گرایجویٹی و وظیفہ کی رقم جمع کرنے پر زکوٰۃ کا حکم

سوال : (1) زید کو ریٹائرمنٹ کے بعد گرایجویٹی اور وظیفہ فروختگی کا معاوضہ حاصل ہوا۔ جس پر ایک سال گزرچکا ہے ۔ کیا اس رقم پر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی ۔
(2) اس رقم سے لڑکی کی شادی کے لئے بینک میں کچھ رقم جمع کردی گئی ہے۔ کیا اس رقم پر بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی ؟
عبدالہادی، شاہین نگر
جواب : (1) وظیفہ کے بعد گریجویٹی اور وظیفہ فروختگی سے حاصل شدہ رقم پر ایک سال گزرنے کی بناء زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے۔
(2) اس رقم سے لڑکی کی شادی کے لئے بینک میں رقم رکھی جائے اور لڑکی کو اس رقم کا مالک بنادیا جائے اور لڑکی سن بلوغ کو پہنچ چکی ہے تو بعد ایک سال اس پر لڑکی کو زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے ۔ اگر وہ رقم آپ کی لڑکی کے نام پر ہو لیکن قابض آپ ہی ہوں تو آپ پر زکوٰۃ لازم ہے اور اگر آپ نے لڑکی کو مکمل معہ قبضہ مالک بنادیا ہے وہ سن بلوغ کو نہیں پہنچی ہے تو کسی پر زکوٰۃ فرض نہیں۔

کن چیزوں پر کتنی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے
سوال : زکوٰۃ کن کن چیزوں پر واجب ہے اور ان کے نصاب کیا کیا ہیں ؟
عبداللہ عامر، اولڈ ملک پیٹ
جواب : زکوٰہ چار قسم کے اموال پر فرض ہے : (1) سائمہ جانوروں پر (2) سونے چاندی پر (3) ہر قسم کے تجارتی مال پر (4) کھیتی درختوں کی پیداوار پر ، ( اگرچہ اصطلاحاً اس قسم کو عشر کہتے ہیں) ۔ ان اقسام کے نصاب علحدہ علحدہ ہیں۔
چاندی سونے اور تمام تجارتی مال میں چالیس واں حصہ زکوٰۃ فرض ہے ۔ چاندی کا نصاب دو سو درہم یعنی 425 گرام 285 ملی گرام ہے۔ اس سے کم چاندی پر زکوٰۃ نہیں۔ زکوٰہ تول کردینا چاہئے، درہم یا روپئے کی گنتی خلاف احتیاط ہے۔ سونے کا نصاب بیس مثقال یعنی 60 گرام 755 ملی گرام ہے۔ اس پر 40 واں حصہ زکوٰۃ فرض ہے۔ سونے چاندی کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے ۔ زکوٰۃ ادا کرتے وقت سونے چاندی کی جو قیمت ہو، اس کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی ۔ زکوٰۃ ادا کرتے وقت نقد رقم کے بجائے سونے یا چاندی کی زکوٰۃ اسی جنس میں بھی ادا کی جاسکتی ہے ۔ تجارتی مال کا نصاب بھی یہی ہوگا ۔ تجارتی مال وہ مال ہے جو فروخت کرنے کی نیت سے لیا ہو۔ اس کا نصاب مال کی قیمت کے اعتبار سے ہوگا ۔ یعنی اگر کل مال کی قیمت 425 گرام 285 ملی گرام چاندی یا 60 گرام 755 ملی گرام سونے کی قیمت کے برابر ہو یا اس سے زائد ہو تو سال گزر جانے پر اس کی زکوٰۃ ، چالیسواں حصہ دینا فرض ہے۔ چاندی سونے میں اگر کسی اور چیز کی ملاوٹ ہے مگر وہ غالب نہیں تو وہ کالعدم ہوگی ۔ اگر غالب ہے تو اس میں زیر نصاب جنس کی مالیت کی زکوٰۃ ہوگی ۔ سائمہ جانوروں کے بارے میں شرط ہے کہ وہ جنگلی نہ ہوں اور یہ کہ تجارت کی نیت سے پا لے جائیں۔ پانچ اونٹوں پر زکوٰۃ فرض ہے ۔ اس کے لئے ایک بکری ( نر یا مادہ) زکوٰۃ ہوگی ۔ پچیس اونٹوں میں ایک اونٹنی جس کا دوسرا برس شروع ہوچکا ہو۔
چھتیس اونٹوں میں ایک اونٹنی جس کا تیسرا برس شروع ہوچکا ہو۔ اسی طرح ایک خاص تعداد کے مطابق زکوٰۃ بڑھتی جائے گی جس کی تفصیل کتب فقہ میں آئی ہے ۔ گائے بھینس کے سلسلے میں تیس گایوں بھینسوں میں ایک گائے یا بھینس کا بچہ جوایک برس کا ہو۔ اسی طرح آگے تعداد بڑھنے پر ایک خاص شرح کے مطابق زکوٰۃ بھی بڑھتی جائے گی ۔ بھیڑ ، بکری میں چالیس کے لئے ایک بھیڑ یا بکری ، ایک سو سے زائد ہوں تو ہر سو میں ایک بکری۔

