ہم کو بجٹ کی کیا ضرورت ہے

میرا کالم سید امتیاز الدین
پچھلے ہفتے ہمارے وزیر فینانس ارون جیٹلی صاحب نے اپنا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہی بجٹ کئی سال سے مختلف وزرائے مالیات پیش کرتے آرہے ہیں۔ بجٹ کی تقریر ہر سال وہی ہوتی ہے صرف اعداد و شمار کی تبدیلی ہوتی رہتی ہے ۔ بجٹ کی بے رنگی کو رنگینی میں تبدیل کرنے کیلئے کچھ بے موقع اشعار کا اضافہ کیا جاتا تھا لیکن اس سال چونکہ ہمارے مالی موقف ٹھیک نہیںہے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کا موڈ بھی ٹھیک نہیں ہے اس لئے ضرورت شعری اسی میں سمجھی گئی کہ اشعار سے پرہیز کیا جائے ۔ اب تک ہر سال فبروری کی28 تاریخ کو ایک مخصوص وقت یعنی گیارہ بجے بجٹ پیش کیا جاتا تھا ۔ سنا ہے تاریخ اور وقت کی یہ پابندی برطانوی پارلیمنٹ کی روایت ہے جسے انگریزوں نے یہاں بھی رائج کیا تھا ۔

اب اس غلامانہ پابندی کی ضرورت نہیں۔ سچ پوچھے تو اب خود بجٹ کی چنداں ضرورت نہیں رہی کیونکہ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب بارش آپ کے اختیار میںنہیں۔ ٹماٹر، آلو اور پیاز کی قیمتیں آپ کے اختیار میں نہیں تو بڑے بڑے مالیاتی نشیب و فراز کی پیش قیاسی آپ کیسے کرسکتے ہیں۔ ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ بجٹ کے دن وزیر مالیہ وزیر اعظم سے زیادہ اہم معلوم ہوتا ہے ۔ پتہ نہیں حکومت اسے نئے کپڑے بھی بناتی ہے یا نہیں لیکن یہ تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ اسے ایک نیا بریف کیس دلایا گیا ہے کیونکہ بریف کیس کی چمک خود منسٹر صاحب سے زیادہ لگتی ہے ۔ وزیر موصوف گاڑی سے اترتے ہی بریف کیس اس طرح لہراتے ہیں کہ دیکھنے والے یہ سمجھ نہیں پاتے کہ وزیر موصوف بریف کیس کے ساتھ آئے ہیں یا بریف کیس ان کو اپنے ساتھ لایا ہے۔

ابھی ہم آپ سے کہہ رہے تھے کہ ہم کو اب بجٹ کی چنداں ضرورت نہیں رہی۔ کہا جاتا ہے کہ قوم فردسے بنتی ہے جو بات فرد کے حق میں درست ہوتی ہے وہ قوم کے حق میں بھی صحیح ثابت ہوتی ہے ۔ ہم اپنے ذاتی تجربہ سے آپ کو یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اب بجٹ کی ضرورت کیوں نہیں رہی ۔

2001 ء میں ہم وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے ۔ وظیفہ کے ساتھ ہی ہماری تنخوہ آدھی ہوگئی گویا کھڑے قد سے اچانک اکڑوں بیٹھ گئی ۔ ہم نے سوچا کہ اب ہم کو اپنی زندگی کا حساب کتاب درست کرنا ہوگا۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے ہمیں کچھ مراعات حاصل تھیں جنہیں perks کہا جاتا ہے ۔ ہم دفتر کے خرچ پر روزانہ دو اخبارات منگوا سکتے تھے۔ ٹیلی فون مفت تھا۔ گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر سرکاری خرچ پر آتے جاتے تھے ۔ وظیفہ کے بعد ہم نے سوچا کہ برسوں کی اخبار بینی کی وجہ سے ہمیں احوال عالم کا اچھا خاصہ تجربہ ہوچکا ہے اس لئے اخبار کو بند کردینا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ٹیلی فون پر گفتگو کی بجائے عزیزو اقارب اور دوستوں سے بالمشافہ گفتگو زیادہ بہتر رہے گی۔ اس سے ہم کو صحیح اندازہ ہوگا کہ ہم سے لوگ کتنے بے زار ہیں ۔ غرض ان رہنمایانہ اصولوں کو سامنے رکھ کر ہم نے اپنا بجٹ بنانا شروع کیا ۔

