گرمی کی گرما گرمی

میرا کالم            سید امتیاز الدین
ایک زمانہ تھا کہ سال کے تمام موسموں میں ہمیں گرما کا موسم سب سے زیادہ پسند تھا ۔ اس کی پہلی اور سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ اسکول کو لمبی چھٹیاں مل جاتی تھیں۔ صبح دیر سے اٹھنے پر ڈانٹ پڑتی تھی اور نہ رات میں دیر سے سونے پر کوئی روک تھی ۔ ہمارے گھر میں صحن بھی تھا اور دالان بھی۔ دو تین پلنگ تھے جو صحن میں بچھادیئے جاتے تھے جن پر ہمارے بڑ ے بھائی سوجاتے تھے۔ دالان میں سرشام بے دریغ پانی ڈالا جاتا تھا جو گھنٹے بھر میں سوکھ جاتا تھا اور دالان  کا فرش بالکل ٹھنڈا ہوجاتا تھا ۔ ہم بستر بچھاتے ۔ ٹھنڈی ہوا چلتی اور ہم کو پنکھے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔ ویسے گھر میں صرف ایک برقی پنکھا تھا جو عرفِ عام میں ٹیبل فین کہلاتا تھا ۔ وہ اس طرح گھومتا تھاجیساکہ بعض شعراء مشاعرے میں کلام سناتے ہیں تاکہ ہر طرف سے داد ملے اور کسی کو پورا شعر سنائی نہ دے ۔ ہاتھ کے پنکھے کثیر تعداد میں ہوتے تھے جنہیں ہم تقریبا ً اپنے آپ کو جھلتے تھے لیکن دو چار منٹ میں آنکھ لگ جاتی اور ہاتھ کا پنکھا ادھر اُدھر گرجاتا۔ صبح صبح اتنی ہوا چلتی کہ کچھ اوڑھ لینا پڑتا تھا ۔ پانی کی قلت نام کی کوئی چیز نہیں تھی ۔ لوگ اپنے گھروں کے سامنے ٹٹی کے آبدار خانے لگواتے تھے تاکہ راہ چلتے، پیاس بجھاتے ہوئے جائیں۔ چولہا لکڑی سے جلتا تھا ۔ پکوان کے بعد سرخ کویلوں کو جنہیں بھویل کہتے تھے، کیریاں ڈال دی جاتیں اور بعد میں اُن کو ٹھنڈا کر کے اُن کا شربت نکالا جاتا، جس سے جسم کی گرمی دور ہوجاتی ۔ فریج اُن دنوں نہیں تھے ۔ ہر گھر میں تھرماس ہوتا تھا جس میں برف محفوظ کی جاتی تھی ۔ کھڑکیوں پر خس کی ٹٹی ڈالی جاتی اور دوپہر میں سونے کا کمرہ ٹھنڈا رہتا اور قیلولے کا مزہ آتا۔ حیدرآباد شہر میں تقریباً تمام مکانات یک منزلہ ہوتے ۔ کئی منزلہ عمارتوں کا تصور بھی نہیں تھا۔ ہم کبھی کسی کے ساتھ معظم جاہی مارکٹ کی طرف جاتے اور بیچلرس کوارٹرس کی بلڈنگ کو دیکھتے تو حیرت سے اُس کی بلندی پر نظر کرتے۔ حیدرآباد کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اگر چار پانچ دن تک درجۂ حرارت زیادہ رہتاتو اچانک ایک دن زوردار بارش ہوجاتی اور موسم خوشگوار ہوجاتا۔ شہر میں کئی باغ جن میں باولیاں تھیں، جن میں چھو ٹے بڑے تیراکی کرتے۔ خود ہم نے گرما کے دنوں میں ایک وسیع اور پختہ باولی میں تیرنا سیکھا تھا ۔ اب ایسے سارے کنوئیں خشک ہوگئے ہیں ۔ حد ہے کہ وہ چشمہ جس کا پانی حضور نظام کے استعمال کیلئے مخصوص تھا ، سنا ہے کہ اب خشک ہوگیا ہے اور خستہ حالی کا شکار ہے ۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہم صرف عثمان ساگر یعنی گنڈی پیٹ کا پانی پیتے ہیں جس کے بارے میں مشہور تھا  کہ جس نے ایک بار یہ پانی پیا کبھی حیدرآباد چھوڑ کر نہیں گیا ۔ اب شاید دریائے کرشنا اور گوداوری کا پانی ہماری ضرورتوں کی تکمیل کر رہا ہے ۔ گنڈی پیٹ تقریبا ً سوکھ گیا ہے اور اگلے مانسون کے انتظار میں ہے ۔ اگر حا لات خدانخواستہ ایسے ہی رہے تو گنڈی پیٹ محکمۂ آبرسانی کی بجائے محکمۂ آثار قدیمہ کی توجہ کا مرکز بن جائے گا تاکہ سیاحوںکو یہ بتلایا جائے کہ یہاں پہلے ایک تالاب ہوا کرتا تھا جس سے شہر کے لوگوں کو پانی سربراہ کیا جاتا تھا ۔

بہرحال 2016 ء کے گرما اور ہمارے بچپن کے گرما میں  زمین آسمان کا فرق ہے ۔ اب ہم جس گھر میں رہتے ہیں اس میں نہ صحن ہے، نہ دالان۔ بس کمرے ہی کمرے ہیں۔ تازہ اور صحت بخش ہوا کیلئے گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے ۔ شہر کیا ہے اونچی اونچی عمارتوں کا جنگل ہے، جس طرح سڑکوں پر ٹریفک جام کی وجہ سے لوگوں کو راستہ نہیں ملتا، ہوا کو بھی اونچی عمارتوں کی وجہ سے چلنے پھرنے اور لوگوں تک پہنچنے میں دشواری پیش آرہی ہے ۔ صبح آٹھ بجے کے بعد دھوپ اتنی سخت ہوجاتی ہے کہ گھر سے باہر نکلنے کو جی نہیں چاہتا۔ دھوپ کی شدت کا یہ عالم ہے کہ ہم کو اکثر انیس کا یہ مصرع یاد آتا ہے ۔

خس خانۂ مژہ سے نکلتی نہ تھی نظر
ہم حیدرآبادی پھر بھی خوش نصیب ہیں کہ ہم کو پانی کی اتنی تکلیف نہیں ہے جتنی تکلیف ہمارے ملک کے بعض دوسرے شہروں کے لوگ جھیل رہے ہیں۔ سنا ہے کہ لاتور میں پانی کی ٹرین چلتی ہے جس سے لوگوں کو فی کس دو گھڑے پانی ملتا ہے ۔ کرکٹ کی پچ پر پانی کے چھڑکاؤ کیلئے پانی کی قلت کی وجہ سے بعض جگہ میچ ملتوی کردیئے گئے ہیں ۔ اس پر ہمیں ایک واقعہ یاد آگیا جو کسی صاحب نے ازراہ مذاق سنایا تھا۔ سنتے ہیں کہ کسی گاؤں میں پانی کی شدید قلت تھی ۔ وہاں کوئی صاحب گئے تھے ، بدقسمتی سے اُنہیں داڑھی بنوانے کا خیال آیا اور وہ بے سوچے سمجھے ایک حجامت خانے میں گُھس گئے ۔ چہرے پر صابن لگانے سے پہلے وہ حجام نے برش پرتھوکا پھر اُس پر صابن لگایا اور اُن کے چہرے پر ملنے لگا ۔ ان صاحب کو سخت غصہ آیا ۔ کہنے لگے’’تم کس قدر غلیظ اور بدتمیز آدمی ہو ۔ اپنا تھوک میرے چہرے پر مل رہے ہو‘‘۔ حجام نے کہا کہ ’’حضور آپ باہر سے آئے ہیں۔ میں نے آپ کا لحاظ کیا اور برش پر تھوکا۔ یہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ تو میں یہ سلوک کرتا ہوں کہ ان کے چہروں پر تھوک دیتا ہوں پھر آرام سے صابن لگاتا ہوں‘‘۔ ہمارے پاس اللہ کے فضل سے پانی کی ویسی قلت تو نہیں ہے لیکن ہمارے مسائل جداگانہ ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتہ صبح صبح ہمارے پڑوسی نہایت گھبرائے ہوئے آئے اور کہنے لگے کہ نل سے نہایت گدلا پانی آرہا ہے اور پانی میں بدبو ہے ۔ ہم نے اپنے گھر کانل کھولا تو ہم کو یہ جان کر اور بھی تکلیف ہوئی کہ ہمارے نل سے گدلا پانی بھی نہیں آرہا تھا ۔ ہم بھاگے بھاگے آب رسانی کے لائین مین کے پاس گئے اور اپنی بپتا سنائی ۔ وہ بے چارہ لوگوں کی گالیاں سن کر لاچاری کے عالم میں سگریٹ پیتا ہوا کھڑا تھا ۔ اُس کو ہم پر رحم آیا اور وہ ہمارے ساتھ ہوگیا ۔ اُس نے ہمارے میٹر کا معائنہ کیا اور اپنے آلات سے نل کا پائپ کھول دیا ۔ معلوم ہوا کہ ہمارے پائپ میں دنیا بھر کا کچرا اور غلاظتیں بھرگئی تھیں۔ کافی محنت سے اُس نے پائپ صاف کیا اُس کے بعد ہمارے نل سے بھی گدلے پانی کی آمد شروع ہوئی ۔ ہم نے کئی بکٹ پانی یونہی ضائع کیا ۔ تب کہیں جاکر کسی قدر صاف پانی آنے لگا۔ معلوم ہوا کہ ہمارے ملک میں جتنے بھی محکمے ہیں، اُن میں آپس میں کوئی تال میل نہیں ہے ۔ بجلی کے محکمے والے مشینوں سے سڑک کھود دیتے ہیں اور اپنا کیبل بچھادیتے ہیں۔ ٹیلی فون والے اپنی کارروائی الگ کرتے ہیں۔ ڈرینج کے لوگ صفائی کے بہانے کھدائی کرتے ہیں۔ ایسے میں قدیم زمانے کے نل کے پائپ کھدائی کی زد میں آجاتے ہیں۔ ان سب کا شکار عام آدمی ہوتا ہے جسے پانی کی سخت ضرورت ہے اور وہ آلودہ پانی پی کر بیماریوں کو دعوت دیتا ہے۔

ہم بات موسم گرما کی شدت کی کر رہے تھے اور پانی کی قلت بھی اُسی ضمن میں آگئی۔ ابھی دو تین دن پہلے ہم ایک شادی میں شریک ہوئے ۔ دلہا میاں کافی لحیم شحیم تھے اور اُن کا سہرا اُن سے زیادہ لحیم شحیم تھا ۔ نکاح تک تو انہوں نے سہرا برداشت کیا لیکن نکاح کے بعد پھولوں کے تمام ہار اور اپنا شملہ اپنی شاہی کرسی پر رکھ دیا اور خود ایک عام مہمان کی طرح ایک صوفے پر پنکھے کے سامنے بیٹھ گئے ۔ ایک بزرگ جو ذرا دیر سے آئے تھے ، ہم سے پو چھنے لگے ، میاں کیا دلہا کسی کام سے  گیا ہوا ہے ۔ ہم نے اُن سے کہا ’جی نہیں وہ آپ کے سامنے شہ نشین پر بیٹھا آئسکریم کھا رہا ہے‘۔
