ہاشمی فریدآبادی مولوی عبدالحق کے بااعتماد رفیق

ڈاکٹر سید داؤد اشرف
ریاست حیدرآباد یا مملکت آصفیہ میں اعلی خدمات کی انجام دہی کے لئے برصغیر کے مختلف حصوں سے جن غیر معمولی ، باصلاحیت اور ذہین شخصیتوں کو چن چن کر حیدرآباد طلب کیا گیا تھا ،ان میں ہاشمی فریدآبادی بھی شامل تھے ، جنھوں نے اپنے علمی و ادبی کارناموں سے اپنا اور ریاست کا نام روشن کیا ۔ وہ خلوص کے پیکر تھے ، بے غرض محسن تھے اور ایثار اور اعلی ظرفی کا بھی نادر نمونہ تھے ۔ ریاست اور بیرون ریاست ان کی خدمات ، شخصیت اور کردار کے بارے میں جوں جوں معلومات میں اضافہ ہورہا ہے ، ان کی شخصیت کی تابانی اور بلندی میں اسی تناسب سے اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔

سید ہاشمی فریدآبادی مضافات دہلی کے قصبہ فریدآباد کے ایک ممتاز سادات خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ان کے والد نواب سید احمد شفیع کا شمار دہلی کے ممتاز عمائدین میں ہوتا تھا جو فارسی اور اردو کے ممتاز انشا پرداز تھے ۔ ہاشمی صاحب کی والدہ نواب فخر الدولہ علاء الدین خان علائی والیٔ ریاست لوہارو کی صاحبزادی تھیں ۔ ہاشمی صاحب 1890 ء میں فریدآباد میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم گھر اور مکتب میں حاصل کی اور اعلی تعلیم کے لئے علی گڑھ بھیجے گئے ، جہاں سے انھوں نے بی اے کی تکمیل کی ۔ اسی زمانے میں بلقان کی جنگ شروع ہوگئی تھی ۔ انھوں نے اس موقع پر پرجوش نظمیں لکھیں ، جن میں سے ایک ولولہ انگیز نظم ’’بلقان چل ، بلقان چل‘‘ بے حد مقبول ہوئی ، جلسوں اور جلوسوں میں پڑھی جانے لگی ۔ اس نظم اور دیگر پرجوش قومی نظموں کے لکھنے کی پاداش میں انھیں کالج سے نکال دیا گیا ۔ تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوجانے پر انھوں نے اردو زبان و ادب کی خدمت کی جانب بھرپور توجہ دی ۔
ہاشمی فریدآبادی نے 1917ء میں ریاست حیدرآباد میں ملازمت اختیار کی اور وہ یہاں 1917ء تا 1939ء ، 22 برس تک ملازم رہے ۔ دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ میں ابتداً جن چھ مترجمین کے تقرر کی منظوری دی گئی تھی، ان میں قاضی محمد حسین (ریاضی) ،برکت علی (سائنس) ، عبدالماجد دریابادی (فلسفہ) ، قاضی تلمذ حسین (سیاسیات) محمد الیاس برنی (اقتصادیات) کے علاوہ سید ہاشمی فریدآبادی (تاریخ) شامل تھے ۔ دارالترجمہ نے مولوی عبدالحق کی نگرانی میں 6 ستمبر 1917 ء سے کام کا آغاز کیا ۔ ہاشمی فریدآبادی بھی اسی تاریخ کو دارالترجمہ میں رجوع بہ خدمت ہوئے ۔ وہ دارالترجمہ میں 6 ستمبر 1917 ء تا 24 جولائی 1934ء تقریباً 17 برس تک مترجم کی حیثیت سے کام کرتے رہے ۔ معتمدی امور داخلہ و عدلیہ میں اسسٹنٹ سکریٹری کے عہدے پر ترقی ملنے پر انھوں نے 25 جولائی 1934ء کو نئے عہدے کا جائزہ لیا ، جس پر وہ 1939 تک فائز رہے ۔ مولوی عبدالحق کے انجمن ترقی اردو کے سکریٹری مقرر ہونے اور اس انجمن کے دفتر کی اورنگ آباد کو منتقلی کے ساتھ ہی ہاشمی صاحب انجمن کی سرگرمیوں سے وابستہ ہوئے ۔ اپنی ملازمت کے دوران وہ جزوی طور پر انجمن اردو ہند کی سرگرمیوں سے وابستہ تھے ، مگر ملازمت چھوڑنے کے بعد وہ ہمہ وقتی طور پر انجمن کے کام کے لئے وقف ہوگئے ۔ انجمن کا دفتر اورنگ آباد سے دہلی منتقل ہونے پر وہ دہلی چلے گئے اور ملک کی تقسیم کے بعد انجمن کے کاموں میں مولوی عبدالحق کا ہاتھ بٹانے پاکستان منتقل ہوئے ، جہاں وہ 1954ء تک مولوی صاحب کے ساتھ انجمن کی سرگرمیوں میں مصروف رہے ۔ بعد ازاں مولوی صاحب سے اختلافات کی وجہ سے وہ لاہور چلے گئے اور اپنی وفات تک علمی کاموں کی تکمیل میں مصروف رہے ۔

ہاشمی فریدآبادی نے دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ میں اپنے تراجم اور تالیفات کے ذریعے کامیاب و ماہر مترجم اور نامور مورخ کے طور پر نام کمایا ۔ انھوں نے دارالترجمہ میں 17 سالہ ملازمت کے دوران 13 کتابوں کے تراجم کے علاوہ 5 کتابیں تالیف کیں ۔ اس طرح ان کی کتابوں کی تعداد 18 ہے ۔ کتابوں کی تعداد کے لحاظ سے وہ دارالترجمہ کے مترجمین میں دوسرے نمبر پر ہیں ۔ قاضی تلمذ حسین نے 19 کتابیں تیار کی تھیں ۔
قومی زبان ، کراچی نومبر ۔ دسمبر 1964 ء کے شمارے میں ہاشمی صاحب کی ہمشیرہ نسبتی (اہلیہ کی تایازاد بہن) آمنہ بیگم ممتاز کا مضمون ’’ہاشم بھائی‘‘ تحسین سروری (حیدرآباد کے مشہور شاعر و ادیب جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے گئے تھے) کا مضمون ’’مولوی سید ہاشمی فریدآبادی‘‘ اور شمیم احمد کا مضمون ’’آخری ملاقات‘‘ شامل ہے ۔ اس کے علاوہ اس شمارے میں ہاشمی صاحب کے تحریر کردہ چند سطری خود نوشت حالات بھی شریک ہیں ۔ متذکرہ بالا مضامین سے ہاشمی صاحب کی سیرت کے چند اہم پہلوؤں کے علاوہ حیدرآباد چھوڑنے کے بعد انجمن ترقی اردو میں ان کی ہمہ وقتی مصروفیات اور دیگر حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔

تحسین سروری اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ حیدرآباد میں انھیں ہاشمی فریدآبادی کو چند بار دور سے دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا ، جس کی وجہ سے ان کی شخصیت کا کوئی نقش تحسین سروری کے دل پر نہ بیٹھ سکا تھا ۔ انھیں کراچی میں ہاشمی صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کا بار بار موقع ملا ۔ وہ لکھتے ہیں ’’ہر بار ان کی عالمانہ اور معلومات سے لبریز باتوں کا ایسا مزہ آتا کہ کبھی سیری نہیں ہوتی ۔ ان کی گفتگو کا انداز اتنا دل کش اور الفاظ اتنے شیریں ہوتے کہ سننے والے پر ایک عجیب وجدانی کیفیت طاری ہوتی‘‘ ۔ ہاشمی صاحب کی سیرت کے بارے میں تحسین سروری تحریر کرتے ہیں ’’وہ انتہائی عزلت پسند انسان تھے ۔ جلسوں ، جلوسوں اور گہماگہمی سے گھبراتے تھے ۔ شہرت و ناموری کے بھی شائق نہ تھے ، لیکن خاموشی کے ساتھ انھوں نے جو عملی کارنامے انجام دئے وہ اتنے بلند بانگ تھے کہ از خود ان کا شہرہ دور دور تک ہوگیا ۔ تحسین سروری مزید لکھتے ہیں کہ ہاشمی صاحب اعلی درجے کے شاعر بھی تھے ۔ الناظر ، معارف ، رسالۂ اردو وغیرہ میں ان کا کلام شائع ہوا کرتا تھا ۔ اورنگ آباد سے انجمن ترقی اردو نے ان کا مختصر سا مجموعہ سہ نظم ہاشمی شائع کیا تھا ۔ شاعری کے تقریباً جملہ اصناف پر طبع آزمائی کرتے تھے ، لیکن جدید رنگ کی نظم سے انھیں طبعی مناسبت تھی ۔ تحسین سروری نے اپنے مضمون میں انجمن ترقی اردو اور مولوی عبدالحق سے ہاشمی فریدآبادی کی گہری اور طویل وابستگی اور پھر انجمن سے علاحدگی اور مولوی عبدالحق سے دوری کے بارے میں بھی تفصیلات بیان کی ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب بابائے اردو نے انجمن ترقی اردو کا دفتر اورنگ آباد سے دہلی منتقل کیا تو انھوں نے ہاشمی صاحب کو بھی دہلی بلالیا ، جہاں ہاشمی صاحب نے مولوی صاحب کے دوش بدوش اردو کے لئے بڑے بڑے معرکے سر کئے ، پھر ایسا بھی ہوا کہ ہاشمی صاحب کی شرکت کے بغیر بابائے اردو کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہے تھے ۔ پاکستان منتقل ہونے کے بعد بابائے اردو نے 1949میں ہاشمی صاحب کو کراچی بلالیا ۔ انجمن کے اورنگ آباد اور دہلی کے دور تک ہاشمی صاحب انجمن کی مجلس نظما میں شریک رہے ۔ پاکستان میں وہ انجمن کے شریک معتمد ، رسالۂ اردو کے مدیر اور قومی زبان کے نگراں بھی تھے ۔ کراچی آنے کے بعد بھی وہ انجمن کی معرکہ آرائی میں مولوی صاحب کے دست راست بنے رہے اور ساتھ ہی ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔ انھوں نے انجمن کی جانب سے تاریخ و سیاسیات نام کا ایک سہ ماہی رسالہ جاری کیا ۔ انجمن کے لئے دو جلدوں میں تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت لکھی اور فلپ ہٹی کی کتاب History of the Arabs کا ’’تاریخ ملت عربی‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا ۔ یہ دونوں کتابیں کافی پسند کی گئیں اور چھپتے ہی نصاب تعلیم کے مضمون تاریخ میں شامل کرلی گئیں ۔ ان کتابوں کے علاوہ 1953ء میں انجمن ترقی اردو کی پچاس سالہ جوبلی کے موقع پر انجمن کی ایک بسیط تاریخ ’’پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ بھی مرتب کی جس میں انجمن کی تاریخ کے ساتھ ساتھ متعدد قومی ، سیاسی ،علمی و ادبی تحریکیں اور کئی نامور اشخاص بھی زیر بحث آئے ہیں ۔ اسی موقع پر تلخیص اردو کے نام سے رسالہ اردو کے گذشتہ شماروں سے بہترین اور اعلی پائے کے مضامین کا انتخاب کرکے شائع کیا ۔

