’’گھر میں گھس کر ماریں گے‘‘ !

٭ ہندو رائے دہندوں کو بھڑکانے مودی کی کوشش۔ کیا اپوزیشن چیلنج کیلئے تیار ہے؟

راج دیپ سردیسائی
جب نریندر مودی اپنی جنم بھومی (پیدائش کا مقام) گجرات میں انتخابی مہم پر ہوتے ہیں تو اُن کا فن خطابت ایک درجہ مزید بڑھ کر کسی تماشہ گاہ میں تقریر جیسا ہوجاتا ہے۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں، کہ انھوں نے پاکستان پر شدید لفظی حملے کی شروعات کیلئے گزشتہ ہفتے احمدآباد میں منعقدہ جلسہ عام کا انتخاب کیا۔ ’’گھر میں گھس کر ماریں گے‘‘ انھوں نے گرجتے ہوئے یہ الفاظ ادا کئے اور ساتھ ہی پاکستان میں قائم دہشت گرد کیمپوں پر مزید فضائی حملوں کی دھمکی دی۔ مودی کا گرویدہ ہجوم جو تب تک نسبتاً پژمردہ بیٹھا تھا، یکایک اچھل پڑا اور تالیوں کی گونج سنائی دی۔ کچھ اس قسم کی بات کا ہی وہ انتظار کررہے تھے۔ اس طرح کا مخالف پاکستان لہجہ گجرات کے سیاسی منظر پر نیا نہیں ہے۔ 2002ء کے اسٹیٹ الیکشن جو گودھرا ٹرین آتشزنی اور مشتبہ ملزمین کے پاکستان کے ساتھ مبینہ روابط کے پس منظر میں منعقد ہوئے، تب انتخابی مہم میں مودی نے میاں مشرف کو اپنا بڑا دشمن قرار دیا تھا۔ پاکستانی ڈکٹیٹر کیلئے ’میاں‘ کا حوالہ واضح طور پر گجراتی مسلم کو خبیث بتانے کی سیاسی حکمت عملی رہی۔
گجرات کی اسمبلی الیکشن کیلئے انتخابی مہم 2017ء میں وہ مزید ایک قدم آگے بڑھ گئے اور دعویٰ کیا کہ اُن کے پیشرو منموہن سنگھ سرحد پار کے نامی گرامی مہمانوں کے ساتھ غیررسمی ڈنر میں شرکت کرتے ہوئے اُن کی حکومت کے خلاف پاکستانی عہدے داروں کے ساتھ سازش کررہے ہیں۔ ڈاکٹر سنگھ نے بجا طور پر معذرت خواہی کا مطالبہ کیا، جو انھیں کبھی نہیں ملی۔ ایک اور انتخابی مہم میں فرضی خبر کو پھیلایا گیا کہ ایک ریٹائرڈ پاکستانی جنرل کوشش کررہے ہیں کہ کانگریس لیڈر اور سونیا گاندھی کے پولیٹیکل سکریٹری ’میاں‘ احمد پٹیل کو اگلا چیف منسٹر گجرات بنائیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے دہشت گرد ملیشا (جنگجو تنظیم) اور اُن کے مبینہ مقامی روابط کے بارے میں خوف کا ماحول پیدا کرنا اب 2019 جنرل الیکشن میں قومی آواز کا درجہ اختیار کرجائے گا؟ بہار کے 2015 اسمبلی الیکشن کی مہم کو یاد کیجئے جب صدر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) امیت شاہ نے ووٹروں کو انتباہ دیا تھا کہ اگر اپوزیشن مہا گٹھ بندھن (عظیم اتحاد) جیت جائے تو پاکستان میں آتش بازی ہوگی۔ بہاری ہندو رائے دہندوں کو خوف کے جال میں پھنسانے بی جے پی قیادت کی مایوسانہ کوشش اس پارٹی کے خلاف ذات پات پر مبنی وسیع تر منظم اتحاد کے خالص علم حساب کے خلاف ناکام ہوگئی۔ حتیٰ کہ اس کے سابقہ ’اوتار‘ جن سنگھ کے وقت بھی جب سنگھ پریوار نے ’اکھنڈ بھارت‘ کے نظریہ اور پاکستان کو نیست و نابود کردینے کو اپنے کلیدی ایجنڈے کے طور پر پیش کیا، ووٹر کچھ خاص متاثر نہیں ہوا تھا۔
