ہمیں کچھ اور مت پڑھواؤ ہم قرآن پڑھتے ہیں

طلاق ثلاثہ بل… شریعت پر کھلا وار
زبانی جمع خرچ کب تک … جمہوری احتجاج ضروری

رشیدالدین
مسلم خواتین سے ہمدردی کے نام پر شریعت میں مداخلت کا بل آخرکار لوک سبھا میں منظور کرلیا گیا۔ اسے پارلیمنٹ کی تاریخ کا سیاہ دن کہا جائے گا کیونکہ مجوزہ قانون سازی کے ذریعہ دستور ہند کی خلاف ورزی کی گئی اور شرعی امور میں راست طور پر مداخلت ہوئی ہے۔ دستور ہند نے ہر شہری کو اپنی پسند کے مذہب کو اختیار اور عمل کا جو حق دیا ہے ، اسے پامال کرتے ہوئے نریندر مودی حکومت نے ہندوتوا اور ہندو راشٹر کی سمت قدم بڑھایا ہے۔ حکومت کی بعض حلیف اور بعض اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت کے باوجود ایوان میں عددی طاقت کا فائدہ اٹھاکر طلاق ثلاثہ بل کو منظوری دی گئی۔ یہ بل اب راجیہ سبھا میں پیش ہوگا ۔اگر وہاں بل کو منظوری میں حکومت کامیاب ہوتی ہے تو یہ قانونی شکل اختیار کر لے گا۔ راجیہ سبھا میں بی جے پی کو درکار اکثریت حاصل نہیں ہے اور بیجو جنتادل اور انا ڈی ایم کے نے بل کی مخالفت کی ہے اور یہ دونوں بی جے پی کی حلیف جماعتیں ہیں۔ ایسے میں راجیہ سبھا میں بل کی منظوری آسان نہیں۔ مبصرین کے مطابق منگل کے دن بل کی پیشکشی کے بعد اسے پارلیمانی سلیکٹ کمیٹی سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دینے والے اس بل کو جس انداز میں لوک سبھا میں منظور کیا گیا ، اس سے حکومت کے عزائم کا پتہ چلتا ہے۔ ملک میں یکساں سیول کوڈ کا نفاذ اور مسلمانوں کو شریعت سے محروم کرنے کی سازش میں بی جے پی کو عجلت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی دن میں بل پیش کرتے ہوئے منظوری حاصل کرلی گئی۔ اس سیاہ بل کے ذریعہ مسلمانوں کی غیرت اسلامی اور حمیت کا امتحان لیا جارہا ہے ۔

بل کی منظوری کے موقع پر 1986 ء کی پارلیمنٹ کا وہ منظر یاد آگیا جب راجیو گاندھی حکومت نے شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے مخالف شریعت فیصلہ کو بے اثر کرنے کیلئے دستوری ترمیم کی تھی لیکن آج اسی پارلیمنٹ نے شریعت میں مداخلت کے بل کو منظوری دی ہے۔ ملک بھر میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرتے ہوئے سیاسی مقصد براری میں مصروف بی جے پی حکومت نے ماحول بگاڑنے کا نیا حربہ استعمال کیا ہے۔ دراصل ملک میں مزاحمت کرنے والی سیکولر طاقتیں کمزور ہوچکی ہیں۔ جس راجیو گاندھی نے دستوری ترمیم کے ذریعہ شرعی قوانین کا احترام کیا تھا ، ان کے جانشین آج ’’نرم ہندوتوا‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ اکثریتی طبقہ کے ووٹ اور تائید سے محرومی کے خوف نے کانگریس کو طلاق ثلاثہ بل کی مخالفت سے باز رکھا بلکہ کانگریس نے بالواسطہ طور پر بل کی تائید کی اور محض ضابطہ کی تکمیل کیلئے سلیکٹ کمیٹی کا مطالبہ کیا۔ انا ڈی ایم کے اور بیجو جنتا دل کے ارکان قابل مبارکباد ہیں ، جنہوں نے حکومت کی حلیف جماعت ہونے کے باوجود مسلمانوں کے جذبات کا احترام کیا۔ بل کے ذریعہ مسلم خواتین کو انصاف فراہم کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے لیکن اصل نشانہ شریعت ہے۔ شریعت نے مرد کو جو اختیارات دیئے ہیں، انہیں سلب کرتے ہوئے خواتین کو اسلام سے متنفر کرنے کی سازش ہے۔ شریعت میں تبدیلی کا خواب دیکھنے والے جان لیں کہ یہ کوئی دنیاوی قانون نہیں جو تبدیلی کیلئے کسی بل کا محتاج ہو۔ دنیا کی کوئی طاقت شریعت میں تبدیلی کے منصوبہ میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ لاکھ قانون سازی کرلی جائے لیکن کوئی سچا مسلمان شریعت سے انحراف نہیں کرے گا اور حکومت کے اس قانون کی مسلمانوں کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ بعض آزاد خیال، دین بیزار اور ننگ دیں ، ننگ ایماں مرد و خواتین کو شریعت کی مخالفت میں کھڑا کیا گیا۔ ایسے چند زر خرید اور مفاد پرست حکومت کی جھولی میں اور برسر اقتدار پارٹی میں موجود ہیں۔ جنہیں مسلمان کہنا بھی اسلام اور مسلمانوں کی توہین ہے۔ نریندر مودی حکومت کو مسلم خواتین سے اچانک ہمدردی کیوں پیدا ہوئی؟ اگر کوئی ایسا شخص ہمدردی کا اظہار کرے جس نے خواتین کو خوشحال رکھنے کی مثال قائم کی ہے تو پھر بھی بات سمجھ میں آئے گی لیکن یہاں تو ’’غیروں پہ کرم ، اپنوں پہ ستم‘‘ والا معاملہ ہے۔ جس شخص نے اپنی شریک حیات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور در در کی خاک چھاننے کیلئے چھوڑ دیا۔ جس کی قیامگاہ وزیراعظم کا بنگلہ ہونا چاہئے، وہ آشرم میں سہاگن ہوتے ہوئے ودھوا ’’بیوہ‘‘ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ان حالات کے ذمہ دار افراد کی زبان سے مسلم خواتین کو انصاف کا نعرہ محض ایک ڈھکوسلہ ہے۔

طلاق ثلاثہ دینے والے مسلمان کو سزا کا تعین کرنے والے پہلے ایسے افراد کے لئے سزا تجویز کریں جو اپنی گھر والیوں کو طلاق کے بغیر بے سہارا چھوڑ دیتے ہیں۔ شریعت نے جس چیز کو جائز قرار دیا ہے ، اسے ناجائز قرار دینے کا اختیار حکومت کو کس نے دیا۔ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام دیا اور اس کے حقوق کا تحفظ کیا ہے ، ایسی مثال دنیا کا کوئی اور مذہب پیش نہیں کرسکتا۔ ستی کے نام پر بیوی کو شوہر کی چتا میں جھونک دینے اور بیواؤں کو منحوس اور بدشگون تصور کرنے والی ذہنیت آج بھی باقی ہے ۔ مسلم خواتین سے ہمدردی سے قبل ان روایات کے خاتمہ پر حکومت توجہ دیں۔ اسے ہمدردی کہا جائے یا زیادتی کہ مسلم نوجوانوں کو گاؤ رکھشا اور لو جہاد کے نام پر دن دھاڑے ہلاک کیا جارہا ہے اور مودی حکومت اس پر خاموش ہے لیکن خواتین سے ہمدردی کے چمپین بننے چلے ہیں۔ ’’مسلم مہیلاؤں کو انصاف ملنا چاہئے کہ نہیں‘‘ مودی 15 اگست کو لال قلعہ سے خطاب اور اس کے بعد بھی عام جلسوں میں یہ جملہ دہراتے رہے ہیں، انہیں پہلے بتانا ہوگا کہ ان مسلم ماں بہنوں اور بیٹیوں کو انصاف کب ملے گا جن کے چشم و چراغ ، بھائی اور والدین 2002 ء میں گجرات میں زعفرانی دہشت گردوں کا شکار ہوگئے۔