بجٹ بناتے ہوئے ہم نے محسوس کیا کہ اپنی زندگی کو اپنی پنشن کے حدود میں رکھنا کافی مشکل ہے ۔ اتفاق سے انہی دنوں ہمارے ایک دوست ہم سے ملنے کیلئے آئے ۔ جب ہم کو انہوں نے بجٹ بنانے میں مبتلا دیکھا تو انہوں نے ہم سے کہا کہ بجٹ بنانے کی غلطی کبھی مت کرنا ۔ مجھے دیکھو میں الٹے بجٹ پر عمل کرتا ہوں اور آرام کی زندگی گذارتا ہوں ۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ اُلٹا بجٹ کیا ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’جو خرچ واقعی ضروری رہتا ہے وہ سیدھے تمہاری جیب میں داخل ہوتا ہے اور ضروری رقم جیب سے نکلوا کر رہتا ہے ۔ پیشگی بجٹ بناوگے تو بعض غیر ضروری چیزوں پر پیسہ خرچ ہوجائے گا اور اصل ضرورت کیلئے تمہارے پاس کچھ باقی نہیں بچے گا ۔ پھر تمہاری مالی حالت حکومت کی مالی حالت کی طرح ہوجائے گی۔ ہماری وزارت خزانہ اپنے وقت اور اپنے اسٹاف کا بڑا حصہ بجٹ کی تیاری میں ضائع کرتی ہے ۔ ہم نے تو یہاں تک سنا ہے بجٹ تیار کرنے والا عملہ دو چار دن پہلے سے عملاً قید ہوجاتا ہے کہ کہیں کوئی بات افشاء نہ ہوجائے گا ۔ پھر بھی تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں ۔ خود بخود بہت سی باتیں پھیل جاتی ہیں ۔

حکومت کسی پارٹی کی ہو ہر فینانس منسٹر کا طریقہ کار ایک سا ہوتا ہے ۔ ہر وزیر مالیہ سگریٹ گٹکھا اور بعض دوسری مکروہات دنیوی پر پابندی سے ہر سال ٹیکس بڑھاتا ہے جس سے عام لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ وزیر موصوف کو ہماری صحت کی بڑی فکر ہے اور وہ اسے مزید تباہ نہیں ہونے دینا چاہتے ۔ ہم پچھلے پچاس سال سے دیکھ رہے ہیں کہ ہر سال سگریٹ کے دام بڑھتے ہیں۔ اس حساب سے اب تک سگریٹ کی قیمت سونے چاندی کی قیمت سے بڑھ جانی چاہئے تھی لیکن آج بھی سگریٹ پینے والے مزے سے دھواں اڑا رہے ہیں اور حکومت بدستور ناصح مشفق بنی ہوئی ہے ۔ہمارے بجٹ میں بعض ایسے مقاصد کے لئے رقمیں مختص کی جاتی ہیں جو کبھی خرچ ہی نہیں ہوتیں۔ کئی فلاحی اسکیمات کے نام پر کروڑوں روپئے مختص کئے جاتے ہیںلیکن جن لوگوں کے فائدے کیلئے یہ اسکیمیں مرتب کی جاتی ہیں اُن لوگوں کو خبر تک نہیں ہوتی اور جب خبر ہوتی ہے تو اُن کو مطلع کیا جاتا ہے کہ درخواست دینے کا وقت ختم ہوچکا ہے ۔

