گدڑی میں لعل

جاویدہ بیگم ورنگلی
شوکیس میں رکھا ہوا لعل دیکھنے والوں کی نگاہوں کا مرکز بنتا ہے اور زیور لگا ہوا لعل پہننے والے کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیتا ہے، مگر گدڑی کا لعل لوگوں کی نظروں سے چھپا ہوا گدڑی میں ہی پڑا رہتا ہے اور وقت کے پردے میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ نہ اس کا کوئی جاننے والا ہوتا ہے اور نہ اس کا کوئی قدر داں ہوتا ہے، جو لعل ہوکر بھی کنکر پتھر کی طرح بے وقعت ہوکر رہ جاتا ہے۔ دنیا میں ایسے بھی خوش نصیب لوگ ہیں، جو کنکر پتھر کی طرح بے وقعت ہوتے ہیں، مگر لعل کی طرح قدر و قیمت کا مقام پاتے ہیں اور دنیا میں ایسے بدنصیب بھی ہوتے ہیں، جو اپنے اندر ہزاروں خوبیاں رکھتے ہوئے بھی کوئی عزت و مقام نہیں پاتے۔ یہ قسمت کے کھیل ہوتے ہیں۔ ایک ہی درخت پر کھلنے والا پھول سر کی زینت بھی بنتا ہے اور اسی درخت کا پھول پیروں تلے روندا بھی جاتا ہے، جب کہ رنگ روپ اور خوشبو میں دونوں پھولوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اسی طرح انسانوں میں بھی کوئی شخص عزت و مرتبہ پاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ شخص کسی خاص خوبی کا مالک ہے اور بجا طورپر مقام و مرتبہ کا مستحق ہے اور وہ لوگ جو گمنامی میں زندگی گزارکر خاموشی سے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، وہ کسی خوبی کے مالک نہیں تھے۔ دراصل انسان کی عظمت اس کا کردار ہوتا ہے اور یہ عظمت قیامت کے دن اس کے پلڑے کو وزنی کردے گی۔ اس دن گدڑی کا لعل اللہ تعالی کے نزدیک جو اعزاز پائے گا، اس کو تاج میں لگا ہوا لعل بڑی حسرت سے دیکھے گا۔

وہ ایک آٹو رکشا والا تھا، جب کرایہ میں اس کو نوٹ دیا گیا جس کا چلر اس کے پاس نہیں تھا۔ جب باقی پیسے لئے بغیر اس کو جانے کا اشارہ کیا گیا تو بے اختیار اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ جب رونے کی وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگا: ’’میری ماں عثمانیہ دوا خانہ میں شریک ہے، وہ شوگر کی مریضہ ہے، اس کے پیر پر پھوڑا ہو گیا ہے، جو مندمل نہیں ہو رہا ہے، آج وہ پیر کاٹ دیا جانے والا ہے۔ اس وقت ایک ایک روپیہ میرے لئے قیمتی ہے، میں یہاں سے سیدھا دوا خانہ جاؤں گا‘‘۔
ماں، ماں ہوتی ہے، آٹو رکشا والے کی ماں ہو یا کار نشین کی ماں۔ تسلی اور دلاسہ دے کر آٹو والے کو رخصت کردی۔ اتفاق سے کچھ دنوں بعد وہی آٹو والا پھر ملا، جب اس سے اس کی ماں کی خیریت پوچھی تو کہنے لگا: ’’ماں کا پیر کاٹ دیا گیا، ماں کو اپنے گھر لایا ہوں، مگر میری بیوی ماں کے ساتھ رہنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس کا تقاضہ ہے کہ ماں کو گھر میں نہ رکھو۔ اگر میں اپنی ماں کو گھر میں رکھوں گا تو وہ تین بچوں کو چھوڑکر میکے چلی جائے گی۔ جب میں ماں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوا تو وہ بچوں کو چھوڑکر میکے چلی گئی۔ اب میں صبح سویرے اٹھ کر کھانا تیار کرتا ہوں اور ماں و بچوں کو کھلا پلاکر آٹو لے کر گھر سے نکلتا ہوں۔ گھر سے نکلتے وقت محلہ کی ایک عورت کو ماں کی خدمت کے لئے چھوڑ دیتا ہوں اور اس عورت کو اس خدمت کے عوض کچھ پیسے دے دیتا ہوں‘‘۔

