ہم پاکستانی آپ سے زیادہ تجربہ کار ہیں

محمود شام ، کراچی (پاکستان)

برا مت مانئے گا میں کچھ سچ لکھنے کے موڈ میں ہوں۔کہنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ کو تو محض یہ تجربہ ہے کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے۔ آپ نے حکومت ہمیشہ صرف ووٹ کی طاقت سے بدلی ہے۔آپ کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ اقتدار منتقل کرنے کے اور طریقے بھی ہو سکتے ہیں۔
ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں
آپ تو ایک بار ایمرجنسی لگنے سے گھبرا گئے تھے۔ میں ان دنوں یہ شعر دہرایا کر تا تھا۔
اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
ہم جزوی مارشل لاء بھی دیکھ چکے ہیں اور مکمل مارشل لا ء بھی کئی بارآزما چکے ہیں۔اسی لئے ہم جمہوریت کی قدر زیادہ جانتے ہیں۔ ہم نے عوام کا اقتدار بحال کروانے کے لئے، الیکشن منعقد کروانے کے لئے بڑی جدوجہد کی ہے، جیلیں بھری ہیں۔ جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔آپ شروع سے جمہوریت کے مزے لیتے آرہے ہیں۔ لیکن جب میں ہندوستان میں بھی انہی مسائل سے عوام کو پریشان پاتا ہوں جو ہمیں پاکستان میں درپیش ہیں تو مجھے بہت تشویش ہوتی ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ کیاجمہوریت بھی انسانوں کو آرام اور سکون نہیں دے سکتی ہے۔ کیا اس کے لئے کوئی اور نظام چاہئے۔ آپ میری اس الجھن کو سلجھا سکتے ہیں۔ہم پاکستان والے بہت خوش ہیں کہ ہمارے صوبۂ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے آپ کے پنجاب میںکبڈی کے مقابلے دیکھے۔ یہ تو ہماری قسمت کہ جب ہمارا وزیر اعظم کرکٹ میچ دیکھنے جائے تو ہم ہار جاتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ کبڈی میچ دیکھے تو ہم اس میں مار کھا جاتے ہیں۔ لیکن یہ دورہ پاکستان انڈیا دوستی کے لئے بہت اہم رہا ہے۔ کیونکہ میاں شہباز شریف وزیر اعظم کے بھائی ہونے کے باعث بھی اثر ورسوخ کے مالک ہیں اور وہ پاکستان کے لئے مختلف قومی اور بین الاقوامی امور کی فیصلہ سازی میں مرکزی کرداراداکر رہے ہیں۔ وزیر اعظم تو دورہ اسی صورت میں کر سکتے ہیں جب اس کے لئے سفارتی راہ ہموار ہو جس کے لئے وزارت خارجہ کو کام کرنا ہوگا وزارت دفاع بھی درمیان میں آئے گی۔ ایک وزیر اعلیٰ کے لئے ان لوازمات کی ضرورت نہیں ہوتی ۔سمجھنے والے اس دورے کو بھی وزیر اعظم کا دورہ مان رہے ہیں ۔پنجاب ہمارا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ ماضی میں بھارت سے تعلقات بہتر نہ ہونے میں پنجاب کے رویے ہی حائل رہے ہیں۔ اس وقت یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ کوئی وزیر اعلیٰ اپنے طور پر دہلی جاسکتا ہے۔ اب جب بڑے صوبے کے سربراہ نے پہل کر دی ہے تو اگر سندھ کے چیف منسٹر راجستھان کا، بلوچستان کے مکھ منتری ایران کا اور خیبرپختون خواہ کے وزیر اعلیٰ افغانستان کا اپنے طور پر دورہ کرتے ہیں۔ تو پنجاب کے دانشور ان پر ملک سے بیوفائی کا الزام نہیں دہرا سکیں گے۔

