گجرات میں مودی حکومت کے دوران 25000 کروڑ روپئے کی غیر قانونی معاملتیں

سورت ۔ 30 ۔ جولائی (سیاست ڈاٹ کام) کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا (CAG) کی جانب سے تیار کی گئی آڈٹ کی پانچ رپورٹس میں ریاست گجرات میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی میعاد کے آخری مرحلہ میں جن ترقیاتی کاموں اور ما لیاتی نظام کے بلند بانگ دعوے کئے گئے ہیں ان دعوؤں پر اس وقت شکوک و شبہات کے بادل منڈلانے لگے ہیں جب رپورٹس میں 25000 کروڑ روپئے کی متنازعہ معاملتوں کا انکشاف ہوا ہے جس سے ریاست گجرات کے قرضہ جات کے بوجھ میں اضافہ درج ہوا ہے ۔ جہاں دیگر معاملتوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہیں خصوصی طور پر سی اے جی نے حکومت گجرات کے 5570 کروڑ روپئے کے اضافی محصول برائے 2012-13 ء کو بھی مشکوک قرار دیتے ہوئے رقم کو بڑھا چڑھا کر پیش کئے جانے کا اپنی رپورٹ میں تذکرہ کیا ہے ۔

ریاست گجرات کے بجٹ سیشن کے آخری دن سی اے جی کی رپورٹس پیش کی گئی تھیں جہاں تمام اپوزیشن ارکان کو ان کے واک آؤٹ سے قبل ہی معطل کردیا گیا تھا ۔ سی اے جی کی رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ حکومت گجرات نے گرانٹ ۔ ان امداد کی حد میں 881 کروڑ روپئے کے اضافی اخراجات اور سبسیڈی کے شعبہ میں 202.27 کروڑ روپئے کے اضافی اخراجات کے ذریعہ محصول کی اضافی رقم کو 1088.57 کروڑ روپئے تک پہنچادیا ہے ۔ رپورٹ میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ 31 مارچ 2013 ء تک 2667 ء کروڑ روپئے کے چیکس کو سرے سے بھنایا ہی نہیں گیا جس کا نتیجہ اخراجات کی حد میں اضافہ کی صورت میں سامنے آیا ۔

اسی طرح آڈٹ (محاسبہ) کرنے والے افسران جنہیں بے حد چالاک تصور کیا جاتا ہے ، نے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے جب گجرات میں بی جے پی کی کیشو بھائی پٹیل حکومت کے دوران ریاست کے قرضہ جات کا بوجھ 50,000 کروڑ روپئے تھا لیکن نریندر مودی کے برسر اقتدار آتے ہی 2008-09 ء میں قرضہ جات کا بوجھ 1.05 لاکھ کروڑ روپئے اور 2012-13 ء میں 1.66 لاکھ کروڑ روپئے ہوگیا جس کے بعد آڈیٹرس نے انتباہ دیا ہے کہ مالیاتی بوجھ آگے چل کر طویل مدتی بوجھ میں بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