ہتک…!

انورؔ مسعود
کل قصائی سے کہا اِک مفلسِ بیمار نے
آدھ پاؤ گوشت دیجئے مجھ کو یخنی کے لئے
گْھور کر دیکھا اُسے قصاب نے کچھ اس طرح
جیسے اُس نے چھیچھڑے مانگے ہوں بلی کے لئے
……………………………
کاش اس عید پر …!
کاش اس عید پر میں تیرا بکرا ہوتا
اور کسی نے نہ سہی تُو نے تو مجھے پکڑا ہوتا
تو حنا لگے ہاتھوں سے مجھے گھانس کھلاتی
تھوڑی تھوڑی نہیں ساری اکٹھے کھلاتی
تو مجھے ’میں‘ ’میں‘ کر کے بلاتی
اور شام کو ساتھ گلی میں گھماتی
میرے پاس گاڑی نہ سہی چھکڑا ہوتا
کاش اس عید پر میں تیرا بکرا ہوتا
تو میری صحبت پر ناز کرتی
بلا ججھک مجھے آشنائے راز کرتی
اگر میرا رقیب تجھے چھیڑا کرتا
سینگ مارتا فوراً اُسے ٹکر کرتا
رات کو باہر سردی میں اکڑا ہوتا
کاش اس عید پر میں تیرا بکرا ہوتا
پھر عید پر ذبح ہو جاتا میں
تیری خاطر کٹ مر جاتا میں
تیری محبت نے کچھ اس طرح جکڑا ہوتا
کاش اس عید پر میں تیرا بکرا ہوتا
………………………
عابی مکھنوی
خودی کا راز…!
خودی کے راز کو میں نے بروزِ عید پایا جی
کہ جب میں نے کلیجی کو کلیجے سے لگایا جی
جوحصہ گائے سے آیا اُسے تقسیم کر ڈالا
جو بکرا میرے گھر میں تھا اُسے میں نے چُھپایا جی
فریج میں برف کا خانہ نہ ہوتا گر تو کیا ہوتا
دعائیں اُس کو دیتا ہوں کہ جس نے یہ بنایا جی
میں دستر خوان پر بیٹھا تو اُٹھنا ہو گیا مُشکل
کہ ہر بوٹی کو نگلا تھا بہت کم کو چبایا جی
بطور ِلُقمہ بوٹی سے میں روٹی کھا گیا درجن
کہ بانٹا میں نے کم کم تھا زیادہ کو پکایا جی
مرے معدے کے میداں میں عجب سی خون ریزی ہے
کہیں تکے اچھلتے ہیں کسی کونے میں پایا جی
خُدا کے فضل سے جاری ہے اب بھی گوشت کا سائیکل
کہ دو دن عید سے پہلے گذشتہ کا مُکایا جی
چلو عابیؔ کہو پھر سے قصائی کو خُدا حافظ
کہ پورے سال کا کوٹہ تمھارے پاس آیا جی
………………………
کدھر جائیں گے !
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ گھر جائیں گے
گھر میں بیوی نے ستایا تو کدھر جائیں گے
عید کے دن نیا بکرا ہی سمجھ لیں گے اُنہیں
کھال قربانی کی لے کر وہ جدھر جائیں گے
’’رُخِ روشن سے نقاب اپنے اُلٹ دیکھو تم‘‘
جس قدر بکرے ہیں، نظروں سے اتر جائیں گے
گوشت کتنا ہے فریزر میں، دکھا تو دوں میں
’’پر یہی ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے‘‘
لائے جو یار ہیں اِس بار بہت سے بکرے
اور اگر کچھ نہیں ’’اِک ران‘‘ تو دھر جائیں گے
………………………
بھیجہ نکال…!
٭ قصائی نے اپنے ملازم کو آواز دی اے بابا …! کہاں ہے …؟
چاقو تیز کیا یا نہیں …؟
وہ لڑکا کب سے کھڑا ہے اُس کی ران کاٹ دے ، وہ خاتون کا قیمہ بنادے جلدی کر وہ صاحب نیلی شرٹ والے جو ٹھہرے ہیں اُن کا بھیجہ نکال دے …!
ذکیہ ، آفرین ، فریدہ ۔ گلبرگہ شریف
………………………
میں سمجھا !
٭ لڑکے نے قصائی سے سوال کیا : یہ بکرا کیوں چیخ رہا ہے ؟
قصائی بولا : اسے ذبح کرنے کے لئے لے جارہا ہوں ۔
لڑکے نے کہا : اُوہ … میں سمجھا تم اسے اسکول لے جارہے ہو !!
ڈاکٹر فوزیہ چودھری ۔ بنگلور
………………………
دوسری کی تلاش …!
٭ دولت مند باپ نے اپنے کاہل اور نکھٹو بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے کہا: ’’تم نہایت ہی کاہل اور سست آدمی ہو، کوئی کام وغیرہ نہیں کرتے۔ بس ہر وقت پڑے رہتے ہو، فرض کرو تمہاری شادی ہو جائے اور تمہاری بیوی تمہیں گھر سے باہر جانے اور کام کرنے پر مجبور کرے تو تم کیا کرو گے ‘‘؟
’’دوسری بیوی کی تلاش‘‘۔ بیٹے نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………