ہادی رحیل انسانی اقدار کا پرچم بردار

ڈاکٹر مسعود جعفری

شاعری ، داستان گوئی کے ساتھ ڈرامہ نگاری بھی ایک دلچسپ اور حسین صنف ادب ہے ۔ ہمیں ڈرامہ کی روایت قدیم زمانے میں بھی ملتی ہے ۔ چوتھی صدی عیسوی میں سنسکرت کے عظیم شاعر کالیداس نے شکنتلا جیسا نایاب و نادر ڈرامہ تخلیق کیا ۔ مالوہ کے پس منظر میں لکھا گیا یہ ڈرامہ قومی و بین الاقوامی شہرت کی منزل سے ہمکنار ہوگیا ۔ شمالی ہند میں قنوج کے راجہ ہرش وردھن نے بھی ناگار تناولی ڈرامہ تحریر کیا تھا یہ بات مسلمہ ہوجاتی ہے کہ عہد وسطی میں ملک کے طول و عرض میں ڈرامہ کا چلن تھا ۔ جدید دور میں تو ڈرامہ سماجی و سیاسی تبدیلیوں کا میڈیم بن گیا ۔

ہادی رحیل کے لکھے ہوئے تین ڈرامے شنکھ سے اذاں تک ، امیر خسرو ، قلی قطب شاہ ولی سلطنت نہایت موثر اور سبق آموز ہیں ۔ رحیل کی جادوگری قاری کو مبہوت کردیتی ہے ۔ ہر ڈرامہ میں کردار نگاری بام عروج پر دکھائی دیتی ہے ۔ حقیقی تاریخی واقعات کا جلوس رواں دواں رہتا ہے ۔ ان میں اپنے عہد کی حسین قدریں واشگاف ہیں ۔ مرقع نگاری پورے شباب پر ہے ۔ کہیں بھی غلو کا شائبہ نہیں ہے ۔ جھوٹ موٹ کا تانا بانا مطلق نہیں ۔ ہر پیراگراف میں تاریخی سچائیاں سورج کی کرنوں کی طرح دمکتی رہتی ہیں ۔ قاری کی فکر و نظر کو جلا ملتی ہے ۔

اس کے روبرو راستے ہی ہیں منزلیں ہوتی ہیں ۔ رحیل کے ڈرامے بنی نوع انسان کے لئے مشعل راہ کا کام انجام دیتے ہیں ۔ اس اعلی و ارفع تصور کا عکس ہمیں رحیل کے روح پر ڈرامہ شنکھ سے اذاں تک میں واضح انداز میں ملتا ہے ۔ اس میں ہندو مسلم بھائی چارہ اور جذبہ خیر سگالی کی مثال ملتی ہے ۔ مولوی اور پنڈت کی دوستی قابل رشک ہے ۔ دونوں ہر حال میں گاؤں میں امن و شانتی کی فضا کی برقراری چاہتے ہیں ۔ دونوں مذہبی نفرتوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے مضبوط چٹان بن جاتے ہیں ۔ یہ ڈرامہ دلوں پر دستک دیتا ہے ۔ فرقہ پرستوں کے چہرے پر بھرپور طمانچہ رسید کرتا ہے ۔ اخوت کا جھنڈا پیار کے ہمالہ پر بلند کرتا ہے ۔ رحیل ایک بشر نواز مصنف کی حیثیت سے ابھرتے ہیں ۔ وہ اپنے وقت کے بندھے ٹکے اصولوں سے دو قدم آگے چلنے لگتے ہیں ۔ رحیل کا آفاقی تصور دلوں کو چھونے کے علاوہ دل کی دھڑکنوں کی پہنائیوں میں اترنے لگتا ہے ۔ وہ صف اول کے ڈرامہ نگاروں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ اس معنی خیز ڈرامہ کو تو ملک کی ہر ریاست بالخصوص گجرات میں گلی گلی اسٹیج کیا جانا چاہئے ۔ ہندو مسلم خلیج کو پاٹنے کا یہ ایک بہتر ذریعہ ہے ۔

