ہم اٹھاون برس سے شادی شدہ ہیں

میرا کالم مجتبیٰ حسین
کل ہم اپنے بعض پرانے بلکہ بوسیدہ کاغذات کوالٹ پلٹ رہے تھے کہ ان میں سے ایک مڑا تڑا کاغذ بھی نکل آیا ۔ اب جو ہم نے اس کا بغور مطالعہ کیا تو حیران رہ گئے کہ یہ تو ہماری ہی شادی کا نکاح نامہ ہے جس کے مطابق ہم 11 نومبر 1956 کو یعنی اٹھاون برس پہلے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے تھے ۔ گویا ہماری شادی شدہ زندگی کی عمر اب اٹھاون برس کی ہونے والی ہے۔ اگر یہ موقع کسی اسٹیڈیم میں ہمارے کرکٹ کھیلنے کا ہوتا تو نصف سنچری کے اوپر جاکرہمارے اس اسکور پر سارا اسٹیڈیم تالیوں سے گونج رہا ہوتا مگر ہمارے ہاں کرکٹ کے اسکور پر تو لوگ ضرور تالیاں بجاتے ہیں لیکن شادی کی سالگرہ کے اسکور پر عموماً اپنے سینوں پر ہتّڑ مار لیتے ہیںجیسے اس مبارک موقع پر ماتم کناں ہوں ۔ یہ مذاق نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ ہمارے ایک دوست اپنی شادی سے اس قدر نالاں تھے کہ اپنی شادی کی سالگرہ نہیں بلکہ برسی مناتے تھے ۔ وہ تو خدا کا فضل ہوا کہ پانچ برس کی شادی خانہ بربادی کے بعد جب انھوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو ہر سال بڑی پابندی کے ساتھ طلاق کی سالگرہ شادی کی برسی سے کہیں زیادہ دھوم دھام سے منانے لگے ۔ خرد کا نام جنوں اور جنوں کا خرد اسی طرح تو پڑتا ہے ۔ بہرحال اس بھولے بسرے نکاح نامہ کو پانے کے بعد ہم نے اپنی اہلیہ محترمہ کو پکار کر خوشی خوشی بتایا ’’اجی سنتی ہو! ہماری شادی شدہ زندگی کی عمر اب اٹھاون برس کی ہونے والی ہے‘‘ ۔ یہ سنتے ہی موصوفہ کی حالت اچانک ایسی ہوگئی جیسے انھیں سانپ سونگھ گیا ہو ۔ بولیں ’’یہ سانحہ کب ہوا ؟ کیسے ہوا ؟ تمہیں کس نے بتایا ؟‘‘ ہم نے نکاح نامہ کا بوسیدہ کاغذ انھیں تھمایا تو پوچھا ’’یہ تمہیں کہاں مل گیا ۔ شادی کے ابتدائی چار پانچ برسوں میں میں نے اس کاغذ کو بہت تلاش کیا مگر یہ نہ ملا ۔ اب کیسے مل گیا‘‘ ۔ ہم نے کہا ’’میں بھی کم و بیش اسی عرصے میں اس کاغذ کا متلاشی رہا مگر مجھے بھی نہ ملا ۔ میں تو اس کاغذ میں صرف دیکھنا چاہتا تھا کہ کسی ناگہانی صورت میں مجھے مہر کی کتنی رقم تمہیں ادا کرنی ہوگی‘‘ ۔ شرماکے بولیں ’’سچ تو یہ ہے کہ میں بھی مہر کی رقم کے بارے میں ہی جانناچاہتی تھی ۔

لیکن بعد میں زندگی کے جھمیلوں میں اس قدر الجھ گئی اور تم نے گھر کی اتنی ساری ذمے داریاں مجھ پر لاددیں کہ مجھے اس نگوڑے نکاح نامے کو ڈھونڈنے کی مہلت ہی نہ ملی (یہ الگ بات ہے کہ مہر کی رقم نہایت حقیر تھی) تم اپنی دفتری اور سماجی زندگی میں مگن رہے اور مجھے گھر کی چار دیواری میں پھنسادیا ۔ ایک بات بتاؤ کیا تمہیں سچ مچ یقین آرہا ہے کہ ہماری شادی کو اٹھاون برس ہوگئے ہیں ۔ مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ جیسے یہ ابھی کل کی بات یا بہت سے بہت پانچ برس پہلے کی بات ہو‘‘ ۔ ہم نے کہا ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم نے نہایت کامیاب شادی شدہ زندگی گزاری ہے ۔ وقت اچھا اور خوشگوار ہو تو پوری ایک صدی بھی کم سے کم ایک پل یا زیادہ سے زیادہ ایک سال میں گزر جاتی ہے ۔ تمہارے احساس کی ندرت اور خیال کی وسعت بتارہی ہے کہ تمہاری شادی شدہ زندگی بے حد کامیاب اور خوشگوار رہی ہے ۔ کیونکہ تمہارے احساس کے مطابق اٹھاون برس کا یہ عرصہ چٹکی بجانے میں بیت گیا ۔ دیکھا جائے تو مجھے بھی اس بات پر فخر ہے کہ میں نے تمہیں ایسی خوشگوار اور اتنی لمبی ازدواجی زندگی دی‘‘ ۔ بولیں ’’میری اس خوشگوار زندگی سے تمہارا کیا تعلق ہے اور تمہیں کس نے اس بات پر فخر کرنے کا موقع عطا کیا ۔ مان نہ مان میں تیرا مہمان والی بات ہے ۔ بھلا تم نے کولھو کے کسی بیل کو خوشگوار زندگی گزارتے ہوئے دیکھاہے ۔ تم نے بڑی ہوشیاری سے مجھے گھر کے جھمیلوں میں کچھ اس طرح پھنسایا کہ صبح پانچ بجے اٹھتی ہوں تو رات میں گیارہ بارہ بجے سے پہلے اپنی کمر سیدھی کرنے کا موقع نہیں ملتا ۔ اس سارے عرصے میں تم علی الصبح سیٹی بجاتے ہوئے گھر سے نکل جاتے رہے اور رات کے پچھلے پہر حسب معمول ویسے ہی سیٹی بجاتے ہوئے واپس بھی آتے رہے ۔ بھلا یہ بھی کوئی ازدواجی زندگی ہے ۔ یقین مانو پچھلے اٹھاون برسوں میں مجھے اتنی بھی فرصت نہ مل سکی کہ کبھی آئینہ میں جی بھر کے اپنی شکل ہی دیکھ لوں‘‘ ۔ اس پر ہم نے کہا ’’یہی وجہ ہے کہ تم آج بھی ویسی ہی دکھائی دیتی ہو جیسے آج سے اٹھاون برس پہلے دکھائی دیتی تھیں ۔ تمہیں آئینہ دیکھنے کی کیا ضرورت ہے ۔ میں جو تمہیں دیکھ لیتا ہوں‘‘ ۔ غصے سے بولیں ’’تمہاری ایسی ہی لفظی اور زبانی جمع خرچ کی وجہ سے مجھے گھر کے جمع خرچ کے سلسلے میں جان کھپانی پڑتی ہے‘‘ ۔ ہم نے بھی مناسب سمجھا کہ اپنی شادی کی گولڈن جوبلی کے معاملے کو اتنا طول نہ دیں کہ پھر کوئی نیا جھگڑا کھڑا ہوجائے ۔

ہمیں 1956 ء کا وہ جان لیوا نومبر اچھی طرح یاد ہے جب ہم ابھی طالب علم ہی تھے کہ ہمارے والد بزرگوار مولوی احمد حسین سابق تحصیل دار گلبرگہ اسی مہینے کی آٹھ تاریخ کو اچانک عثمان آباد سے حیدرآباد آئے اور اپنے برادر خورد یعنی ہمارے چچا مولوی محمد غوث سابق تحصیل دار تعلقہ کلم کے ہاں مقیم ہوئے (ہمارے یہ چچا صاحب قبلہ جنھیں 11 نومبر 1956 ء کے بعد ہمارے خسر محترم بننے کا شرف بھی حاصل ہوا ، ابھی آٹھ برس پہلے 102 سال کی عمر میں براہ امریکہ راہی ملک عدم ہوئے ۔ خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے) ۔ یہ اتفاق ہے کہ اسی نومبر کے پہلے ہفتے میں ہم سے دو سنگین گناہ سرزد ہوئے تھے ۔ ایک بار ہم دبیر پورہ کے ایک ہوٹل میں چائے پی کر اور دوسری بات یاقوت محل ٹاکیز سے کوئی فلم دیکھ کر نکل رہے تھے کہ دونوں مرتبہ ہمارے چچا صاحب قبلہ نے ہمیں رنگے ہاتھوں دیکھ لیا ۔ ہمارا ماتھا تو اسی وقت ٹھنکا تھا ۔ چنانچہ ان سانحات کے تین چار دن بعد ہی ہمارے والد بزرگوار اچانک حیدرآباد آگئے تو ہم نے تاڑ لیا کہ ہماری بربادی کے مشورے آسمانوں میں ہونے والے ہیں۔ دونوں بھائیوں میں نہ جانے کیا بات چیت ہوئی ۔ قیاس اغلب ہے کہ ہمارے چچا نے ہمارے والد بزرگوار کو بتایا ہوگا کہ ہم غلط راستے پر گامزن ہیں ، ہوٹلوں اور سنیما گھروں میں جانے لگے ہیں ، فوراً اسے شادی کے کھونٹے سے باندھ کر راہ راست پرلانا ضروری ہے ورنہ لڑکا ہاتھ سے نکل جائے گا ۔ (اس زمانے میں بگڑے ہوئے نوجوانوں کو راہ راست پر لانے اور حد سے زیادہ سیدھے اور سادہ لوح نوجوانوں کو بھی کسی حد تک بگاڑنے کا واحد علاج شادی کو ہی سمجھا جاتا تھا ۔ بھئی کیا زمانہ تھا اور کیا علاج تھا) ۔ ہمارے والد محترم جہاندیدہ انسان ہونے کے علاوہ شطرنج کے بہترین کھلاڑی بھی تھے ۔ انھوں نے فوراً پانسہ پلٹا اور اپنے برادرِ خورد سے کہا ’’بیٹا میرا ہے تو کیا ہوا تمہارا بھتیجہ بھی تو ہے۔ تم اسے راہ راست پر لانے کے لئے اپنی ہی کسی بیٹی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں کیوں نہیں دے دیتے‘‘ ۔

اس پر ہمارے چچا کو وہ پرانا مقولہ یاد آیا ’’سگ باش برادرِ خورد مباش‘‘ ۔ گئے تو تھے نماز معاف کروانے اُلٹے روزے گلے پڑگئے ۔ پھر انھیں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ علاج بالمثل کس کوکہتے ہیں ۔ اپنے بڑے بھائی کے حکم کی تعمیل نہ کرنے کی اپنے میں ہمت نہ پا کر انھوں نے نظریں نیچی کرلیں اور ہمارا رشتہ طے ہوگیا ۔ مخفی مباد ہمارے والد محترم جہاں زیادہ تر اولادِ نرینہ پیدا کرنے کے قائل تھے وہیں ہمارے چچا صاحب قبلہ اولادِ نرینہ کے علاوہ اولادِ زرینہ بھی پیدا کرنے کے حامی تھے ۔ ان کے ہاں اس وقت ’اسٹاک‘ میں جو بیٹی پڑی ہوئی تھی وہ بھی اصل میں اتنی بڑی نہیں تھی کیونکہ صرف آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی (ویسے ہم بھی تو بی اے کے طالب علم تھے) بالآخر وہی ہمارے حصے میں آئی اور ہماری رفاقت میں پچھلے اٹھاون برسوں سے لگاتار بڑی ہوتی چلی جارہی ہے ۔ ہم نے شادی کی پہلی ہی رات کو اپنی نئی نویلی دلہن یعنی اپنی سابق کزن سسٹر کی انگریزی دانی کا اندازہ لگانے کی خاطر ان سے انگریزی میں میریج کے spelling پوچھے تو بے انتہا شرمانے کے باوجود نہایت اعتماد سے کہا ’MARAGE‘ ۔ ہم نے خوش ہو کر کہا ’’شاباش ! تم تو بہت اچھی انگریزی جانتی ہو ۔ اب انگریزی پر اپنی توانائی ضائع نہ کرو بلکہ اردو پر اپنی توجہ مرکوز کرو کیونکہ ہم اردو کے صحافی بننا چاہتے ہیں اور ہم تمہیں اردو بیوی کے روپ میں ہی دیکھنے کے متمنی ہیں‘‘ ۔ شادی کے بعد ہماری اہلیہ نے بارہا اس خواہش کااظہار کیا کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہیں مگر ہم نے انھیں باور کرایا کہ تمہیں تعلیم کے حصول کی خاطر اپنا قیمتی وقت برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ کیونکہ تمہاری شادی خود ایک ایسے شخص سے ہوئی ہے جو علم کا خزانہ ہے ، علم کا منبع ہے بلکہ عالمِ بے عمل ہے ۔ ان دنوں ہمارا رویہ بھی ملتِ اسلامیہ کی موجودہ قیادت جیسا تھا جو ملت کی صفوں میں جہالت کو نہ صرف برقرار رکھنا چاہتی ہے بلکہ اسے فروغ دینے کو ضروری سمجھتی ہے کیونکہ اسے اندازہ ہے کہ ملت کی جہالت میں ہی قیادت کی عافیت مضمر ہے ۔

ہمیں 11 نومبر 1956ء کا وہ دن اچھی طرح یاد ہے ۔ ہماری شادی کی تاریخ کچھ ایسی عجلت میں طے ہوئی تھی کہ اگرچہ شادی کے دعوت نامے برائے نام چھپوائے گئے تھے لیکن انھیں تقسیم کرنے کی مہلت نہ ملی تھی ۔ بزرگوں میں عابد علی خاں صاحب اور ہمارے بڑے بھائی محبوب حسین جگر کے علاوہ چند قریبی رشتے داروں کی شرکت ضرور یاد ہے لیکن ہمارے دوستوں میں دعوت ناموں کے بغیر ہی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح کچھ اس طرح پھیلی کہ لگتا تھا ہماری شادی کے دن عثمانیہ یونیورسٹی کا آرٹس کالج دبیرہ پورہ کے فرحت نگر میں منتقل ہوگیا ہے ۔ غرض اٹھاون برس پہلے بھی جب کہ ہم نے اس دنیا میں بمشکل تمام صرف بیس ہی برس گزارے تھے عوام الناس میں ہماری مقبولیت دیدنی تھی ۔ مگر ہماری مقبولیت سے کہیں زیادہ ہمارے پرانے چچا اور نئے خسر محترم کی پریشانی دیدنی تھی جنھیں ہمارے ڈھائی تین سو بن بلائے دوستوں کی ضیافت کا اہتمام کرنے کی خاطر نہ صرف دبیرپورہ اور یاقوت پورہ کے سارے ہوٹلوں سے بلکہ پتھر گٹی کے مدینہ ہوٹل سے بھی کھانا منگوانا پڑا تھا۔ مرحوم جب تک زندہ رہے ہماری اس غیر ذمے دارانہ حرکت کے شاکی رہے ۔ جہاں وہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ ہم نے گھوڑے جوڑے کی کوئی رقم نہیں لی ، جہیز وغیرہ بھی نہیں لیا ، بہت اچھا کیا لیکن اپنے دوستوں کی ضیافت پر اتنا خرچ کروادیا کہ اس زمانے کے حساب سے کم از کم دو اور بیٹیوں کی شادی کا بندوبست ہوسکتا تھا ۔ خدا کے فضل سے ہم نے بعد کی زندگی بھی اسی غیر ذمے دارانہ آن بان اور شان کے ساتھ گزاری ۔یوں بھی اب ہماری زندگی کا دریا وقت کے سمندر میں ملا چاہتا ہے ۔ اس کا حال جان کر آپ کیا کریں گے ۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ اس طویل سفر میں ہم نے اور ہماری ’نصف بہتر‘ دونوں نے بے سرو سامانی ، بے اطمینانی کو ہی اطمینان ابتر کو بہتر اور بدحالی کو خوشحالی سمجھنے کا ہنر سیکھ لیا ۔
دیکھو ہم نے ایسے بسر کی اس آباد خرابے میں