ایک غریب آٹو والا ماں کی خدمت کے لئے ایک خدمت گار رکھتا ہے، مگر دولت مند لوگ اپنے لئے ایک نہیں کئی خدمت گار رکھتے ہیں اور اپنی ماں کو کسی خصوصی توجہ کا مستحق نہیں سمجھتے اور نہ ماں پر کوئی توجہ دیتے ہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں، جن کے والدین بے رخی کا شکار ہوکر مظلومیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بہت سے ماں باپ ایسے ہیں، جن کی اولاد انھیں اولڈ ایج ہوم پہنچاکر یہ سمجھ رہی ہے کہ ہم نے ماں باپ کا حق ادا کردیا۔ بہت سے ماں باپ ایسے بھی جو بڑی بیکسی اور لاچاری کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں اور محلہ والے ان کو آخری منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔ پھر جب اولا اپنے سارے کام نمٹاکر آتی ہے تو قبر پر دو آنسو بہاکر یہ سمجھتی ہے کہ ہم نے ماں باپ کا حق ادا کردیا۔
تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ اس آٹو والے کا فون آیا، جو روتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ’’بی بی! میری ماں کا انتقال ہو گیا، میری ماں کے لئے دعا کریں، اسی لئے آپ کو فون کیا ہوں، آپ کچھ خیال نہ کرنا۔ بی بی! میں ماں کے لئے کیا کروں؟ میں ماں کی خدمت کرنا چاہتا تھا، عید کے دن ماں کے لئے نئے کپڑے خریدکر لایا اور ماں کو پہنایا، لیکن دو دن کے بعد وہ مجھے چھوڑکر چلی گئی۔ بی بی! بتائیے کہ میں ماں کے لئے کیا کروں؟‘‘۔ اس کی تڑپ دیکھ کر میرا بھی دل تڑپ اٹھا، بے اختیار آنکھوں میں آنسو آگئے، آٹو والے کو صبر کی تلقین اور مرحومہ کے لئے دعائے مغفرت کی۔

انسان پر ماحول کا اثر رہتا ہے، اگر کسی تقریب سے واپسی ہو تو تقریب کے تعلق سے ہی گفتگو ہوتی رہتی ہے، اگر اجتماع گاہ سے واپسی ہو تو دین موضوع گفتگو بنا رہتا ہے۔ اجتماع سے واپسی ہو رہی تھی، گفتگو کا موضوع تھا کہ خواتین میں کس طرح بیداری پیدا کی جائے کہ ان کو اپنی اہمیت اور اپنی ذمہ داری کا احساس ہو، ہم ایک آٹو میں سفر کر رہے تھے اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ آٹو والا شاید ہماری گفتگو کو دلچسپی سے سن رہا تھا، وہ کہنے لگا: ’’بی بی! خواتین میں یہ کام ہونا بے حد ضروری ہے، یہ عورتیں تو زندگی دوبھر کردیتی ہیں، گھر جانا مصیبت کو دعوت دینا ہوتا ہے۔ رات میں بڑی دیر تک آٹو چلاتا ہوں، رات کے دو تین بجے گھر جاتا ہوں، اس کے باوجود دو گھنٹے بھی سکون سے سو نہیں سکتا۔ بی بی! آپ لوگ بتائیے کہ ماں باپ کا اولاد پر کیا کوئی حق نہیں ہوتا؟۔ بیوی کو اس کا حق دیتا ہوں، اس کی ہر فرمائش پوری کرتا ہوں، مگر وہ خوش نہیں رہتی۔ وہ نہیں چاہتی کہ میں ماں باپ کی کچھ پیسوں سے مدد کروں۔ میں زیادہ محنت کرکے کچھ پیسے ماں باپ کو دیتا ہوں، لیکن یہ بات اس کو پسند نہیں ہے، اس بات پر روز جھگڑا ہوتا ہے۔ بیوی کو چھوڑ نہیں سکتا کہ وہ میرے بچوں کی ماں ہے اور ماں باپ کو بے بسی و مجبوری کی حالت میں دیکھ نہیں سکتا کہ میں ان کی اولاد ہوں۔ یہ ایسا مسئلہ ہے، جس کا حل میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ بی بی! آپ لوگ مشورہ دیجئے کہ میں کیا کروں؟‘‘۔