تنہا تراویح بآواز بلند پڑھے گا یا آہستہ
سوال : اگر کسی کی تراویح کی نماز جماعت سے چھوٹ جائے تو اسے بآواز بلند یا آہستہ ادا کرے گا؟
نام…
جواب : اگر کسی شخص کی جماعت چھوٹ گئی ، یا گھر ہی پر بلا جماعت تنہا پڑھ رہا ہے تو اسے اختیار ہے کہ بآواز بلند پڑھے یا آہستہ ، البتہ آواز سے پڑھنا بہتر ہے ۔ در مختار میں ہے : ’’ اگر امامت کا ارادہ ہے تو سورہ بآواز بلند پڑھے گا، امامت نہ کر رہا ہو تو فجر ، مغرب اور عشاء بحیثیت ادا و قضاء جمعہ ، عیدین ، تراویح اور اس کے بعد وتر میں جہری قراء ت نہیں کرے گا … تنہا نماز پڑھنے والے کو جہری نماز میں اختیار ہے کہ بآواز بلند پڑھے یا آہستہ ، البتہ بآواز بلند پڑھنا افضل ہے۔ رات میں تنہا نفل پڑھنے والے کی طرح کہ اسے جہری اور سری کے درمیان اختیار ہوتا ہے ‘‘۔

تراویح میں ختم قرآن پر دعاء
سوال : لوگ تراویح میں ختم قرآن کے روز کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں اور دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کا یہ عمل شرعاً کیسا ہے ؟
نام …
جواب : آج کل مروج ہے کہ لوگ تراویح میں ختم قرآن کے روز کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں اور کافی الحاح و زاری اور اہتمام سے دعا کرتے ہیں، ایسا کرنا درست و مستحب ہے ، امام نووی تحریر فرماتے ہیں۔
’’و یستحب حضور مجلس الختم لمن یقرأ ولمن لا یحسن القراء ۃ ، فقد روینا فی الصحیحین: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أمر الحیض بالخروج یوم العید لیشھدن الخیر و دعوۃ المسلمین‘‘۔ ’’ختم قرآن کی مجلس میں شرکت مستحب ہے ، خواہ قاری عمدہ پڑھتا ہو، یا عمدہ نہ پڑھتا ہو ، چنانچہ صحیحین کی روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورتوں کو عید کے دن نکلنے کا حکم فرمایا: تاکہ وہ بھلائی اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوسکیں‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ ختم قرآن کی مجلس میں شرکت کا اہتمام کرتے تھے اور حضرت انسؓ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ختم قرآن کے وقت اہل و عیال کو جمع کرتے پھر اجتماعی دعا فرماتے ۔’’ کان انسؓ اذا ختم القرآن جمع ولدہ و اھل بیتہ فدعا لھم‘‘معلوم ہوا کہ اس موقع پر دعا بھی زیادہ مقبول ہوتی ہے، اس لئے ہم لوگوں کو چاہئے کہ مختلف اہم امور کی دعا کریں اور جامع کلمات استعمال کریں ۔

