوان تھا۔ اُنھوں نے بھی اپنی رومانٹک لائف کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ چونکہ فرانس بھی ایک ترقی یافتہ اور وسیع النظر ملک ہے۔ اس لئے سرکوزی کی سرکوبی نہیں ہوئی۔ بحیثیت صدر اُن کے کارنامے کیا ہیں، اس کا تو ہمیں پتہ نہیں لیکن اُن کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ جب وہ صدر تھے تو قصر صدارت میں بھی ایک لڑکا تولد ہوا جبکہ اب تک کسی صدر کو دورانِ صدارت اولاد نہیں ہوئی تھی۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ہم نے اِس کالم کے ابتداء میں لکھا تھا کہ الیکشن کے اِن ہنگاموں میں جہاں کسی کے منہ سے کوئی شائستہ بات نہیں نکل رہی ہے ڈگ وجئے سنگھ جی کی محبت بھری داستان بادِ صبا کی طرح فرحت بخش معلوم ہوئی۔ موصوف بہت اچھی باتیں کرتے ہیں۔ ہماری ریاست کے مبصر بھی ہیں۔ ابھی تلنگانہ کا باقاعدہ اعلان بھی نہیں ہوا تھا لیکن اُنھوں نے طلباء کو پیشگی خوش خبری سنادی اور اپنی طرف سے شاید مٹھائی بھی کھلا دی۔ جو آدمی شعر و شاعری کا دلدادہ ہو اُس کے مہذب اور بااخلاق ہونے میں کسے شبہ ہوسکتا ہے۔ ہم اُنکے ذوقِ شعری کو ملحوظ رکھتے ہوئے صرف اتنا عرض کرنا چاہتے ہیں :
ہم ہوے تم ہوے کہ میرؔ ہوے
سب اُسی زلف کے اسیر ہوے