گرمی کا قہر

میرا کالم             سید امتیاز الدین
بڑھتی ہوئی عمر کے کئی نقصانات ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہیں رات میں نیند نہیں آتی۔ کسی کو بھوک نہیں لگتی۔ کسی کو کل کی بات آج یاد نہیں رہتی ۔ کسی کو جوڑوں کا درد ستاتا ہے ۔ ہم کو سب سے زیادہ موسم کی شدت ستاتی ہے۔ موسم گرما ہر سال اپنے وقت پر آجاتا ہے چاہے ہم چاہیں نہ چاہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ اس سال گرمیاں وقت سے کچھ پہلے ہی شروع ہوگئی ہیںاور ہم یہ بھی محسوس کر رہے ہیں کہ جتنی شدید گرمی اس سال ہورہی ہے اتنی اب تک کبھی نہیں ہوئی تھی ۔ ہم جلد سے جلد روز مرہ کے کام نپٹا کر صبح دس ساڑھے دس بجے تک کوئی گوشۂ عافیت ڈھونڈنے کی فکر کرتے ہیں۔ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ بلی بظاہر ایک مختصر جانور ہے لیکن اس معاملے میں ہم سے زیادہ تجربہ کار ہے۔ بلی جہاں بیٹھتی ہے یا جہاں لیٹ کر آرام کی نیند سوئی ہے وہ گھر کا سب سے زیادہ آرام دہ گوشہ ہوتا ہے ۔ ہم نے کئی بار سوچا کہ بلی کو ہٹاکر خود اس کی جگہ لیٹ جائیں لیکن جتنی جگہ ہم گھیرتے ہیں اتنی جگہ میں کم سے کم چھ سات بلیاں قطار بناکر لیٹ سکتی ہیں۔
ابھی پچھلے ہفتے ہم کو معلوم ہوا کہ ہمارے ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کو ہم سے زیادہ گرمی لگتی ہے اور وہ گرمی سے بے تاب ہوکر ایسی دلیرانہ حرکتیں کرنے سے باز نہیں آتے جن سے اُن کو جیل بھی ہوسکتی ہے اور نوکری بھی جاسکتی ہے ۔ ریاستِ بہار میں کوئی مقام ہے بکسر۔ وہاں سے ایک ٹرین گزر رہی تھی جسے آگے کسی اور مقام جانا تھا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ٹرین کا ڈرائیور بکسر کا رہنے والا تھا ۔ اُس نے ٹرین بکسر پر روکی ٹرین سے اترا اور رفو چکر ہوگیا ۔ وقت مقررہ پر گرین سگنل دے دیا گیا ۔ ہری جھنڈی دکھادی گئی لیکن ٹرین کو جنبش تک نہ ہوئی ۔ جنبش کیسے ہوگی جبکہ ڈرائیور صاحب ہی موجود نہ ہوں۔ مسافرین حیران ،ریلوے عملہ پریشان ، پتہ نہیں کتنے اعلانات کئے گئے ۔ کہاں کہاں لوگ دوڑائے گئے لیکن ڈرائیور ندارد۔ ہمیں اس پر بھی حیرت ہے کہ ایمرجنسی میں کسی دوسرے ڈرائیور کا انتظام کیوں نہیں ہوا ۔ بہر حال دو ڈھائی گھنٹے کی سنسنی خیز تاخیر کے بعد ڈرائیور صاحب نمودار ہوئے ۔ جب اُن سے اپنی برضاو رغبت گمشدگی اور از خود بازیابی کی وجہ پوچھی گئی تو انہوںنے بتایا کہ شدید گرمی کی وجہ سے وہ نہانا چاہتے تھے ۔ اس لئے ٹرین چھوڑ کر چلے گئے تھے اور دو گھنٹے کے بعد نہاکر لوٹے ہیں۔ مسافرین نے سخت احتجاج کیااور محکمہ ریلوے ڈرائیور کے خلاف کارروائی کرنے والا ہے ۔ ہم کو مسافرین سے ہمدردی ہے جنہیں اتنی سخت گرمی میں یہ پریشانی اٹھانی پڑی۔ ریلوے ڈرائیور تو صرف ٹرین چھوڑ کر چلا گیا تھا لیکن ہم نے کئی ملکوں کے پریسڈنٹ اور وزرائے اعظم کے بارے میں سنا ہے کہ جب ان کے جرائم کے راز فاش ہونے کا وقت قریب آیا تو وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے اور کسی اور ملک میں پناہ لے لی۔ خود ہمارے ملک کے بعض بزنسمین  کئی لوگوں کو دھوکہ دے کر یا بینکوں کا قرضہ واپس کئے بغیر بھاگ گئے اور اب حکومت انہیں واپس لانے میں ناکام ہے ۔ وجئے مالیا اس کی تازہ مثال ہیں۔کل ہم نے وجئے مالیا کو ٹی وی پر دیکھا جو کروڑوں کی ہیرا پھیری کے بعدلندن میں ہیں اور حسیناؤں کے جھرمٹ میں رنگ رلیاں منا رہے ہیں۔

خیر ہم اس وقت بات شدید گرمی کی کر رہے تھے۔ ہمارے بچپن میں بھی گرمی کا موسم آتا تھا لیکن اتنی شدید گرمی نہیں ہوتی تھی ۔ ہم ملے پلی میں رہتے تھے ۔ ہر مکان میں دالان بھی ہوتا تھا اور صحن بھی ۔ سرشام دالان میں پانی ڈالا جاتا جو بمشکل آدھے گھنٹے میں سوکھ جاتا اور دالان کا فرش ٹھنڈا ہوجاتا ۔ ہم ٹھنڈے فرش پر بستر بچھاتے اور آرام سے سوجاتے ۔ برقی پنکھے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی بلکہ قدرتی ہوا سے کام چل جاتا یا پھر ہاتھ کے پنکھے ہوتے جنہیں جھلتے جھلتے آنکھ لگ جاتی ۔ پنکھے والے پھیری لگاکر بیچتے اور لوگ شوق سے خریدتے ۔ کھڑکیوں اور دروازوں پر خس کی ٹٹی لگائی جاتی جس پر پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا۔ آج کل ایرکنڈیشنر اور ایرکولرس آگئے ہیں جن سے آدھی رات کے بعد ضرورت سے زیادہ ٹھنڈک ہوجاتی ہے جو ناگوار گزرتی ہے۔
ہمارے بچپن کی یادوں میں ایک ایسا شربت بھی ہے جس کے صحیح ہجے ہم کو آج تک نہیں معلوم ہوئے ۔ پتہ نہیں اس کو آب شعلہ لکھا جائے یا آب شولہ ۔ اُن دنوں لکڑی کے چولہوں پر پکوان ہوتا تھا ۔ پکوان کے بعد چھولوں سے لکڑیاں ہٹادی جاتی تھیں اور چولہوں میں بھوبھل رہ جاتی تھی ۔ اس میں کیریاں ڈال دی جاتی تھیں جو گھنٹے دو گھنٹے میں سخت گرمی سے تڑخ جاتی تھیں۔ کیریوں کے بگدے سے شربت نکالا جاتا اور اس میں شکر ملائی جاتی تھی ۔ برف ڈال کر پیتے تھے ۔ بڑی فرحت محسوس ہوتی تھی ۔ گھروں میں آئسکریم کے آلے ہوتے تھے ۔ اب ہر چیز بازار سے آتی ہے جس سے کبھی فائدے کی بجائے نقصان بھی ہوجاتا ہے ۔

اُن دنوں حیدرآباد میں ایک خاص بات تھی۔ اگر چار پانچ دنوں تک سخت گرمی پڑتی تو اس کے بعد ایک دن زبردست بارش ہوجاتی جس سے دوچار دنوں تک درجۂ حرارت میں کمی ہوجاتی اور لوگ راحت کی سانس لیتے۔ آج کل محکمہ موسمیات بارش کی پیش قیاسی تو کرتا ہے لیکن بارش نہیں ہوتی بلکہ گرمی اور بڑھ جاتی ہے ۔ گرمیوں میں لوگ تیرنے کیلئے باولیوں کا رخ کرتے تھے ۔ ہم نے بھی گرمیوں میں ایک باولی میں تیرنا سیکھا تھا ۔ اب شہر میں کہیں باولیوں کا سراغ ملنا مشکل ہے ۔ لے دے کے دو چار سوئمنگ پول ہوں گے جہاں ہم اب تک نہیں گئے ۔ اب تو ہمیں اکثر یہ گمان بھی ہوتا ہے کہ ہم کہیں تیرنا بھول نہ گئے ہوں۔