نماز عید کا وقت
سوال : شہر میں مختلف مقامات پر نماز عید علحدہ اوقات میں ہوتی ہے ۔ پوچھنا یہ ہے کہ جس طرح نماز ظہر ،عصر وغیرہ کا وقت مختص ہے کیا عید کی نماز وقت بھی مقرر ہے ؟
غیور الرحمن صدیقی ، بورہ بنڈہ
جواب : نماز عید کا وقت سورج کے مکمل طلوع ہونے سے لیکر زوال شمس تک رہتا ہے جیسا کہ ردالمحتار میں ہے ۔ وقت صلاۃ العید من حین تبیض الشمس الی ان تزول اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی یہ ہی منقول ہے کہ آپ نماز عید اس وقت ادا فرمائے، جب سورج سوانیزہ پر ہوتا یعنی (بلند ہوتا) اور یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ عیدالاضحی میں جلدی کرنا اور عیدالفطر میں تاخیر مسنون ہے کیونکہ عیدالاضحی میں بعد نماز قربانی کرنی ہوتی ہے اور عیدالفطر میں صدقۂ فطر اداکرنا قبل نماز ہوتا ہے ۔

قرض حسنہ پر زکوٰۃ
سوال : میں نے ایک معقول رقم اپنے بہت ہی قریبی رشتہ دار کو بلا تعین مدت بطور قرض حسنہ دی ہے جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے ۔ چونکہ وہ رقم فی الوقت نہ میرے قبضے میں ہے ، نہ میرے مصرف میں ایسی صورت میں کیا اس رقم پر مجھ کو زکوٰۃ ادا کرنا پڑے گا یا نہیں۔ جلد از جلد رمضان المبارک میں جواب عنایت فرمائیں تاکہ میری الجھن دور ہوسکے ؟
قاری ، حیدرآباد
جواب : وجوب زکوٰہ کیلئے مال پر ’’ملک تام‘‘ ہونا شرط ہے۔ ’’ملک تام‘‘ سے مراد جس میں ملکیت اور قبضہ دونوں جمع ہوں ۔ اگر ملکیت بلا قبضہ یا قبضہ بلا ملکیت ہو تو اس صورت میں چونکہ ملک تام نہیں زکوٰۃ واجب نہیں۔ پس بلا تعین مدت دیا گیا قرض حسنہ چونکہ فی الوقت قبضہ و تصرف میں نہیں اس لئے اس پر فی الحال زکوٰۃ واجب نہیں۔

