گزشتہ زمانے کے نفقہ کا مطالبہ

سوال : زید کا نکاح ہوئے چھ سال کا عرصہ ہوا۔ زید کی ایک لڑکی بھی ہے جس کی عمر پانچ سال ہے ۔ شادی کے چند ماہ بعد زید کی اہلیہ بغرض ولادت اپنی ماں کے گھر چلی گئی پھر واپس نہیں آئی تاآنکہ ساڑھے تین سال کا عرصہ ہوگیا اور اب بات خلع یا طلاق پر آ ٹھہری۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ
(1 کیا زید کے اوپر اپنی بیوی کے ان پانچ سال کا نان نفقہ باقی رہے گا ؟
(2 کیا زید کو اپنی لڑکی کے پانچ سال کا نفقہ دینا ہوگا ؟
(3 اگر خلع یا طلاق ہوجائے تو لڑکی کی پرورش کا حق کسے حاصل ہوگا ؟
(4 اگر پرورش کا حق ماں کو حاصل ہو تو یہ کتنے سال رہے گا اور کیا اتنے سال تک زید کو اپنی بیوی کا نان و نفقہ دینا ہوگا یا ماں اس کے اخراجات کی ذمہ دار ہوگی
(5 نان و نفقہ کی شرعی مقدار کیا ہے اور اس میں کیا چیز شامل ہے ؟
نام ندارد
جواب : جو عورت شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے چلی جائے اور بلانے پر بھی واپس نہ آئے تو شرعاً وہ ناشزہ یعنی نافرمان ہے ۔ نا فرمان بیوی جب تک وہ شوہر کے گھر واپس نہ آئے اس کا نفقہ شوہر کے ذمہ لازم نہیں ۔ نیز میاں بیوی میں نفقہ سے متعلق کوئی معاہدہ طئے نہ ہو تو شوہر کے ذمہ نفقہ ماضیہ کا لزوم نہیں۔ لڑکی بلوغ تک ماں کی زیر پرورش رہے گی اور اس کا نفقہ باپ پر اس کی آمدنی اور موجودہ گرانی کے لحاظ سے واجب ہوگا ۔ لڑکی سن بلوغ کو پہنچ جائے تو اس کا حق حضانت باپ کو حاصل ہوجائے گا۔
بعد وفات اپنے اعضاء کے متعلق وصیت کرنا
سوال : آپ سے معلوم کرنا ہے کہ کیا کوئی مسلمان اپنی زندگی میں اپنے لواحقین کو وصیت کرسکتا ہے کہ بعد انتقال اس کی آنکھیں ، گردے وغیرہ دوسروں کے استعمال کے لئے یعنی لگانے کیلئے دیئے جائیں۔ Donate) کرنے کیلئے) اس بارے میں شرعی احکام کیا ہیں۔ کیا ایسا عمل ثواب کا کام ہوگا یا گناہ ؟ برائے مہربانی معلوم کریں۔ غیر مسلمین میں یہ رواج ہے کہ دواخانوں کو پہلے سے کہہ دیا جاتاہے اور وہ ڈاکٹرز بعد مرنے کے اسے لے جاتے ہیں اور ضرورت مند لوگوں کو آپریشن کے ذریعہ لگاتے ہیں۔
فیصل سالم، کٹل منڈی
جواب : جس چیز کی وصیت کی جارہی ہے، وصیت کنندہ کا اس کا مالک ہونا ضروری ہے ۔ اگر کوئی شخص غیر مملوکہ چیز کی وصیت کرے تو وہ شرعاً باطل ہے ۔ وصیت کا مفہوم یہ ہے کہ وصیت کنندہ تاحیات جس چیز کا مالک و متصرف ہے بعد وفات وہ چیز موصی لہ ، (جس کے حق میں وصیت کی جارہی ہے) کی ملک ہوگی۔ ازروئے شرع انسان کو اپنی حین حیات اپنے اعضاء فروخت کرنے کا حق نہیں۔ حتی کہ بوقت ’’ اضطرار ‘‘ مردار بھی حلال ہوجاتا ہے لیکن ایسے وقت میں کوئی پیشکش کرے کہ میرا ہاتھ کاٹ لو اور کھاکر اپنی جان بچاو، ایسے وقت بھی انسان کا عضو کاٹ کر استعمال کرنا مباح نہیں۔ حاشیہ ابن عابدین جلد 5 ص : 215 میں ہے : وان قال لہ : اقطع یدی وکلھا لایحل لان لحم الانسان لایباح فی الاضطرار و لکرامتہ ۔ فتاوی خانیہ جلد 3 ص : 404 میں ہے: مضطری یجد المیتۃ وضاف الھلاک فقال لہ اجل : اقطع یدی وکلھا لا یسعہ الامر ۔ اعضاء انسانی سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں۔ فتاوی عالمگیری جلد پنجم ص : 354 میں ہے : الانتفاع باجزاء الآدمی لم یجز قیل للنجاسۃ وقیل لکرامتہ وھو الصحیح ۔ نیز انسان کے انتقال کے ساتھ ہی اس کی مملوکہ ہر چیز میں اس کے ورثہ کا حق متعلق ہوجاتا ہے لیکن مرحوم کے جسم اور اس کے اعضا پر اس کے ورثہ کا کوئی حق ثابت نہیں ہوتا کیونکہ وہ اللہ کی امانت ہے ۔ بعد انتقال آدمی جس کا مالک و متصرف نہ رہے ، اس کے متعلق وصیت کرنا شرعاً باطل ہے۔ لہذا اگر کوئی اپنی آنکھ ، گردہ و دیگر اعضاء بعد وفات دوسرے ضرورتمندوں کو دینے کی وصیت کرے تو ایسی وصیت ناقابل نفاذ ہے ۔ بظاہر اس میں انسانی ہمدردی معلوم ہورہی ہے لیکن در حقیقت یہ انسانی عظمت و احترام کے قطعاً منافی ہے۔

نماز جنازہ ، سنتوں کے بعد پڑھنا
سوال : میں بنجارہ ہلز ایک مسجد میں نماز جنازہ میں شریک رہا، وہاں عشاء کے فوری بعد ، سنتوں سے قبل نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ بعد ازاں بعض نے سنتیں اور وتر ادا کی اور بعض جنازے کے ساتھ چلے گئے ۔ واضح رہے کہ اس وقت میت میں پھولنے پھٹنے یا کوئی تبدیلی کے آثار نہ تھے، پوچھنا یہ ہے کہ فرض نمازوں کے وقت جنازہ آجائے تو نماز جنازہ سنت و نوافل ادا کر کے پڑھائی جائے یا فرض کے ساتھ ہی نماز جنازہ ہو ؟
معین الدین، ٹولی چوکی
جواب : صورتِ مسؤل عنہا میں فرض نماز کی جماعت کے بعد سنت ادا کر کے نماز جنازہ پڑھی جائے اور یہی مفتی بہ قول ہے ۔ در مختار برحاشیہ ، ردالمحتار جلد اول ص : 611 میں ہے۔ الفتوی علی تاخیر الجنازہ عن السنۃ وأقرہ المصنف کأنہ الحاق لھا بالصلاۃ اور ردالمحتار میں ہے (قولہ الحاق لھا) أی للسنۃ بالصلاۃ أی صلاۃ الفرض اور ردالمحتار جلد اول باب صلاۃ الجنائز ص 658 میں ہے ۔ الفتوی علی تقدیم سنتھا علیھا ۔

ازراہ مذاق طلاق دینا
سوال : ہندہ کو انکے شوہر نے گھریلو تکرار کے دوران تین مرتبہ طلاق طلاق طلاق کہا ۔ بعد میں یہ کہہ رہا ہے کہ ’’ میں نے مذاق سے کہا ہوں‘‘ جویریہ حاملہ ہے ۔ ایسی صورت میں شرعاً کیا حکم ہے ؟
نام …
