گردے کی پتھری اور قرآنی وظیفہ

سوال : میری عمر 60 سال ہے ۔ میرے گردوں میں پتھری ہے ۔ ڈاکٹر کہتے ہیں آپریشن کروانا پڑے گا۔ حکیم کہتے ہیں دواؤں سے پتھری پگھل کر نکل جائے گی۔ حکیم کی دوائیاں کھا رہا ہوں۔ آپ سے گزارش ہے کہ کوئی ایسی آیت یا آیات کا میں ورد کروں جس کے مسلسل پڑھنے سے اور دعا کرنے سے میری پتھری پگھل کر پیشاب کے ذریعہ ریزہ ریزہ ہوکر ، سفوف بن کر نکل جا ئے ۔مجھے کسی نے کہا ہے کہ قرآن شریف میں ایسی آیات موجود ہیں جس کے پرھنے سے فوری پتھری نکل جاتی ہے چونکہ بہت پریشان ہوں جواب جلد اگلے شمارے میں دیں تو بہت مشکور رہوں گا۔
مصطفی شکیل، پھسل بنڈہ
جواب : عشاء کی سنت کے بعد فرض سے پہلے ستر مرتبہ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم پڑھ کر پانی پر دم کریں اور استعمال کریں۔ 21 دن یہ عمل جاری رکھیں۔ گردے کی بیماری کیلئے مجرب ہے ۔ نیز ودکت الجبال دکا پڑھا کریں۔

فجر کی جماعت اور سنت
سوال : میں نے حدیث شریف کی ایک کتاب میں فجر کی دو سنت کی فضیلت پڑھی تھی، اس کے بعد سے میں ہمیشہ فجر کی دو سنت کا اہتمام کرتا ہوں اور بسا اوقات میں ایسے وقت مسجد میں داخل ہوتا ہوں جبکہ امام صاحب نماز کے آخری مراحل میں ہوتے ہیں ۔ میں ایسے وقت کبھی جماعت میں شریک ہوجاتا ہوں اور کبھی پہلے سنت پڑھ کر تنہا فرض پڑھ لیتا ہوں اور جب جماعت میں شریک ہوجاتا ہوں تو سنت چھوٹنے کا مجھے کافی ملال ہوتا رہتا ہے ۔ اس ضمن میں اگر آپ میری رہنمائی فرمائیں تو مہربانی ہوگی؟
نام …
جواب : اگر فجر کی نماز ہورہی ہے اور بعد میں آنے والے کو یہ یقین ہے کہ وہ سنت پڑھ کر جماعت میں شریک ہوسکتا ہے تو اس کو چاہئے کہ فوراً دو رکعت سنت پڑھ لے پھر جماعت میں شریک ہوجائے اور جماعت کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو فرض کی جماعت میں شریک ہوجائے ۔ عالمگیری ج : 1 ص : 53 میں ہے ’’و یکرہ النفل اذا اقیمت الصلوۃ الاسنۃ الفجر ان لم یخف فوت الجماعۃ‘‘۔بعض ائمہ کے پاس فرض نماز شروع ہونے کے بعد کوئی سنت خواہ سنت فجر ہی کیوں نہ ہو پڑھنا درست نہیں ۔ صرف احناف کے پاس سنت فجر کی حد تک یہ رعایت ہے کیونکہ سنت فجر کی تاکید زیادہ آئی ہے۔

صلوٰۃ و سلام کے وقت دوسری عبادت میں مشغول ہونا
سوال : مسجد میں سلام پڑھتے وقت کوئی دوسرا عمل جیسے نماز ، تلاوت، ذکر کرنا چاہئے یا نہیں، یا مسجد کے باہر چلے جانا چاہئے ۔ مسجد کے معتمد صاحب کہہ رہے کہ سلام پڑھتے وقت کوئی دوسرا دین کا عمل نہیں کرنا۔ مسجد سے باہر چلے جانا۔ جواب جلدی دیجئے تو مہربانی ہوگی۔
محمد یوسف، احمد کالونی، حیدرآباد
جواب : مسجد میں فرض نماز باجماعت ادا ہونے کے بعد مصلی حسب منشاء قرآن کی تلاوت ، ذکر و اذکار اور وظائف صلوٰۃ و سلام میں مصروف ہوسکتا ہے۔ مسجد میں صلوٰۃ و سلام ہورہا ہو اور کوئی مصلی نماز ، قرآن کی تلاوت یا کوئی ذکر کرنا چاہتا ہے تو اس کو اختیار ہے۔ مسجد میں جو لوگ صلوۃ و سلام پڑھ رہے ہیں ، ان کو منع نہیں کرنا چاہئے ، اسی طرح جو صلوٰۃ و سلام میں شریک نہیں ہوئے اور کسی دوسری عبادت میں مصروف ہیں تو ان کو بھی دیگر عبادات مثلاً قرآن کی تلاوت وغیرہ سے منع نہ کریں۔ واضح رہے صلوٰۃ و سلام ہو یا قرآن کی تلاوت اتنی بلند آواز سے نہ ہو جس کی وجہ دوسرے مصلیوں کو ان کی عبادات ، ذکر و شغل میں خلل ہوتا ہو۔ بفحوائے آیت قرآنی یایھاالذین آمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما۔ اے ایمان والو ! تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو اور کثرت سے سلام ادا کرو۔ صلوٰۃ و سلام کا حکم مطلق ہے ۔ انفرادی و اجتماعی ، بیٹھ کر کھڑے ہوکر ادا کرنا اس آیت پر عمل کرنے میں شامل ہے۔

