گفتگو میں کمال ،یہ بھی فن ہے

چاہتی ہیں کہ آپ جاذب نظر آئیں تو سب سے پہلے اپنے لباس پرتوجہ دیں اور اپنے آپ کو مایوسی کے خول سے باہر آئیں اور اپنے چہرے پر خوشگوار تاثر قائم رکھیں۔ ہنستا ہوا چہرہ بذات خود ایک حسن ہے۔
اس کے علاوہ آپ کی آواز اور لب و لہجے کا پرکشش ہونا بہت ضروری ہے۔ مگر اس تصنع ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ کھردرے لہجے میں بات کرنا یا گفتگو کے دوران آخری فقرے یا لفظ کو حذف کردینا اور مذکر و مؤنث کا امتیاز کئے بغیر غائبانہ بات جاری رکھنا۔ اپنا تکیہ کلام بار بار دہرانا۔ ان سب سے ہمارا پھوہڑپن عیاں ہوتا ہے اور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں آداب گفتگو سے دور دور کا واسطہ نہیں۔ لب و لہجہ کے متعلق یہ بھی ضروری نہیں کہ اردو بولتے وقت بہت زیادہ الفاظ حلق سے نکالے یا لکھنوی و حیدرآبادی لہجے اور دہلوی ہونے کی بندش کی جائے اور پنجابی و سندھی کیلئے قدیم و جدید کے چکروں میں پڑا جائے۔ یہاں بولی کی باتیں نہیں بلکہ ادائیگی کی باتیں ہیں کہ خواہ ہم کہیں کی زبان بھی بولیں ادائیگی کا لہجہ نرم، شستہ اور گفتگو پر مذاق رکھیں تاکہ وہ سننے والوں کے کانوں میں رس گھولے۔اکثر دیکھا گیا ہیکہ بہت سے حسین چہرے اسی لئے بدصورت دکھائی دینے لگتے ہیں کہ ان کی آواز خوبصورت نہیں تھی۔

پرانے زمانے میں تو عورت کی زبان ہی اس کی گھر کی ہستی ہونے کی سند پیش کی جاتی تھی اور مردانہ آواز لہجے والی عورت کے متعلق قیاس کیا جاتا تھا کہ وہ اچھی ہستی گریا وفادار ثابت نہ ہوگی۔ اس طرح اکثر کا خیال تھا کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے۔ ہمارے ہاں کی پرانی کہاوت ہے زباں شیریں، ملک گیریں۔ اور اس کے ساتھ یہ محاورہ بھی عام ہے کہ زبان کا زخم نہیں بھرپاتا تلوار کا بھرجاتا ہے۔ اسی لئے بات کرتے وقت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ اس کیلئے بچپن کے قاعدے کا پڑھا ہوا فقرہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ پہلے بات کو تولو اور پھر بولو۔ ہمارے ہاں اکثر خواتین کسی کو طعنہ دینے میں کمال رکھتی ہیں۔ طعنہ دینا یا طعنے کا ادھار نہ رکھنا تو ہر عورت کی فطرت ہے مگر آپ اپنی احتیاط کیجئے کہ کتنی ہی سخت بات کہتے ہوئے آپ کے چہرے کے تاثرات برے نہ ہوں بلکہ اپنے ہونٹوں کی مسکراہٹ اور آواز کی خوبصورتی کو کبھی نہ بھولئے۔ طعنہ زنی کرکے وقتی مسرت تو حاصل کی جاسکتی ہے مگر یاد رکھئے طعنہ سننے والی وقتی طور پر اپنی بے عزتی برداشت کرے گی اور پھر وہ ٹوہ میں رہے گی کہ بھری محفل میں آپ کی بھی ہنسی اڑائی جائے۔ آپ پر پھبتی کسی جائے۔ اس سلسلہ میں یہ بات رکھئے۔ اگر آپ مذاق میں کسی کی برائی کی نشاندہی کرتی ہیں اور جس کی کرتی ہیں وہ بھی آپ کے ساتھ شامل ہوکر اپنا مذاق خود اڑائے مگر یہ بات اس کے دل میں بیٹھ جائے گی اور وہ آپ کا مذاق اڑائے بغیر چین نہ پائے گی۔