جواب : صورت مسئول عنہا میں شوہر نے جویریہ کو اگر مذاقاً طلاق دی ہے تو بھی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوکر تعلق زوجیت بالکلیہ منقطع ہوگیا ۔ عالمگیری جلد اول کتاب الطلاق فصل فیما یقع طلاقہ میں ہے ۔ وطلاق اللاعب والھازل بہ واقع ۔ اور اسی کتاب میں ہے ۔ وزوال حل المناکحۃ متی تم ثلاثا۔ اب بغیر حلالہ دونوں آپس میں دوبارہ عقد بھی نہیں کرسکتے ۔ کنز الدقائق کتاب الطلاق فصل فیما یحل بہ المطلقۃ میں ہے : و ینکح مبانتہ فی العدۃ و بعدھا لا المبانۃ بالثلاث ولو حرۃ و بالثنتین لو أمۃ حتی یطاھا غیرہ ۔ حاملہ کی عدت و ضع حمل (زچگی) پر ختم ہوتی ہے ۔ فتاوی عالمگیری جلد اول باب العدۃ ص : 528 میں ہے ۔ ولیس للمعتدۃ بالحمل مدۃ سواء ولدت بعد الطلاق او الموت بیوم أو أقل ۔

رہن کی چیز چوری ہوجانا
سوال : میرے ایک دوست نے مجھ سے چند ہزار روپئے بطور رہن لئے اور معاوضہ میں ان کی ایک چیز میرے پاس رہن میں رکھی۔ انہوں نے وقت مقررہ پر وہ پیسے مجھے واپس کردئے لیکن اپنی چیز لے کر نہیں گئے۔ میرے بار بار یاد دہانی کے باوجود اپنی کسی مصروفیت کی وجہ سے لے کر نہیں جاسکے۔ کچھ عرصہ بعد میں اپنے افراد خاندان کے ساتھ اپنے گاؤں گیا تھا۔ واپسی کے بعد دیکھا تو ہمارے کچھ سامان کے ساتھ ان کی رکھائی ہوئی چیز بھی چوری ہوگئی۔ کیا ایسی صورت میں مجھ پر وہ چیز ادا کرنا ضروری ہے ؟
فردوس خان، مستعدپورہ
جواب : صورت مسؤلہ میں جبکہ رہن کی قیمت ادا کردی گئی اور رہن میں رکھی ہوئی چیز واپس نہیں لی گئی تو ایسی حالت میں رہن میں رکھائی ہوئی چیز آپ کے پاس امانت تھی اورامانت کے متعلق شرعاً یہ حکم ہے کہ اگر امین ( جس کے پاس امانت ہو) اس چیز کی اپنے مال کی طرح حفاظت کرے اور عمدا اس کو تلف نہ کیا ہو تو اس پر تلف ہونے کا تاوان نہیں آتا۔ البتہ اس کو قسم کھانا ہوگا کہ مکمل حفاظت کرنے کے باوجود وہ چیز اس کے پاس سے تلف ہوگئی۔ رحمۃ الامۃ فی اختلاف الائمہ کی کتاب الودیعۃ ص : 85 میں ہے ’’ اتفق الائمۃ علی ان الودیعۃ من القرب المندوب الیھا و ان حفظھا ثوابا و انھا امانۃ محضۃ و ان الضمان لا یجب علی المودع الا بالتعدی و ان القول قولہ فی التلف والرد علی الاطلاق مع یمینہ۔‘‘
اسلام قبول کرنے والی خاتون کیلئے عدت
سوال : ایک غیر مسلم شادی شدہ لڑکی اسلام قبول کی ہے۔ اس کا شوہر اسلام قبول کرنے کیلئے آمادہ نہیں توکیا اس لڑکی کو کسی مسلمان سے شادی کرنے کے لئے کچھ مدت انتظار کرنا ہوگا یا وہ فی الفور کسی مسلمان سے شادی کرسکتی ہے۔
تنظیم فوکس