رحیل کا دوسرا ڈرامہ طوطی ہند حضرت امیر خسرو کی شخصیت ، عہد اور شاعری پر محیط ہے ۔ امیر خسرو کا مقام شعر وادب اور تاریخ نگاری میں بلند و بالا ہے ۔ آپ نے مختلف شاہان وقت کے عروج و زوال کا اپنی نگاہوں سے مشاہدہ کیا تھا ۔ آپ کی ذات گرامی مختلف کمالات کی مظہر تھی ۔ آپ نہ صرف بلند پایہ شاعر تھے بلکہ ایک سپاہی ، مورخ اور فن موسیقی کے ماہر تھے ۔ تصوف مزاج میں رچا بسا تھا ۔ محبوب الہی کے خاص مریدوں میں شمار تھا ۔ رحیل نے اپنے تاریخی ڈرامہ میں امیر خسرو کے دور کے سماجی ، تہذیبی ، سیاسی حالات کا خوش اسلوبی سے احاطہ کیا ہے ۔ رحیل کے علمی تبحر کی داد دینی پڑتی ہے ۔ انہوں نے بڑی عرق ریزی سے تفصیلات کے ساتھ جزئیات کو بھی آشکار کیا ہے ۔ اس ڈرامہ کے کسی بھی سیکونس کو ہم فرضی نہیں کہہ سکتے ۔ ہر موڑ تاریخی سچائی لئے ہوئے ہے ۔ رحیل نے واقعات کو معروضی انداز میں پیش کیا ہے ۔ اسی کے دوش بدوش متن کا تقدس ماند پڑنے نہیں دیا ، اس سے رحیل کے تاریخی شعور کا پتہ چلتا ہے ۔ اسٹیج کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر حقائق کو لہولہاں ہونے نہیں دیا ۔ کہیں بھی غیر مستند روایتوں کی ترجمانی نہیں کی ۔ رحیل نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ امیر خسرو اس دور میں بھی قومی یکجہتی کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔

رحیل کا تیسرا اور آخری ڈرامہ شہر حیدرآباد کے معمار اور محبتوں کے پیکر محمد قلی قطب شاہ پر رقم کیا گیا ہے ۔ قلی قطب شاہ پہلا فرمانروا ہے جس نے سماج کی مساویانہ بنیاد رکھی ۔ ہندو مسلم بھید بھاؤ کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کی کوشش کی ۔ رنگوں ، روشنیوں اور بہاروں کے تہواروں جیسے ہولی ، دیوالی اور بسنت کو دھوم دھام سے منانے کا اہتمام کیا ۔ قلی قطب شاہ نے لباس اور وضع قطع سے مقامی کلچر کی آئینہ داری کی ہے ۔ اس نے سماج کی سیکولر دیوار میں پہلا پتھر رکھا ۔ وہ حقیقی معنوں میں عوامی ہیرو تھا ۔ چار سوسال کے بعد بھی اس کی رومانی شاعری دھیمی دھیمی آنچ لو دینے لگتی ہے ۔ رحیل نے سلطنت کے کار پردازوں کا نقشہ بھی کھینچا ہے ۔ پیشوائے مملکت ، میرجملہ اور دیگر امرائے عظام کی تصویر دلچسپ زاویہ سے پیش کی ہے ۔ رحیل نے اپنے محبوب تھیم قومی یکجہتی کو فوکس کیا ہے ۔ یہ بتانے کی سعی کی ہے کہ وہ زمانہ پیار و محبت اور باہمی میل ملاپ سے عبارت تھا ۔ اس سلسلہ میں انہوں نے تاریخ کے دشت و صحرا میں طویل سفر طے کیا اور واقعات و حالات کی صحیح عکاسی کی ۔

سارے ڈراموں کی زبان معیاری ہے ۔ کہیں بھی نامانوس الفاظ سے سامنا نہیں ہوتا ۔ صرف ونحو کے اغلاط سے پیراگراف محفوظ ہیں ۔ منظر نگاری جاندار ہے ۔ کرداروں کی آمد و رفت فطری ہے ۔ کہانی کا تسلسل کہیں نہیں ٹوٹتا ۔ قارئین اور سامعین کی دلچسپی ابتداء سے انتہا تک باقی رہتی ہے ۔ ڈرامہ کے اختتام پر بھی منہ سے ہل من مزید کی صدا بلند ہوتی ہے ۔ رحیل جیسے صف اول کے ادیبوں ہی سے نہ صرف تہذیب و ثقافت بلکہ تاریخ اور انسانیت زندہ رہے گی ۔ ان کے افکار عالیہ کو پڑھ کر لبوں پر رحیل گریٹ کا نعرہ مچلنے لگتا ہے ۔