گجرات پولیس کی سرزنش

احمدآباد۔30اگست ( سیاست ڈاٹ کام ) صرف ایک معمولی واقعہ جس کی ویڈیو سے یہ معلوم ہوا کہ عوام کی حفاظت کرنے والے پولیس عملہ خود ظلم میں ملوث پائے گئے جس کی بناء 11پولیس اہلکاروں کو مرکزی حکومت کے حکم پر معطل کردیا گیا جو ایک خوش آئندہ اقدام کہلائے گا لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ صرف ایک پٹیل برادری کی جانب سے ان کے مطالبات کیلئے کیا گیا ۔ احتجاج جو ایک فساد کی شکل اختیار کرلیا اور پولیس ان کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے فائرنگ ‘ اس کے ساتھ ساتھ عوامی املاک کا نقصان کرتے دکھائی دیئے جس کا سخت نوٹ لیتے ہوئے انہیں معطل کردیا گیا اور جب منظم طریقہ سیجس میں حکومت کا تعاون بھی حاصل تھا اور ایک فرقہ کو نشانہ بناتے ہوئے ان کا قتل عام اور ان کے املاک کو نظرآتش کردیا گیا لیکن مرکزی حکومت صرف تماشائی کی طرح دیکھتی رہی ‘ خاطیوں کو سزا کے بجائے ان کی پشت پناہی اور بجائے برطف کرنے کے انہیں اعلیٰ عہدوں پر طرقی دی گئی ‘ یہ دہرہ معیار کیوں؟ اس معمولی واقعہ کی ویڈیو الکٹرانک میڈیا ‘ فیسبک و اسٹاپ پر خوب تشریح کی گئی اور 2002 میں رونما اقلیتی قتل عام کی ویڈیو بھی عوام اور الکٹرانک میڈیا کے پاس محفوظ ہے ۔ اس وقت کے پولیس اہلکاروں نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں تین دن کی کھلی چھوٹ دی گئی تھی جو چاہے کریں۔ مرکزی حکومت اس وقت کچھ نہیں کرسکی تھی اور اس وقت کسی قسم کی کارروائی ناممکن ہے اس لئے اپوزیشن اور خاص کر سیکولر ذہنیت رکھنے والے سیاستدانوں کو چاہیئے کہ اس واقعہ کے خلاف آواز بلند کریں کیونکہ وزیراعظم کے عالمی دوروں پر ابھی بھی احتجاج کیا جاتا ہے ‘ممکن ہے عدالت بھی اپنی رائے تبدیل کریں اور خاطیوں کو سزا ملے ۔