جانوروں پر بھی اس موسم گرما کے عجیب اثرات ظاہر ہورہے ہیں۔ ہمارے ایک دوست بتا رہے تھے کہ سکندرآباد کے قریب ایک فلائی اوور کے قریب ایک اونٹ بے ہوش ہوکر گر پڑا ۔ اُس پر کافی پا نی ڈالنا پڑا تب کہیں جا کر اُس کو ہوش آیا ۔ اب آپ ہی سوچئے کہ جب اونٹ، جسے ریگستان کا جہاز کہتے ہیں اس کسمپرسی کے عالم میں ہے تو آپ اور ہم کس شمار و قطار میں ہیں۔ اونٹ نخلستانوں میں پانی پی بھی لیتا ہے اور اپنے جسم میں محفوظ بھی کرلیتا ہے۔اس خشک سالی میں اسے نخلستان کہاں ملے گا اور کیسے وہ پانی کا ذخیرہ کرے گا ۔ اس سے بڑی خطرہ کی گھنٹی زوالوجیکل پارک کے جانوروں نے سنائی دی ہے ۔ ایک ریچھ زو کا پنجرہ توڑ کر نکل گیا ۔ اس سے آپ گرمی کی شدت اور ریچھ کے پنجرے کی شکستہ حالی کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں ۔ سنا ہے اُس پر بے ہوشی کے انجکشن کی بندوقیں داغی گئیں لیکن وہ اُس کے گھنے بالوں میں پھنس کر رہ گئیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ریچھ کو بے ہوش کرنے کیلئے بندوق بردار سے پہلے کسی ماہر حجام کی خدمات درکار تھیں جو پہلے اُس کے گھنے بال صاف کرتا پھر اس پر بے ہوشی کی گولی چلائی جاتی۔ ہمیں ابھی بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ ریچھ موصوف سرفروشی کی تمنا دل میں لئے ہوئے کس طرف رواں دواں ہیں۔ (ویسے ہم نے اپنے گھر کے دروازے اور کھڑکاں بند رکھی ہیں)۔ اگر زو کے جانوروںکی جرات رندانہ کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو کیا عجب ہم کسی دن سنیں کہ شیر بھی پنجرہ توڑ کر نکل گیا ہے اور آخری خبریں ملنے تک کسی آئسکریم پارلر میں بیٹھا ہوا ہے اور وہاں پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں کی قلفی جم گئی ہے۔ یہ تو ہوئی بڑے جانوروں کی بات۔ معصوم پرندوں کا حال اور برا ہے ۔ دو تین دن پہلے ہم نے اخبار میں تصویر دیکھی کہ بعض چھوٹے پرندے زمین پر پڑے ہوئے کچھ پانی سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں۔ ہم اپنے قارئین سے گزارش کریں گے کہ اپنے مکانوں کی بالکنی میں کسی کھلے برتن میں پانی رکھا کریں تاکہ اڑتے ہوئے پرندے اپنی پیاس بجھاسکیں۔

بڑے بوڑھے کہتے ہیںکہ جب گناہوں کی کثرت ہوتی ہے تو خشک سالی پیش آتی ہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ انسان پارسا تو کبھی نہیں رہا لیکن جس قدر بے ایمانی، بد دیانتی اور رشوت ستانی آج دیکھنے میں آرہی ہے ، ویسی کبھی نہیں تھی ۔ آج لوگ کروڑوں اربوں کی ہیرا پھیری کر کے ملک چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔ گربۂ مسکین دکھائی دینے والے بھی اپنے خزانے گمنام ملکوں میں چھپاتے ہیں ۔ ہم اگر قہر خداوندی سے آج بھی نہ ڈریں تو کب ڈریں گے۔ اچھے دن کب آئیں گے اس کا تو پتہ نہیں لیکن اچھا مانسون مہینے دیڑھ مہینے میں آسکتا ہے جس کیلئے ہمیں دعا کرنی چاہئے۔