معتکف پوری مسجد میں جہاں چاہے سویا بیٹھ سکتا ہے
سوال : حالت اعتکاف میں جس مخصوص کو نہ میں پردہ لگاکر بیٹھا جاتا ہے کیا دن کو یا رات کو وہاں سے نکل کر مسجد کے کسی پنکھے کے نیچے سو سکتا ہے یا نہیں ؟ معتکف کسے کہتے ہیں اس مخصوص کو نہ کو جس میں بیٹھا جاتاہے یا پوری مسجد کو معتکف کہا جاتا ہے ؟ اور بعض علماء سے سنا ہے کہ دوران اعتکاف بلا ضرورت گرمی دور کرنے کیلئے غسل کرنابھی درست نہیں ، کیا یہ صحیح ہے؟ اور اگر بحالت ضرورت مسجد سے نکل کرجائے اور کسی شخص سے باتوں میں لگ جائے تو کیا ایسی حالت میںاعتکاف ٹوٹے گا یا نہیں؟
خلیل الرحمن، ملے پلی
جواب : مسجد کی خاص جگہ جو اعتکاف کیلئے تجویز کی گئی ہو اس میں مقید رہنا کوئی ضروری نہیں بلکہ پوری مسجد میں جہاں چاہے دن کو یا رات کو بیٹھ سکتا ہے اور سو سکتا ہے ، ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے غسل کی نیت سے مسجد سے نکلنا جائز نہیں، البتہ اسکی گنجائش ہے کہ کبھی استنجا وغیرہ کے تقاضے سے باہر جائے تو وضو کے بجائے دو چار لوٹے پانی کے بدن پر ڈال لے ، معتکف کو ضروری تقاضوں کے علاوہ مسجد سے باہر نہیں ٹھہرنا چاہئے ، بغیر ضرورت کے اگر گھڑی بھر بھی باہر رہاتو امام صاحبؒ کے نزدیک اعتکاف ٹوٹ جائے گا اور صاحبینؒ کے نزدیک نہیں ٹوٹتا، حضرت امامؒ کے قول میں احتیاط ہے اور صاحبینؒ کے قول میں وسعت اور گنجائش ہے۔

جمعتہ الوداع کا روزہ فوت شدہ روزوں کا کفارہ ہے؟
سوال : بعض لوگ کہتے ہیں کہ جمعتہ الوداع کا روزہ رکھنے سے پہلے تمام روزے معاف ہوجاتے ہیں کیا یہ صحیح ہے ؟
سید احتشام علی، بی ایچ ای ایل
جواب : بالکل غلط اور جھوٹ ہے۔ پورے رمضان کے روزے رکھنے سے بھی پچھلے روزے معاف نہیں ہوتے بلکہ ان کی قضا واجب ہے ۔ شیطان نے اس قسم کے خیالات لوگوں کے دلوں میں اس لئے پیدا کئے ہیں تاکہ وہ فرائض بجا لانے میں کوتاہی کریں۔ ان لوگوں کو اتنا تو سوچنا چاہئے کہ اگر صرف جمعتہ الوداع کا ایک روزہ رکھ لینے سے ساری عمر کے روزے معاف ہوتے جائیں تو ہر سال رمضان کے روزوں کی فرضیت تو نعوذ باللہ ایک فضول بات ہوئی۔

زکوٰۃ قسط واری ادا کرنا
سوال : اگر کوئی عورت اپنی کل رقم یا سونا جو اس کے پاس ہے اس پر سالانہ زکوٰۃ نکالتی ہو بلکہ ہر مہینہ کچھ نہ کچھ کسی ضرورت مند کو دے دیتی ہو کبھی نقد رقم کبھی اناج وغیرہ اور وہ اس کا حساب بھی اپنے پاس نہ رکھتی ہو تو اس کا ایسا کرنا زکوٰۃ دینے میں شمار ہوگا یا نہیں؟
علی محی الدین، تاربن
جواب : زکوٰۃ کی نیت سے جو کچھ دیتی ہے اتنی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی لیکن یہ کیسے معلوم ہوگا کہ ان کی زکوٰۃ پوری ہوگئی یا نہیں۔ اس لئے کہ حساب کر کے جتنی زکوٰۃ نکلتی ہو وہ ادا کرنی چاہئے ۔ البتہ یہ اختیار ہے کہ اکٹھی دے دی جائے یا تھوڑی تھوڑی کر کے سال بھر میں ادا کردی جائے ۔ مگر حساب رکھنا چاہئے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ زکوٰۃ ادا کرتے وقت زکوٰۃ کی نیت کرنا ضروری ہے جو چیز زکوٰۃ کی نیت سے نہ دی جائے اس سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی ۔ البتہ اگر زکوٰۃ کی نیت کر کے کچھ رقم الگ رکھ لی اور پھر اس میں سے وقتاً فوقتاً دیتے رہے تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