ہماری چلتی ہوئی زبانیں بند ہو گئیں، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دیں۔ یہ مسئلہ صرف آٹو والے کا ہی نہیں ہے، بلکہ اب یہ ایک سماجی مسئلہ بن چکا ہے۔ ہم کو خاموش دیکھ کر آٹو والا کہنے لگا: ’’یہ دنیا کی زندگی کے چار دن روکر گزاریں یا ہنس کر، بہرحال گزر ہی جائیں گے۔ اللہ تعالی میری محنت کا صلہ ضرور دے گا، ماں باپ کی دعائیں میرے لئے آخرت میں دوزخ سے نجات کا ذریعہ بنیں گی‘‘۔ ہماری زبان سے نکلا ’’انشاء اللہ!‘‘۔ پھر وہ کہنے لگا: ’’بی بی! ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ شادی کے بعد لوگ اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں کو کس طرح بھول جاتے ہیں؟۔ جن ماں باپ کی گود میں پلے بڑھے اور جوان ہوئے، جن بھائی بہن کے ساتھ زندگی کے تقریباً ۲۵،۳۰ سال گزارے، بی بی! سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی مرد، عورت کی باتوں میں آکر ماں باپ جیسی محبت کرنے والی شفیق ہستیوں کو کس طرح بھلا سکتا ہے؟ سوائے اس کے جس نے اپنے ہوش و حواس کھو دیئے ہوں۔ دراصل نفس کا غلام بن کر انسان اپنے ہوش کھو دیتا ہے، کوئی نفس کا غلام بنے بغیر اپنے ماں باپ کو بھول ہی نہیں سکتا۔ یہ بات میں دعوے سے کہتا ہوں، میری زندگی اس کی گواہ ہے۔ بیوی کے رات دن کے جھگڑے نے جینا حرام کر رکھا ہے، لیکن ماں باپ کے سلسلے میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکے۔ آج بھی میں ماں باپ کا وہی سعادت مند بیٹا ہوں، جو شادی سے پہلے تھا۔ ماں باپ کے وجود کو اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت سمجھتا ہوں، رات دن ان کی صحت و سلامتی کے لئے دعا کیا کرتا ہوں۔ بی بی! آپ لوگ سوچ رہی ہوں گی کہ یہ آٹو والا بڑی بڑی باتیں کر رہا ہے، مجھے معاف کرنا، میرا دل بڑا دکھی ہے۔ جب بھی ماں باپ کے ساتھ اولاد کے غلط رویہ کو دیکھتا ہوں تو بڑا افسوس ہوتا ہے۔ ان نادانوں کو جنت میں جانے کا اتنا بہترین موقع ماں باپ کی صورت میں ملا، مگر یہ بدنصیب اس کو کھو رہے ہیں۔ ہم غریب تو غربت کے مارے ہوتے ہیں، یہ دولت مند جو ماں باپ کو پھولوں کی سیج پر سلاسکتے تھے، خوشیوں کے جھولے میں جھلا سکتے تھے، مگر یہ لوگ ماں باپ کا وجود بھی گھر میں برداشت کرنے تیار نہیں ہیں، جب کہ گھر میں دوست احباب کا تانتا لگا رہتا ہے۔ جب یہ لوگ دوستی نبھا سکتے ہیں تو آخر رشتہ داری کیوں نہیں نبھا سکتے؟‘‘۔
آٹو والا سوال پر سوال کر رہا تھا، غالباً یہ سوچ کر کہ یہ پڑھی لکھی بیبیاں ہیں، ان کے لئے جواب دینا مشکل نہیں ہوگا۔ ہم فر فر ان تمام آیتوں کو سناکر آٹو والے کو مرعوب کرسکتے تھے، مگر وہ ان آیتوں کو سن کر سوال کرسکتا تھا کہ ان آیتوں کو صرف سننا اور سنانا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ ان پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب دینا آج ہمارے لئے سب سے مشکل بن گیا ہے۔