ٹی آر پی (ٹیلی ویژن ریٹنگ پوائنٹس) کیلئے بے چین و بے قرار نیوز ٹیلی ویژن، ہمیشہ گونج پیدا کرتے رہنے پر آمادہ اور بزور طاقت قوم پرستی مسلط کرنے کا حامی… یہی تو وہ ماحول ہے جو ٹیم مودی کیلئے موزوں ہے بالخصوص ہندی پٹی میں جہاں 2019 ء کے انتخابات جیتے یا ہارے جائیں گے۔ اوائل دہا 1990ء میں بی جے پی نے رام جنم بھومی مسئلہ پر ہندوتوا لہر شروع کی جس میں سادھو۔ سنت سماج نے اعانت کا رول ادا کیا۔ اب اُن کی جگہ یونیفارم میں ملبوس افراد اور ٹی وی اسٹوڈیو کے ’سورما‘ ہیں جنھیں مسلم پاکستان کا مقابلہ کرنے والی مضبوط ہندو قوم کے نظریہ کی آڑ میں جذبانی قوم پرستانہ ہیجان پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے، جب کہ مودی کو اِس نئی اکثریتی بیداری کے نقیب کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ جاریہ ہزارہ کا ووٹر جو سرکش پاکستانی آرمی۔ ٹیرر مشین سے نمٹنے کے مزید روایتی سفارتی طریقوں سے بوریت کا شکار ہے، وہی اِس طاقت کے مظاہرے اور جنگ کا ماحول پیدا کرنے کے منصوبے کا خصوصیت سے ٹارگٹ ہے۔
شاید زیادہ سرگرم اور نظریاتی طور پر تنومند اپوزیشن مودی طرز کی ہندوتوا قوم پرستانہ سیاست کو بامعنی چیلنج پیش کرسکتی تھی جیسا کہ اس نے 1990ء کے دہے میں کیا تھا جب ’’مندر وہیں بنائیں گے‘‘ کا نعرہ لگانے والی زعفرانی آرمی کو روکا گیا تھا۔ لیکن جہاں دہا 1990ء کے واجپائی۔ اڈوانی نسل والے بی جے پی قائدین وسیع النظر پارلیمانی آداب کو ملحوظ رکھتے تھے، وہیں مودی۔ شاہ کے وفاداروں کے پاس سیاسی درستگی یا دستوری نزاکتوں کو سمجھنے کا وقت نہیں ہے۔ اس نکتہ سے شاید وضاحت ہوسکے کہ جب پلوامہ میں فاش انٹلیجنس ناکامی کے بارے میں سوال اٹھایا گیا، تب بی جے پی کے ترجمان فوری ردعمل میں جارحانہ ہوئے اور نقادوں کو ’’قوم دشمن پاکستانی‘‘ قرار دیتے ہوئے ان پر سخت تنقید کرنے لگے! بھدی اصطلاحوں میں کہوں تو جب اس طرح ’’دیش بھکتوں (محب وطن)‘‘ اور ’’دیش دروہی لوگ (غداران)‘‘ کے درمیان انتخابی مقابلہ آرائی ہونے لگے تو سیاسی ماحول کا مزید بگڑ جانا یقینی ہے۔
اختتامی تبصرہ
دیسی سیاست میں آلۂ کار کے طور پر پاکستان پر تیز و تند تنقیدوں کا رجحان تو بانی شیوسینا بال ٹھاکرے نے شروع کیا تھا۔ 1991ء میں جب انڈیا۔ پاکستان کرکٹ میچ کے خلاف بطور احتجاج شیوسینکوں نے ممبئی میں کرکٹ پچ کو نقصان پہنچایا، تب ٹھاکرے جشن منانے کے موڈ میں نظر آئے۔ انھوں نے کہا تھا: ’’مجھے میرے لڑکوں (سیاسی کارکنوں) پر فخر ہے، انھوں نے پاکستان کو سبق سکھایا ہے۔‘‘ ٹھاکرے ایسا لگا تھا کہ کرکٹ پچ کو غنڈہ گردی کا نشانہ بنانے کے بعد شہ سرخیوں پر آنے پر مطمئن ہوگئے، اب مودی کو بالاکوٹ فضائی حملے سے انتخابی فائدہ حاصل ہونے کی امید ہے۔
rajdeepsardesai52@gmail.com