ہمارے جیسے مگر خال خال ملتے ہیں

رشیدالدین
دنیا کی عظیم جمہوریت ہندوستان کے اگلے دستوری سربراہ یعنی صدر جمہوریہ کون ہوں گے؟ ملک کے سیاسی حلقوں میں یہ سوال ان دنوں بحث کا اہم موضوع بن چکا ہے ۔ سیاسی قائدین کے علاوہ پولیٹیکل پنڈت بھی اس مسئلہ پر الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات کے ذریعہ اپنی رائے عوام پر مسلط کر رہے ہیں۔ برسر اقتدار محاذ این ڈی اے اور اپوزیشن یو پی اے کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کو موزوں شخصیتوں کی تلاش ہے۔ جولائی کے بعد راشٹرپتی بھون کس شخصیت کے حصہ میں سرکاری قیامگاہ کے طور پر آئے گا اور پرنب مکرجی کا جانشین کون ہوگا ؟ ان سوالات کے درمیان سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کا بھی آغاز ہوچکا ہے ۔ اترپردیش اور دیگر ریاستوں کے حالیہ نتائج کے بعد برسر اقتدار بی جے پی نے اپنی صفوں کی درستگی کا کام شروع کیا تاکہ صف بندی سے عددی طاقت کا پتہ چل سکے۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن کی اکثریت نے بی جے پی کو اندیشوں میں مبتلا کردیا ہے۔ برسر اقتدار محاذ میں شامل بعض پارٹیوں کے سر حکومت اور بی جے پی سے مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن نے کانگریس کی قیادت میں اپنی طاقت کو سمیٹنے کی تیاری شروع کردی ہے۔ برسر اقتدار اور اپوزیشن دونوں محاذوں میں اجلاسوں کا دور جاری ہے اور بعض نام زیر غور ہیں۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کی جانب سے کل تک ایل کے اڈوانی کا نام زیر غور تھا لیکن بابری مسجد شہادت مقدمہ نے ان کا یہ خواب چکنا چور کردیا۔ سابق میں وزیراعظم بننے کی خواہش بھی پوری نہیں ہوسکی تھی۔ سی بی آئی نے جس انداز میں اڈوانی اور دوسروں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی ہے ، اس بارے میں مختلف باتیں کہی جارہی ہیں۔ اسے اڈوانی کو صدارتی دوڑ سے علحدہ کرنے نریندر مودی کی سیاسی چال کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے کیونکہ مودی کے وزارت عظمی کے راستہ میں اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی اور بعض دوسروں نے رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ جب بم دھماکوں کے سلسلہ میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور سوامی اسیمانند کو ضمانت مل سکتی ہے تو پھر اڈوانی کو بچانے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کا نام بھی صدارتی امیدواروں میں زیر گشت رہا۔ بی جے پی اور نریندر مودی کے پسندیدہ امیدوار کون ہیں، اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہوگا۔ کانگریس پارٹی نے بھی اپنی ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مشاورت کا آغاز کیا ہے۔ بائیں بازو کی جماعتوں نے پرنب مکرجی کی دوسری میعاد کی تائید کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق پرنب مکرجی اتفاق رائے کے بغیر امیدواری کیلئے تیار نہیں ہے۔ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو بھی جب دوسری میعاد کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے اتفاق رائے نہ ہونے کے سبب انکار کردیا تھا ۔ یوں بھی ہندوستان میں اب تک کسی بھی صدر جمہوریہ کی دوسری میعاد کی مثال نہیں ہے۔ برخلاف اس کے نائب صدر جمہوریہ کو صدر جمہوریہ منتخب کرنے کی مثالیں موجود ہیں۔ برسر اقتدار پارٹی اور اپوزیشن جماعتوں کو صدارتی امیدوار کی تلاش ہے، انہیں دوڑ دھوپ اور ذہنی ماتھا پٹکی کی ضرورت نہیں کیونکہ اس جلیل القدر عہدہ کی شان اور اس کے وقار میں اضافہ کیلئے موزوں ، قابل اور اہل شخصیت نائب صدر محمد حامد انصاری کی صورت میں موجود ہے۔