ہماری حکومت بھاری مینڈیٹ کے باوجود مشکلات کا شکار نظر آتی ہے۔ تخت پر بیٹھنے کی خواہش سب کرتے ہیں۔ مگر اس کے لئے جو ہوم ورک ہونا چاہئے اور جتنی تیاری کرنی چاہئے اس کی فکر نہیں کی جا تی۔ اپوزیشن تو خیر الزام بازی کرتی ہی ہے۔ لیکن ماہرین جو حقائق بتارہے ہیں وہ واقعی تشویش ناک ہیں۔ روزانہ چھ ارب روپے کے نوٹ چھاپنے کی بات ہو رہی ہے۔ جس سے ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ ایک سو سات روپے تک تو جا پہنچا ہے۔ ایسے میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار، جو وزیر اعظم کے سمدہی بھی ہیں۔ جب وہ پاکستان کے لوگوں کو مشورہ دیں کہ جن کے پاس ڈالر ہیں وہ ان کو بیچ کر پاکستانی روپے لے لیں۔ کیونکہ ڈالر کی قیمت گرنے والی ہے ماہرین کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ ایک انتہائی ذمہ دار سرکاری عہدیدار ایسی بات اتنے وثوق سے کیسے کر سکتا ہے۔ جب یہ سطور آپ کی نظروں کے سامنے ہوںگی اس وقت تک کوئی امید نہیں ہے کہ ڈالر کی قیمت میں کوئی بڑا فرق پڑے۔ اسحاق ڈارکی طرح وزیر داخلہ چوہدری نثار علی بھی حکمران جماعت کے اہم افراد میں گنے جاتے ہیں وہ اپنے ایک ماتحت افسر کے خلاف پریس کانفرنس کرتے عجیب و غریب دکھائی دیتے۔ قومی رجسٹریشن کے محکمے کے سربراہ طارق ملک کو آدھی رات کو حکومت نے ہٹادیا۔ لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے اگلی صبح بحال کردیا۔ حکومت کی سبکی ہوئی ۔

عدالت میں ابھی معاملہ چل رہا ہے مگر وزیر داخلہ نے اس افسر کے عیب اور حکم عدولیاں گنوا کر رائے عامہ اور عدالت پر اثر ڈالنے کی کوشش کی، جس میں حکومت کی بوکھلاہٹ صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اسی ہفتے عدالت نے ایک اور اعلیٰ افسر کو بھی اگلی صبح بحال کر کے نواز سرکار کے لئے پچھتاوے کا موقع فراہم کیا۔ یہ افسر تھے چوہدری رشید یہ پیمرا کے چئیرمین ہیں۔ جو پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کے معاملات کی نگرانی کرتے ہیں۔ ان کو بھی رات گئے برطرف کیا گیا تھا۔ اس حکومت کے اکثر عہدیدار ایسے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں، جن سے یہ باور ہوتا ہے کہ حکمران عدم تحفظ کے شکار ہیں۔ کسی ان دیکھی طاقت کا ڈر لگا ہوا ہے۔ ادھر تھڑوں ڈرائنگ روموں میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جس آرمی چیف کی مونچھیں ہوتی ہیں وہ مارشل لاء ضرور لگاتا ہے۔ عمران خان اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنے کے لئے بے تاب ہورہے ہیں۔ کیونکہ خیبر پختون خواہ میں حکومت تو ان کی پارٹی نے بنالی ہے مگر کوئی مسئلہ ان سے حل نہیں ہوا ہے۔ اس لئے اپنی ساکھ قائم رکھنے کے لئے مرکزی حکومت کی مخالفت ان کی سیاسی ضرورت ہے۔ آج ان کا لاہور میں جلسہ ہونا ہے۔ جہاںمسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ سننے میں آرہا ہے کہ سردی ختم ہوتے ہی نئی سیاسی صف بندی ہوگی۔ مارچ میں نواز شریف کے خلاف سیاسی مارچ شروع ہو سکتا ہے۔

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے ایک لیڈر ملاعبدالقادر کو پھانسی دئے جانے کے بارے میں پاکستان میں ہمدردانہ اور مخالفانہ دونوں جذبات سامنے آے ہیں اور 1971 کے زخم پھر تازہ ہو گئے ہیں۔ پرنٹ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر زوردار بحث چل پڑی ہے کہ شکست میں کس کا کیا کردار تھا۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے میں کون کون شریک تھا۔ بنگالیوں کا خون کس نے بہایا غیر بنگالیوں، بہاریوںکو کس نے ہلاک کیا۔ میرے خیال میں تو ایسی بحث کسی بھی قوم کی زندگی اور سنجیدگی کا اظہار ہوتی ہے۔ یہ خبر بھی آپ کے لئے اہم ہوگی کہ پاکستان کی اسٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ جنرل خالد قدوائی پندرہ سال تک اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد ریٹائر ہو گئے ہیں۔ ان کی جگہ لیفٹنٹ جنرل زبیر یہ حساس عہدہ سنبھال رہے ہیں۔
mahmoodshaam@gmail.com
صرف ایس ایم ایس کے لیے:92-3317806800