قضاء نمازیں بیٹھ کر ادا کرنا
سوال : میری عمر ستر سال ہے اور مجھ پر کئی نمازیں قضاء ہیں اور اب میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے پر قادر نہیں، فرض نماز بیٹھ کر ادا کر رہا ہوں۔ ایسی صورت میں صحت و تندرستی کی حالت میں جو نمازیں قضاء ہوئیں ہیں اس کو میں بیٹھ کر ادا کرسکتا ہوں یا پھر کھڑے ہوکر ہی ادا کرنا ہوگا ؟
مصلح الدین قادری ، مراد نگر
جواب : کوئی شخص حالت مرض و بیماری میں صحت و تندرستی کی حالت میں فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرنا چاہتا ہے تو اس کو حسب قدرت بیٹھ کر یا اشارہ سے قضاء کرنے کی اجازت ہے ۔ عالمگیری جلد اول ص : 138 میں ہے : و ان قضی فی المرض فوائت الصحۃ قضا ھا کما قدر قاعدا او مومئا کذا فی ا لسراحبیۃ۔
پس آپ حسب سہولت و قدرت صحت کے زمانہ کی فوت شدہ نمازوں کی قضاء بیٹھ کر ادا کرسکتے ہیں۔
حقحضانت
سوال : تین سال قبل زید اور ہندہ کا نکاح ہوا، دونوں میں شروع ہی سے اختلافات رہے ، اسی اثناء میں ایک لڑکی تولد ہوگئی ۔ موافقت و یکسوئی کی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ بالآخر دونوں میں طلاق ہوگئی ، لڑکی دو سال کی ہے اور وہ والد ہی کے پاس ہے ۔ عدت طلاق ختم ہوتے ہی ہندہ نے دوسری شادی کرلی ۔ اتفاق کی بات ہے کہ دوسرے شوہر سے بھی ہندہ کا نباہ نہ ہو ۔اور دو ماہ ہی میں دونوں میں خلع ہوگیا اور عدت ختم ہوگئی ، اب ہندہ اپنی لڑکی کی پرورش کے حق کا مطالبہ کر رہی ہے اور زید کا دعویٰ ہے کہ ہندہ کو لڑکی کی پرورش کا حق نہیں کیونکہ وہ شادی کرچکی تھی ۔ شرعا کیا حکم ہے ؟ واضح رہے کہ لڑکی کی نانی بھی صحتمند ہیں اور پرورش کرنے کی خواہشمند ہیں۔
محمد عارف الدین، یاقوت پورہ
جواب : شرعاً لڑکی بلوغ تک ماں کی پرورش میں رہے گی ، ماں اگر دوسری شادی کرلے تو اس کا حق حضانت ختم ہوکر نانی کو حاصل ہوجائے گا اور اگر ماں کا رشتہ زوجیت منقطع ہوجائے تو اس کا حق حضانت عود کرجاتا ہے ، اس کو اپنی لڑ کی کی پرورش کا حق رہتا ہے ۔ عالمگیری جلد اول باب الحضانۃ ص : 542 میں ہے : والام والجدۃ احق بالجاریۃ حتی تحیض ۔ اور ص : 541 میں ہے : و انما یبطل حق الحضانۃ لھولاء النسوۃ بالتزوج اذا تزوجن با جنبی … و من سقط حقھا بالتزوج یعود اذا ارتفعت الزوجیۃ کذا فی الھدایۃ۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں ماں نے بعد ختم عدت شادی کرلی تھی تو لڑکی کی پرورش کا حق اس کی نانی کو حاصل ہوا اور اگر ماں کا رشتہ نکاح منقطع ہوگیا ، دوسرے شوہر سے طلاق کی بناء تفریق ہوگئی تو اس کی لڑکی کا حق حضانت اس کی ماں کو حاصل ہوگیا ۔ باپ کو منع کرنے کا حق نہیں۔

