گمراہ کن انتخابی مہم اور بے بس عوام

غضنفر علی خان
2019 ء کے عام چناؤ میں کچھ دن ہی باقی رہ گئے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں اور سنگھ پریوار کی طاقتوں نے اپنی مہم میں شدت پیدا کردی ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ انتخابی مہم میں عوام کو درپیش مسائل کا زور و شور سے ذ کر ہوا کرتا تھا لیکن ان انتخابات میں سیاسی پار ٹیاں شخصیتوں پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہیں، عوامی مسائل کا اس مہم میں شائبہ تک نہیں ہے ۔ میں نے یہ کیا، تو نے کیا کیا ، کہ محدود دائرے میں پا رٹی لیڈرس اور ان کی عقل و دانش سمٹ کر رہ گئی ہے ۔ شخصی حملوں کا بازار گرم ہے ۔ ذاتیات کو جھوٹے پروپگنڈے کے ذریعہ گرایا اور اٹھایا جارہا ہے ، اس معاملہ میں ہمارا الیکٹرانک میڈیا سب سے آگے ہے۔ بعض چینلوں کے بارے میں تو ناظرین کو اب یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ ان کے مالکین کو کسی نہ کسی پارٹی نے سمجھ لیجئے کہ خرید رکھا ہے ۔ چینل ہو یا پرنٹ میڈیا کا کوئی اخبار ہو کسی ایک پارٹی کی مخالفت یا بے جا تائید کر کے خود اپنی ساکھ کھو رہے ہیں جس کی وجہ سے صحافت پر سے عوام کا اعتبار اٹھتا جارہا ہے لیکن پھر بھی اخبارات اس معاملہ میں دیانتداری سے کام کر رہے ہیں ۔ البتہ الیکٹرانک میڈیا نے تو اپنا اعتبار کھودیا ہے۔ ایک طرفہ رپورٹنگ اور بے جا تائید نے یہ صورتحال پیدا کردی ہے کہ اب چینلوں کے نام سے زیادہ ان کی سیاسی وابستگیوں کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے ۔ صحافت دراصل دیانتداری کا دوسرا نام ہے ۔ صحافت ایک غیر جانبدار مبصر ہوتا ہے۔ اس کو اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ بی جے پی اچھی ہے یا کانگریس پارٹی بہتر ہے، اپنے اس موقف کو کھو کر اگر صحافت یہ سمجھتی ہے کہ اس نے بہت کچھ حاصل کرلیا تو یہ انتہائی افسوسناک اور المناک بات ہوگی ۔ خاص طور پر بی جے پی کے بارے میں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ چند ایک چینل کو بی جے پی نے خرید رکھا ہے ، ان پر صرف بی جے پی کی تعریف اور وزیراعظم مودی کے کارنامے گنائے جاتے ہیں، اس معاملہ میں بی جے پی ، کانگریس یا دوسری پارٹیوں سے آگے دکھائی دیتی ہے لیکن جیسے جیسے انتخابی مہم آگے بڑھتی جارہی ہے ، ناظرین کو یہ اندازہ ہوچکا ہے کہ چینلس سے بتائی گئی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے ۔ تمام ناظرین اس فرق کو محسوس نہ کرتے ہوں لیکن بہت سے بھولے بھالے لوگ اس گمراہ کن پروپگنڈہ سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ کیوں کوئی مخصوص چینل اتنی فراخدلی سے بی جے پی کی تائید کر رہا ہے ۔ مہم کے آخری حصہ میں یہ سادہ لوح ناظرین جو ووٹرس بھی ہیں، اب یہ محسوس کر رہے ہیں کہ فلاں چینل بی جے پی ا ور مودی کے ہاتھوں بک گیا ہے ۔ میڈیا پر عوام کی یہ بے اعتمادی خود میڈیا کیلئے زیر ثابت ہورہی ہے ۔ میڈیا کی اولین ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ اپنے ناظرین کو حقائق سے واقف کروائیں۔ میڈیا کو کسی وزیراعظم یا کسی پارٹی کی بے جا تائید ہرگز نہیں کرنی چاہئے ۔ یہ بے بس عوام اب اس صورتحال سے دوچار ہیں کہ ’’یا رب تیرے یہ سادہ لوح بندے کدھر جائیں‘‘ ۔

بی جے پی خود اندرونی بغاوتوں کی شکار ہوتی جارہی ہے۔ دو دن قبل اترپردیش کے بی جے پی لیڈر اے پی سنگھ نے اشارتاً صدر بی جے پی امیت شاہ اور وزیراعظم مودی کو گجرات کے ان دو ٹھگوں سے تعبیر کیا جو ہندوستانی عوام کو بے وقوف بنارہے ہیں ۔ اے پی سنگھ نے یہ بڑی دور کی کوڑی لائی ہے ، جب انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری پارٹی نے پردھان منتری (وزیراعظم) چنا تھا لیکن وہ تو پرچار منتری بن گئے ہیں۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ صدر بی جے پی اور مودی اور ایسے مرکز بن گئے ہیں جن کے اطراف پارٹی کی ساری پالیسی گھومتی ہے ۔ وزیراعظم تقریباً ہر دن بی جے پی کی جھوٹی اور بے بنیاد تعریفیں کر رہے ہیں اور امیت شاہ مودی کی ان ہی باتوں کو اپنے انتخابی جلسوں میں رٹے رٹائے طوطے کی طرح دہراتے ہیں۔ پارٹی کا کوئی واضح مقصد نہیں رہا ۔ ہاں ، ایک واحد مقصد بی جے پی کا یہ رہا ہے کہ کسی طرح سے اقتدار حاصل کیا جائے ، اس کے لئے اتنی جھوٹ کہی جاتی ہے کہ سننے والا اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے کیونکہ ان جھوٹی باتوں میں صداقت تو چھوڑیئے اس صداقت کا کوئی عنصر تک نہیں ملتا ۔ اے پی سنگھ کوئی پہلے بی جے پی لیڈر نہیں ہیں جنہوں نے مودی امیت شاہ کی کھل کر مخالفت کی ہو ، اس سے پہلے پا رٹی لیڈر اور ایم پی شتروگھن سنہا اور یشونت سنگھ سنہا نے بھی پارٹی کی سخت مخالفت کرتے ہوئے بی جے پی سے اپنا رشتہ و ناطہ ہی ختم کردیا ، اب بھی اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پارٹی کے بزرگ لیڈر ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو بقول اے پی سنگھ گجرات کے دونوں ٹھگوں نے بری طرح سے نظر انداز کردیا۔ اڈوانی کو گجرات کے شہر گاندھی نگر اور جوشی کو یو پی کے اس حلقہ انتخابات سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ جہاں سے یہ دونوں برسوں سے نمائندگی کرتے تھے حا لانکہ ان سینئر لیڈرس کی پارٹی کیلئے گراں بار خدمات رہی ہیں ۔ اب یہ احساس بھی پارٹی کے اندر پیدا ہورہا ہے کہ بی جے پی میں داخلی جمہوریت نہیں ہے یعنی مخالفت کو بھی دشمنی سمجھا جارہا ہے ۔ رہا کرپشن کا سوال تو اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ بی جے پی لیڈرس اور سابق چیف منسٹر کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ نے 18 ہزار کروڑ کی رقم پارٹی کے بے حد اہم لیڈروں کو بطور رشوت دی تھی ، یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ اتنی بڑی رقم خود سابق وزیر اعلیٰ نے کہاں سے لائی تھی ، وہ تو خود ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بھی انتہائی حیرت کی بات ہے کہ اس مودی جی کے رفقاء نے کیوں یہ رقم لی تھی جو بار بار یہ کہتے ہیں کہ ’’ نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا ‘‘ رقم لینے والی پارٹی لیڈروں میں موجود وزیر فینانس ارون جیٹلی اور دیگر کئی اہم لیڈرس شامل ہیں۔ کرپشن خواہ چھوٹی سی رقم کا ہو یا کروڑہا روپیہ کا معاملہ ہو جرم سمجھا جاتا ہے ۔ پھر یہ بھی بات ہے کہ کیسے یہ معاملہ وزیراعظم کی نظروں سے چھپا رہا ، اگر نہیں تو پھر دیدۂ دانستہ طور پر اس واقعہ کو پوشیدہ رکھا گیا ۔ آج مودی اور بی جے پی پر انتخابی پروپگنڈہ کرنے والے کیسے اتنے بڑے اسکینڈلس سے ناواقف رہے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض ذرائع ابلاغ صرف وہی باتوں کی تشہیر کرتے ہیں جو بی جے پی کے حق میں ہوتی ہیں ۔ حالانکہ یہی ذرائع ابلاغ غیر بی جے پی پارٹیوں کے چھوٹے چھوٹے معاملات کو اتنا اچھال کر پیش کرتے ہیںکہ گویا قیامت ٹوٹ پڑی ہو۔ اس بے اعتدالی کیلئے الیکٹرانک میڈیا کو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے ۔ ہندوستان جیسے ملک میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ رہا نئے وعدوں کا سوال تو بی جے پی اور اس کے لیڈرس آسماں سے تارے توڑ کر عوام کو مسلسل دھوکہ دے رہے ہیں۔ کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے دو دن قبل یہ اعلان کیا تھا کہ ملک کے غریب خاندانوں کو چھ ہزار روپئے ماہانہ اور 72 ہزار روپئے سالانہ بطور امداد دیئے جائیں گے ۔ اگرچہ کہ یہ وعدہ بظاہر کئی اعتبار سے ممکن العمل نہیں ہے لیکن اتنا مشکل بھی نہیں ہے کہ اس کی کوشش نہ کی جائے ، اصل بات یہ ہے کہ بی جے پی نے ہر غریب خاندان کو سالانہ چھ ہزار روپئے دینے کا وعدہ کیا ہے جو 500 روپئے ماہانہ ہوتا ہے ۔ ایک سال میں بی جے پی 6 ہزار روپئے دیتی ہے تو کانگریس پارٹی 6 ہزار روپئے ماہانہ فراہم کر کے بی جے پی کو انتہائی مشکل میں ڈال دیا ہے ۔ یہ اور ایسے کئی وعدے جو سیاسی پارٹیاں کر رہی ہیں ، ان کا اگر عوام خود جائزہ لیں تو حقائق معلوم ہو جائیں گے ۔ اس مسئلہ پر بھی بی جے پی کانگریس پر مسلسل حملے کر رہی ہے جس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کانگریس اپنے اس وعدے کو پورا کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو اس کو انتخابات میں بھاری نقصان ہوسکتا ہے اور اگر 20 کروڑ عوام اور ان کے افراد خاندان کو یہ رقم دینے میں کانگریس کامیاب ہوتی ہے تو پھر رائے دہندے کانگریس ہی کی جئے جئے کار کریں گے ۔