جب مختلف ناموں پر غور ہوسکتا ہے تو حامد انصاری کے نام پر کیوں نہیں ؟ محض  اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں، نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ صدارتی عہدہ کیلئے ہر طرح سے فٹ ڈاکٹر حامد انصاری کو یو پی اے اور این ڈی اے حکومتوں کے ساتھ اور دو صدر جمہوریہ پرتیبھا پاٹل اور پرنب مکرجی کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے۔ انہوں نے دو وزرائے اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور نریندر مودی کے کام کو بھی قریب سے دیکھا ہے ۔ ایک کامیاب سفارتکار سے نائب صدر جمہوریہ کے عہدہ تک پہنچنے والے حامد انصاری ایک غیر نزاعی شخصیت ہیں اور راجیہ سبھا کے صدرنشین کی حیثیت سے ایوان میں موجود تمام جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنے کا فن دراصل ان کی شخصیت اور قابلیت کو ظاہر کرتا ہے ۔ صدارتی عہدہ پر حامد انصاری کے نام پر برسراقتدار اور اپوزیشن دونوں کو غور کرنا چاہئے ۔ کیا ہی بہتر ہوگا کہ برسر اقتدار پارٹی خود پہل کرتے ہوئے حامد انصاری کے نام کو آگے بڑھائے۔ ملک کے موجودہ حالات میں پہلے شہری کے طور پر مخصوص نظریات کے حامل یا پھر سیاسی وابستگی رکھنے والی شخصیت کا انتخاب عوام کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔ آخر حامد انصاری کا قصور کیا ہے ؟ یو پی اے اور این ڈی اے دونوں بھی اُن کا نام لینے سے گریزاں ہیں۔ ڈاکٹر حامد انصاری اپنی قابلیت کی بنیاد پر دوسرے ڈاکٹر ذاکر حسین ثابت ہوسکتے ہیں۔ ہم حامد انصاری کو محض مسلمان ہونے کی بنیاد پر صدر جمہوریہ منتخب کرنے کے حق میں نہیں بلکہ قابلیت کے اعتبار سے ہم کسی دوسرے بھی نام کو چیلنج کرنے کے موقف میں ہیں۔ دنیا بھرمیں ہندوستان کی شبیہہ کو بہتر بنانا ہے تو حامد انصاری سے بہتر کوئی شخصیت نہیں ہوگی جنہوں نے ہمیشہ عہدہ کی شان اور وقار کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا۔ حامد انصاری کی قابلیت ہی تھی کہ دوسری میعاد کیلئے نائب صدر کے عہدہ پر فائز کیا گیا۔ 11 اگست 2007 ء میں پہلی مرتبہ اور پھر 7 اگست 2012 ء کو دوسری مرتبہ انہوں نے نائب صدر کا حلف لیا۔ ڈاکٹر سروے پلی رادھا کرشنن کے بعد مسلسل دوسری مرتبہ نائب صدر کے عہدہ پر فائز ہونے والے حامد انصاری واحد شخص ہیں۔ نائب صدر کو صدر جمہوریہ مقرر کرنے کی روایت نئی نہیں ہے ۔ 1947 ء سے آج تک 12 نائب صدور ہوئے ۔ ان میں 6 کو نائب صدر سے صدر جمہوریہ منتخب کیا گیا۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن ، ذاکر حسین ، وی وی گیری، آر وینکٹ رامن ، شنکر دیال شرما اور کے آر نارائنن نائب صدر سے صدر جمہوریہ کے عہدہ تک پہنچے۔ حکومت کو چاہئے کہ ڈاکٹر حامد انصاری کے نام کی تجویز پیش کرتے ہوئے  ان کے متفقہ انتخاب کو یقینی بنائے، اس سے دنیا بھر میں ہندوستان کا وقار بلند ہوگا اور یہ پیام جائے گا کہ قابلیت کی بنیاد پر اقلیت کو بھی اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز کیا جاتا ہے۔