تحسین سروری نے اپنے مضمون میں ہاشمی صاحب کی زندگی کے آخری دس برسوں کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی ہیں ۔ وہ تحریر کرتے ہیں ’’ہاشمی صاحب 1954ء تک انجمن سے وابستہ رہے ۔ اس کے بعد چند مفاد پرست مفسدوں نے ایسے درویش صفت اور عابد و زائد عالم پر طرح طرح کے الزام لگائے اور مولوی عبدالحق کو ان کی طرف سے برگشتہ کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ ہاشمی صاحب جیسے شریف النفس اور متوکل شخص اور کیا کرتے ۔ مولوی صاحب کی چالیس سال کی رفاقت پر آنسو بہاتے ہوئے لاہور چلے گئے ۔ ان کے جانے کے بعد مولوی صاحب کو اصل حقیقت معلوم ہوئی تو انتہائی افسوس کرنے لگے اور کوشش کی کہ سید ہاشمی پھر ان کی رفاقت میں آجائیں لیکن ہاشمی صاحب کا ٹوٹا ہوا دل پھر نہ جڑ سکا ۔ بابائے اردو کے انتقال کے بعد انجمن کی جب دوبارہ تشکیل و تنظیم ہوئی تونئے ارکان نے کوشش کی کہ ہاشمی صاحب دوبارہ انجمن آکر رونق بخشیں ، لیکن پیرانہ سالی کے باعث وہ معذرت خواہ ہوئے ۔ لاہور میں بھی وہ بیکار نہیں تھے ۔ وہی تصنیف و تالیف ان کی روزی کا ذریعہ تھا ۔ ادارۂ ثقافت اسلامیہ سے وابستہ تھے ۔ اس کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی کے زیر ترتیب انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کا کام بھی کرتے تھے ۔ ادارۂ ثقافت اسلامیہ نے ان کی جو کتاب ماثر لاہور شائع کی ہے وہ لاہور کے آثار قدیمہ پر خاص اہمیت کی حامل ہے ۔

قومی زبان کراچی میں شامل مضمون آخری ملاقات میں شمیم احمد نے ہاشمی صاحب کے انتقال سے صرف ایک ماہ قبل ان سے لئے گئے انٹرویو کو قلم بند کیا ہے ۔ اس مضمون میں شمیم احمد لکھتے ہیں کہ ہاشمی صاحب نے انجمن اور بابائے اردو سے متعلق پوچھے گئے ہر سوال کا جواب دینے سے انکار کیا ۔ اس لئے مضمون نگار کو مجبوراً ان کے ذاتی حالات کے متعلق سوالات کرنے پڑے لیکن ہاشمی صاحب کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے نہ صرف اختصار سے کام لیا بلکہ انجمن اور بابائے اردو کے بارے میں کسی خیال کے اظہار یا وابستگی کا احساس بھی نہ ہونے دیا ۔
دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ کے اہم رکن ، نامور مترجم ، مورخ اور ادیب سید ہاشمی فریدآبادی ہندوستان اور پاکستان کی انجمن ترقی اردو سے زائد از چالیس سال وابستہ تھے ۔ وہ انجمن کے ذمہ دار عہدوں پر فائز رہے ۔ خاموشی کے ساتھ بے مثال علمی و ادبی خدمات انجام دیں اور انجمن کے کاموں میں طویل عرصے تک بابائے اردو کے دست راست رہے ۔ انھیں ستائش کی نہ تو تمنا رہی اور نہ صلے کی پرواہ فتنہ پردازوں کی سازشوں کی وجہ سے وہ بابائے اردو کے معتوب بھی ہوئے لیکن اس دیرینہ رفیق کے ناروا سلوک کے باوجود ان کی زبان پر کبھی حرف شکایت نہیں آیا ۔ زندگی کے آخری دس برس انجمن اور احباب سے دور الگ تھلگ علمی کاموں کی انجام دہی میں مصروف رہنے کے بعد اردو دنیا کی یہ مثالی شخصیت 19 جولائی 1964 ء کو اس دار فانی سے رخصت ہوگئی ۔