جواب : اگر کوئی غیر مسلم خاتون اسلام قبول کرلے اور اس کا شوہر اسلام قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو تو طلاق کے بغیر ہی اس کے اور شوہر کے درمیان تفریق واقع ہوجاتی ہے، اور اس پر تین ماہوار عدت گزارنا لازم ہوجاتا ہے۔عدت گزرجانے کے بعد وہ کسی مسلمان سے شادی کرسکتی ہے۔او وقعت الفرقۃ بینھما بغیر طلاق وھی حرۃ ممن تحیض فعدتھا ثلاثۃ اقراء سواء کانت الحرۃ مسلمۃ او کتابیۃ کذا فی السراج الوہاج (عالمگیری ج : 1 ص : 536 )

نام رکھنا والد کا حق
سوال : مجھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے۔ لڑکا بڑا ہے ، اس کی پیدائش کے وقت اس کے والد نے اسکا نام اپنی پسند سے رکھا تھا۔ بعد میں مجھے لڑکی ہوئی اس کا نام میں اپنی پسند سے رکھنا چاہتی تھی لیکن میرے شوہر نے اپنی مرضی سے اس کا نام رکھا جو مجھے پسند نہیں ہے۔ اب وہ ایک سال کی ہے۔ ہم اگر اس کا نام بدلنا چاہیں تو بدل سکتے ہیں یا نہیں ؟
عمیرہ خانم، حیدرآباد
جواب : شریعت اسلامی میں نام رکھنے کا حق والد کو ہے ۔ چنانچہ احیاء العلوم ج : 2 ص : 147 حقوق الوالدین والولد میں ہے: قال صلی اللہ علیہ وسلم من حق الولد علی الوالد ان یحسن ادبہ و یحسن اسمہ ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : والد پر اولاد کے حق میںسے یہ ہے کہ وہ اس کو حسن ادب سکھائے اور اس کا اچھا نام رکھے۔ اگر والد کا رکھا ہوا نام اچھا نہ ہو تو دوسرے اشخاص اس کو بدل کر اچھا نام رکھ سکتے ہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ برے نام بدل کر اچھا نام رکھا کرتے تھے ۔ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یغیر الاسم القبیح (ترمذی شریف بروایت سدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کا نام ’’ عاصیہ ‘‘ (نافرمان) تھا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام ’’جمیلہ ‘‘ (خوبصورت) رکھا۔ وعن ابن عمر ان بنتا کان لعمر یقال لھا عاصیۃ فسماھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمیلۃ رواہ مسلم (بحوالہ زجاجۃ المصابیح ج : 4 ص : 40 ) اس حدیث شریف کی تشریح کرتے ہوئے امام نووی نے برے نام کو بدل کراچھا نام رکھنا مستحب و پسندیدہ قرار دیا ۔ ’’ وفیہ استحباب تغییر الاسم القبیح کما یستحب تغییر الاسامی المکروھۃ الی حسن ‘‘ ( حوالہ مذکور)
لہذا اگر آپ کے شوہر کا رکھا ہوا نام اچھا نہیں ہے اور آپ اس کو بدل کر اچھا نام رکھنا چاہیں تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ اس سلسلہ میں شوہر کو راضی کرلیں تو بہتر ہے ۔ ردالمحتار ج : 5 کتاب الحظر والاباحۃ میں ہے : وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یغیر الاسم القبیح الی الحسن جاء ہ رجل یسمی اصرم فسماہ زرعۃ وجاء ہ آخر اسمہ المضطجع فسماہ المنبعث وکان لعمر رضی اللہ عنہ بنت تسمی عاصیۃ فسماھا جمیلۃ