طلاق ثلاثہ بل دراصل شریعت کو نشانہ بنانے کا آغاز ہے۔ پہلے مرحلہ میں نکاح اور طلاق کو بل کے دائرہ کار میں شامل کیا گیا اور آئندہ حلالہ اور ترکہ کا مسئلہ بھی ترمیمی بل کے ذریعہ غیر قانونی قرار دیا جائے گا۔ ملک میں یکساں سیول کوڈ کا نفاذ بی جے پی کے ایجنڈہ میں شامل ہے اور اسی سمت میں اقدامات کئے جارہے ہیں۔ حکومت کی اس سازش کا مقابلہ صرف بیان بازی اور مذمتی قراردادوں سے حل نہیں ہوگا بلکہ جمہوری انداز میں عوامی احتجاج کی ضرورت ہے۔ دستور نے ہر شہری کو جمہوریت کے دائرہ میں احتجاج کا حق دیا ہے اور 25 کروڑ مسلمان اس حق کے استعمال کے سلسلہ میں خواب غفلت کا شکار ہیں ۔ شریعت کا تحفظ صرف جذباتی نعروں سے نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے آزمائشوں سے گزرنا ہوگا ۔ ہمارے پیش نظر صرف فتح مکہ ہی نہیں بلکہ جنگ بدر بھی ہونی چاہئے ۔ رونے دھونے سے شریعت کا تحفظ نہیں ہوگا بلکہ مزاحمت اور سڑکوں پر عوامی احتجاج سے حکومت کو قانون سازی سے روکا جاسکتا ہے۔ راجیہ سبھا کی منظوری اور پھر صدر جمہوریہ کی مہر ثبت ہونے سے قبل جمہوری احتجاج کی ضرورت ہے ۔ جب تک ہم حرارت ایمانی کا ثبوت نہ دیں کچھ نہیں ہوگا۔ ممبئی کے علماء نے احتجاج کے ذریعہ سارے ملک کو راستہ دکھایا ہے۔ ان کی تقلید ملک کے دیگر علاقوں کو کرنی چاہئے۔ عام طور پر ہمارے قائدین بیانات اور ٹی وی چیانل پر مباحثوں میں اپنی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ شریعت کے تحفظ کا مسئلہ یا معاملہ تحریر یا تقریر کا نہیں بلکہ عمل پیہم اور جہد مسلسل کا متقاضی ہے۔ اگر یہی بے حسی رہی تو حالات اسپین کی طرز پر جائیں گے۔ ٹاملناڈو کے عوام سے ہمیں سبق لینا چاہئے جنہوں نے جل کٹو پروگرام کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کردیا اور سارے ٹاملناڈو میں نظم و نسق کو ٹھپ کردیا گیا۔ آخر کار مرکزی حکومت کو قانونی ترمیم کے ذریعہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بے اثر کرنا پڑا۔ جل کٹو کوئی مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ ٹاملناڈو کی روایت سے جڑی ایک رسم ہے جس میں جانوروں کو دوڑایا جاتا ہے۔ جب ٹاملناڈو کے عوام اس رسم کو برقرار رکھنے اپنی طاقت کا کامیاب مظاہرہ کرسکتے ہیں تو پھر شریعت کے تحفظ کے لئے مسلمان جمہوری احتجاج کیلئے تیار کیوں نہیں؟ جمہوریت میں صرف طاقت کی زبان ہی سمجھی جاتی ہے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ؎
یہی ایمان لکھتے ہیں یہی ایمان پڑھتے ہیں
ہمیں کچھ اور مت پڑھواؤ ہم قرآن پڑھتے ہیں