گرمیوں کا لباس بھی موسم کے لحاظ سے ہونا چاہئے ۔ دو چار دن پہلے ہم ایک ولیمے کی دعوت میں شریک ہوئے۔ کھانے کی میز پر ہمارے ساتھ ایک صاحب تشریف فرما تھے ۔ موصوف سیاہ رنگ کا فل سوٹ زیب تن حسنِ اتفاق سے وہ خوش خوراک بھی تھے۔ کھانا شروع کرنے کے تھوڑی ہی دیر بعد انہوں نے بڑی مشکل سے اپنا کوٹ اُتار دیا اور اسے کرسی کو پہنادیا ۔ پھر اپنی ٹائی ڈھیلی کردی ۔ ہم نے دیکھا کہ اُن کی قیمیص پسینے سے تر تھی اور اُن کی حالت قابلِ رحم تھی ۔ وہ بیرے سے بار بار آئسکریم کی فرمائش کر رہے تھے اور بیرا اُن کی بار بار کی فرمائشوں سے عاجز دکھائی دے رہا تھا ۔ آخر اس نے تنگ آکر کہہ دیا کہ آئسکریم ختم ہوگئی۔ آپ دوسرا میٹھا کھایئے ۔
ہمارے ایک پڑوسی ہیں۔ اُن پر بھی گرمی کا شدید اثر ہوتا ہے ۔ وہ گھر میں نہایت مختصر لباس میں رہتے ہیں۔ اُن سے بات کرتے ہوئے ہم کو نگاہیں نیچی رکھنی پڑتی ہیں۔
ایسی شدید گرمی میں ہماری حکومت کے محکمہ تعلیمات کو نہ جانے کیا سوجھی کہ سالانہ امتحانات کے نتیجوں کے فوری بعد اسکول دوبارہ کھول دیئے۔ عام طور پر یہ ہوتا تھا کہ اگلی جماعت کی تعلیم جون میں شروع ہوتی تھی لیکن اب نیا تعلیمی سال اپریل میں ہی شروع ہوگیا ہے ۔ ہمارا پوتا چوتھی جماعت سے پانچویں میں گیا ۔ اس کا نتیجہ 20 مارچ کو نکلا اور 23 مارچ سے پانچویں جماعت کی تعلیم شروع ہوگئی ۔ وہ اور اس کے ساتھ دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں ساڑھے بارہ بجے گھر لوٹتے ہیں۔ اخباروں میں طلباء کے سرپرست مراسلے بھیج رہے ہیں کہ خدارا اسکول بند کیجئے لیکن محکمہ تعلیمات کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔
ہمارے محترم مجتبیٰ حسین صاحب گرمی کے تعلق سے فارسی کے کسی شعر کا حوالہ دیتے ہیں کہ ایک سال شہر دمشق میں اتنی شدید گرمی پڑی کہ لوگ عشق کرنا بھول گئے ۔ شعر خود ان کو بھی یاد نہیں ہے ۔ ہمارا یہ حال ہے کہ انتہائی معتدل موسم میں بھی ہم کو عشق کرنے کی توفیق نہیں ہوئی ۔ البتہ ہمارے اردو کے بعض شعراء نے گرمی کی شدت پر طبع آزمائی کی ہے ۔ میر انیس نے گرمی کے بارے میں کہا ہے  ؎
خس خانۂ مژہ سے نکلتی نہ تھی نظر
یعنی دھوپ اتنی سخت تھی کہ انسان کی نظر بھی آنکھوں سے باہر جانے کی تاب نہ لاسکتی تھی ۔
جوش صاحب نے کہا ہے  ؎
اب بوئے گل نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
داغ دہلوی نے کہا تھا
کوئی چھینٹا پڑے تو داغ کلکتے چلے جائیں
عظیم آباد میں ہم منتظر ساون کے بیٹھے ہیں
ہم نہ عظیم آبادمیں ہیں اور نہ ہمیں کلکتے جانا ہے لیکن ہم کو اس کا انتظار ضرور ہے کہ یہ گرمی رخصت ہو اور کچھ بارش ہوتا کہ درجہ حرارت کچھ تو کم ہو۔