اسی طرح بسا اوقات ہمالیائی نوعیت کے منصوبے بعض ضرورت سے زیادہ دو اندیش اصحاب کے ذہن میں آتے ہیں۔ ایسے منصوبوں کے لئے ایک مطالعاتی ٹیم کا قیام ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ ایسی اسٹڈی ٹیم کی تحقیق و تجربات کے لئے بھی رقم مختص کی جاتی ہے ۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہمارے ملک میں بہنے والی دریاوں کو آپس میں ملا دیا جائے تو خشک سالی اور بدحالی یکلخت دور ہوجائے گی ورنہ ہر سال بہت سی دریاوں کا پانی سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے ۔ یہ اسکیم یوں تو بہت اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن ہمیں ڈر ہے کہ اگر دریاوں کے رُخ موڑے جائیں تو کہیں پانی اتنا وافر نہ ہوجائے کہ صرف نل کھولنے پر سیلاب آجائے ۔ دریاوں کی گذر گاہیں تبدیل ہوجائیں بھی تو عجیب عجیب حالات کا سامنا ہوسکتا ہے ۔ کیا پتہ دریائے گوداوی بہتی ہوئی کشمیر کی کشمیرکی طرف نکل جائے اور وہیں منجمد ہوجائے۔دریائے برہم پتر گوا کی طرف آجائے اور گوا کے ساحل پر دھوپ سینکتے ہوئے حضرات و خواتین کو بھاگ کر کہیں اور نکل جانا پڑے ۔ آج کل ساری دنیا میں پانی کی قلت ہے ۔ کیا پتہ سمندروں کو بھی اپنا بھرم قائم رکھنے کیلئے دریاوں کے پانی کی ضرورت پڑتی ہو ۔ کتنی ہی ندیاں خلیج بنگال، بحیرہ عرب وغیرہ میں گر جاتی ہیں۔ اگر ہم ان دریاوں کو سمندر میں گرنے سے روک دیں اور ان کا راستہ تبدیل کر کے ان کو ملک کی دوسری دریاوں میں ملا دیں تو کیا عجیب کہ سمندر میں پانی کی قلت ہوجائے ۔ اس صورت میں ہم کو کسی دن ایسی خبر بھی مل سکتی ہے کہ ہانگ کانگ سے ایک بحری جہاز کلکتہ آرہا تھا لیکن کلکتہ کے قریب ناکافی پانی کی وجہ سے جہاز بندرگاہ سے چالیس پچاس کیلو میٹر دور رک گیاہے اور مسافرین بحالت مجبوری پائنچے اٹھا کر کیچڑ میں سنبھل سنبھل کر قدم رکھتے ہوئے ساحل کی طرف آرہے ہیں۔

بجٹ میں ایک عام دلچسپی کی چیز شخصی انکم ٹیکس ہوتا ہے۔ اکثر اس میں کسی رعایت کا اعلان ہوتا ہے لیکن جب آپ اپنی ریٹرن (Return) بناتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ رعایت کے باوجود ہر سال ٹیکس کا بوجھ بڑھ جاتا ہے ۔ سالانہ بجٹ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ برسر اقتدار پارٹی کو اپنا بجٹ بہت پسند آتا ہے ۔ اکثریتی جماعت کے تمام ممبرس بیک زبان کہتے ہیں’ مدت سے تھے عوام اسی انتظار میں، اس کے بر خلاف حزب مخالف بجٹ کو سننے سے پہلے ہی کانوں پر ہاتھ رکھ لیتا ہے اور اسے عوام دشمن قرار دیتا ہے ۔

حکومت اور وزیر مالیہ کو چاہئے کہ بجٹ کی قواعد مرتب کرنے کی بجائے روپئے کی قدر و قیمت میں اضافہ کرے ۔ آج تھیلے میں روپئے اور بٹوے میں سودانے کے دن آگئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہم نے خود روپئے کی قوت خرید کو اپنے عروج پر دیکھا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ 1956 ء میں ریڈیو سیلون سے ایک پروگرام ہوتا تھا’’سیریڈون ریڈیو ترنگ ‘’ ۔ سیریڈون ریڈیو ترنگ والوں نے اپنے سامعین سے خواہش کی تھی کہ اس نعرے پر گیت لکھیں ۔ ہمارے بڑے بھائی شاذ تمکنت صاحب نے اس عنوان پر ایک نظم لکھی اور ہمارے نام سے بھیج دی ۔ نتیجہ نکلا اور ہمارے نام سیریڈون بنانے والی کمپنی نے ڈھائی سو روپئے کا چیک بھیجا ۔ ہم کو اس رقم میں سے بھائی نے پچھتر روپئے دے۔ آپ کو تعجب ہوگا کہ ان پچہتر روپیوں میں ہماری دو شیر وانیاں بنیں ایک شارک اسکن کی ایک بِنی کی ۔ اس کے علاوہ باٹا کی ایک سینڈل بھی ہم نے خریدی ۔ آج پچھتر روپئے میں ہوائی چپل بھی نہیں آتی۔

قصہ مختصر آج گرانی کا یہ عالم ہے کہ خود ارون جیٹلی کو بجٹ تقریر پڑھتے ہوئے بار بار پانی پینا پڑرہا تھا ۔ جب پانی سے بات نہیں بنی تو انہوں نے اسپیکر سے پانچ منٹ کے وقفہ کی درخواست کی اور جب وقفہ کے بعد ایوان کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو وزیر موصوف نے بیٹھ کر بجٹ تقریر سنانے کی اجازت مانگی ۔ ہم نے سوچا کہ جب بجٹ بنانے والوں کو اتنی تکلیف اٹھانی پڑرہی ہے تو بجٹ جھیلنے والوں کو کتنی تکلفی اٹھانی پڑے گی۔ اسی لئے ہمارا کہنا ہے کہ ہم کو بجٹ کی کیا ضرورت ہے ۔