یوں تو ملک میں بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کی تعداد 14 ہوچکی ہیں لیکن اترپردیش کے یوگی ادتیہ ناتھ اپنے زعفرانی ایجنڈہ پر عمل آوری کے سلسلہ میں کچھ زیادہ ہی سرگرم دکھائی دے رہے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اترپردیش سے ملک میں ہندو راشٹر کے قیام کا راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ اقتدار میں آتے ہی غیر قانونی ذبیحہ پر قابو پانے کے نام پر سلاٹر ہاؤزس کے خلاف جس انداز سے مہم چلائی گئی، اس میں اصل نشانہ مسلمان تاجر ہوئے ۔ یوگی نے تین طلاق کے مسئلہ پر غیر ضروری مداخلت کی کوشش کی اور مسلم خواتین کی رائے حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ رائے سپریم کورٹ میں پیش کی جائے۔ سپریم کورٹ میں ان سے رائے دینے کی خواہش نہیں کی پھر بھی یوگی حکومت کا یہ فیصلہ ان کی مخالف اسلام ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے ۔ برقعہ میں ملبوس بعض خواتین کو طلاق ثلاثہ اور شریعت کے خلاف میڈیا کے روبرو پیش کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مسلم خواتین ظلم و زیادتی کا شکار ہیں اور وہ یوگی ادتیہ ناتھ سے انصاف کی اپیل کر رہی ہیں۔ یوگی کی یہ سرگرمیاں ابھی جاری تھی کہ انہوں نے ایک نئی شرانگیزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اترپردیش میں سرکاری تعطیلات کو کم کرنے کے نام پر انہوں نے 15 عام تعطیلات کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا، جن میں عید میلاد النبیؐ اور جمعتہ الوداع  کے علاوہ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے عرس کے موقع پر دی جانے والی چھٹیاں شامل ہیں۔ اترپردیش میں جملہ 42 عام تعطیلات ہیں جن میں 17 مختلف اہم شخصیتوں کی پیدائش سے متعلق ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے تعطیلات کم کرنے کے بہانے مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ یوگی یقیناً اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ میلاد النبیؐ اور جمعتہ الوداع کی مسلمانوں کے نزدیک اہمیت کس حد تک ہے اور ان دونوں ایام سے جذباتی وابستگی سے بھی ضرور واقف ہوں گے لیکن ان کا مقصد تو مسلمانوں کی دل آزاری کرنا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے جن تعطیلات کو برقرار رکھا گیا ہے ، ان میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی کن شخصیتوں کے یوم پیدائش شامل ہیں۔ ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں ، ہم کو صرف اس بات پر افسوس ہے کہ یوگی نے اقتدار کے آغاز کے ساتھ ہی اپنا حقیقی ایجنڈہ اور چہرہ عوام کے سامنے بے نقاب کردیا ہے۔ یوگی شائد جانتے نہیں کہ میلادالنبیؐ اور جمعتہ الوداع کی تعطیلات ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی برقرار ہیں۔ ان میں بی جے پی زیر اقتدار ریاستیں بھی شامل ہیں۔ دراصل یوگی اس طرح کے فیصلوں کے ذریعہ مسلمانوں کے صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔ حیرت تو ان تینوں عظیم درسگاہوں پر ہے جو اترپردیش میں موجود ہیں لیکن دیوبند ، بریلوی اور ندوۃ سے اس فیصلہ کے خلاف کوئی آواز نہیں ا ٹھی ہے۔ دینی مدارس ، علماء مشائخ اور سیاسی جماعتوں پر آخر سناٹا کیوں طاری ہے؟ شریعت اور اسلام پر مسلسل وار ہورہا ہے لیکن دینی مدارس کے سربراہ اور علماء جنہیں اسلام میں انبیاء کا وارث کہا گیا ، وہ اپنے منصب کی تکمیل کے بجائے یوگی کے خوف سے اپنے مفادات کے تحفظ کے بارے میں فکر مند ہیں۔ اس طرح کی بے حسی اچھی علامت نہیں اور آنے والے دنوں میں یہ یوگی جیسے حکمرانوں کو مزید موقع فراہم کرسکتی ہے۔ ابھی تو زعفرانی بریگیڈ نے اسلام میں حلال چیزوں کو حرام قرار دینے کی مہم شروع کی ہے۔ پتہ نہیں یہ مہم کہاں جاکر رکے گی۔ نئے صدر جمہوریہ کے انتخاب کی سرگرمیوں پر معراج فیض آبادی کا یہ شعر ہمیں یاد آیا   ؎
سبھی عظیم سبھی باکمال ملتے ہیں
ہمارے جیسے مگر خال خال ملتے ہیں