’’الطلاق لمن اخذ با لساق‘‘
سوال : شریعت مطھرہ میں طلاق کا اختیار شوہر کو دیا گیا ہے اور اس کو ثابت کرنے کیلئے علماء حضرات ایک حدیث شریف کوٹ کرتے ہیں۔
’’الطلاق لمن اخذ با لساق‘‘
براہ کرم اس حدیث کی مختصر تصریح فرمائیں اور اس سے کیا مراد ہے۔ واضح کریں تو مہربانی۔
روبینہ خاتون، ٹولی چوکی
جواب : حدیث شریف میں اس طرح الفاظ منقول ہوئے ہیں۔ ’’انما الطلاق لمن اخذ بالساق‘‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ بلا شبہ طلاق کا اختیار اس شخص کو حاصل ہے جو عورت کی پنڈلی کا حقدار ہو۔ یہ کلمات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ارشاد فرمائے تھے جب ایک صحابی رسول نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کی کہ ان کے آقا نے ان کا نکاح اپنی باندی سے کروایا اور اب وہ (شوہر کی مرضی کے بغیر) دونوں میں تفریق کردینا چاہتے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: اے لوگو ! کیا ہوگیا ہے کہ تم میں سے کوئی ا پنے غلام کی اپنی باندی سے شادی کرواتا ہے پھر ان کے درمیان تفریق و علحدگی کردیتا ہے ۔ سنو ! طلاق کا حق اس کو ہے جو عورت کی پنڈلی کا حقدار ہو، یعنی شوہر ہی طلاق دے سکتا ہے ۔
یہ روایت ابن ماجہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ نہ سے اس طرح منقول ہے ۔
اتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم رجل فقال : یا رسول اللہ ! ان سیدی زوجنی امتہ وھو یرید ان یفرق بینی و بینھا قال فصعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المنبر فقال : یا ایھا الناس مابال احدکم زوج عبدہ امتہ ثم یرید ان یفرق بینھما انما الطلاق لمن اخذ بالساق۔

قیام پر قادر شخص کا کرسی پر نماز پڑھنا
سوال : بعض افراد اگرچہ قعدہ میں بیٹھنے کی قدرت نہیں رکھتے مگر قیام کرسکتے ہیں، اس کے باوجود پوری نماز کرسی پر بیٹھ کر ادا کرتے ہیں، جبکہ قیام فرض ہے۔ کیا ایسے طریقے پر نماز پڑھ لینے سے نماز ہوجائے گی یا نہیں۔
محمدواحد، بازار گھاٹ
جواب : جو شخص قیام پر قادر تو ہو لیکن وہ حالت قیام سے سجدہ میں جانے پر قادر نہ ہو تو ایسا شخص شرعاً معذور ہے اور اس سے قیام کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے اور ایسے شخص کے لئے حسب سہولت بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے ۔ ہاں اگر کوئی شخص قیام پر قادر ہو اور قیام سے سجدہ میں بھی جاسکتا ہو اور وہ بلا عذر شرعی کرسی پرنماز پڑھتا ہو تو اس کی نماز ادا نہ ہوگی۔

بیمار شخص پر نماز جمعہ
سوال : میں چلنے پھرنے سے قاصر ہوں بلکہ طہارت کیلئے بھی دشواری ہوتی ہے۔ مسجد میرے گھر سے بہت قریب ہے لیکن بغیر کسی کے سہارے کے مسجد کو جانا مشکل ہے اور جمعہ کے وقت گھر میں کوئی مرد موجود نہیں رہتا ہے تو میں بادل ناخواستہ ظہر کی نماز ادا کرلیتا ہوں، شرعاً میرے لئے کوئی گنجائش ہے یا مجھے ہر صورت میں جمعہ ادا کرنے کیلئے مسجد کو جانا ہوگا۔
عبدالحق،مانصاحب ٹینک
جواب : شرعاً بیمار شخص پر جمعہ کا وجوب نہیں۔ حدیث شریف میں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : چار افراد ایسے ہیں جن پر جمعہ کا وجوب نہیں۔ مسافر ، مریض ، غلام اور عورت۔ اس کی روایت ابو داؤد طیالسی نے اپنی مسند ص : 115 میں کی ہے۔ پس چونکہ آپ بیمار ہیں اور جمعہ کیلئے مسجد جانے پر قادر نہیں ہیں اس لئے آپ پر جمعہ کا وجوب نہیں۔ آپ کا گھر میں ظہر ادا کرنا کافی ہے۔