گاندھی جی اور آر ایس ایس کی متضاد قوم پرستی

رام پنیانی
آر ایس ایس کی طرف سے مسلسل کوششیں یہ دکھانے کی ہورہی ہیں کہ مہاتما گاندھی آر ایس ایس کو احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اس سمت میں تازہ ترین کوشش آر ایس ایس جوائنٹ جنرل سکریٹری شری منموہن ویدیا کی تحریر ہے۔ (دی مہاتما اینڈ دی سنگھ، 12 اپریل 2019ء)۔ ویدیا نے اول کوشش میں خود کو گوڈسے سے لاتعلق بتاتے ہوئے بیان کیا کہ اندرون سنگھ پریوار گاندھی کے بارے میں منعقدہ کئی مباحثوں میں وہ شریک ہوئے اور گوڈسے کا تذکرہ کبھی نہیں آیا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ گوڈسے کا آر ایس ایس سے کوئی تعلق نہ رہا؟ وہ آر ایس ایس کا پرچارک تھا اور بعد میں ہندو مہاسبھا میں اس کی پونے برانچ کے سکریٹری کی حیثیت سے شامل ہوا۔ اُس کے بھائی گوپال گوڈسے یعنی ناتھورام کا چھوٹا بھائی اور قتل کے منصوبہ کا شریک سازشی، اس نے 1994ء میں انکشاف کیا تھا کہ اُس کا بڑا بھائی آر ایس ایس کو بچانے بے چین تھا، جو ’’ہمارے لئے فیملی کی مانند‘‘ رہی تھی۔ ’’]ناتھو رام[ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ آر ایس ایس چھوڑ چکا تھا‘‘۔ گوپال نے یہ بھی کہا: ’’اُس نے ایسا اس لئے کہا کیونکہ آر ایس ایس گاندھی کے قتل کے بعد بہت مصیبت میں پڑگیا تھا۔ لیکن اُس نے آر ایس ایس نہیں چھوڑا تھا‘‘۔ گوپال نے اپنے بھائی کی کبھی نہ ٹوٹی آر ایس ایس رکنیت سے انکار کرنے والوں کی ’’بزدلی‘‘ کی مذمت کی۔ گوپال کے بیان کی توثیق کرتے ہوئے بااثر موافق آر ایس ایس اسکالر ڈاکٹر کنراڈ ایلسٹ نے اپنی 2001ء کی کتاب ’گاندھی اینڈ گوڈسے‘ میں لکھا کہ ’’ناتھورام نے ہوشیاری سے ایسا تاثر پیدا کیا کہ آر ایس ایس کا اُس کے ساتھ معمولی تعلق رہا، جو بس قتل کے بعد کے مشکل دور میں آر ایس ایس کیلئے مزید پریشانی کو ٹالنے کیلئے کیا گیا۔‘‘
مسٹر ویدیا نے آرٹیکل کے شروع میں ہی گاندھی کے تئیں اپنی مخالفت واضح کردی۔ ’’…اُن سے اختلاف رکھنے اور مسلم کمیونٹی میں موجود انتہاپسند اور جہادی عناصر کے آگے اُن کی بے بسی کے باوجود آر ایس ایس نے اُن کو سراہا… (گاندھی)۔ تاریخ کو یوں توڑنا مروڑنا دانستہ کوشش ہے تاکہ ویدیا اور اُن کے آر ایس ایس کی پیش کردہ ہندو قوم پرستی کو آگے بڑھایا جاسکے۔ جہاں مسلمانوں میں ہی مسلم قوم پرست تھے جن کو گاندھی نے ناپسند کیا، وہیں انھوں نے مسلمانوں کے بڑے طبقے کو ہندوستانی قوم پرستی کی طرف مائل کیا۔ گاندھی کی قیادت میں تحریک آزادی میں حصہ لینے والے مسلمانوں کو انتہاپسند یا جہادی کہنا نہ صرف سچائی کو بدل دینا ہے؛ بلکہ یہ آر ایس ایس کا نظریہ ہے جہاں مسلم کو بیگانہ، خارجی، درانداز اور دہشت گرد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ آر ایس ایس نظریہ کی یہی جڑ ہے جس نے گوڈسے کو مہاتما کے سینے میں تین گولیاں داغنے پر اُکسایا۔ ویدیا کچھ ایسی تصویر پیش کررہے ہیں کہ جیسے آر ایس ایس تحریک آزادی کا حصہ تھا۔ وہ بتا رہے ہیں کہ بانی آر ایس ایس ڈاکٹر کے بی ہیڈگوار نے 1921ء کی عدم تعاون اور 1930ء کی شہری نافرمانی کی تحریک میں حصہ لیا تھا۔ ایک طرف ہیڈگوار نے تحریک عدم تعاون میں حصہ لیا اور دوسری طرف وہ اس کے اثر کے تعلق سے کٹر ناقد تھے۔
’’مہاتما گاندھی کی تحریک عدم تعاون کے نتیجے میں ملک میں جوش و خروش ماند پڑرہا تھا اور سماجی زندگی کی برائیاں جو اس تحریک سے پیدا ہوئیں، خطرناک انداز میں سر اٹھا رہی تھیں۔‘‘ اُن کے مطابق ’’اس تحریک کے سبب ہی برہمن۔ غیربرہمن جھگڑا بُری طرح آشکار ہوا‘‘۔ (سی پی بھشیکر، کیشو سنگھ نرماتا، پونے 1979ء، صفحہ 7)۔ یقینا بانی آر ایس ایس کی جانب سے یہ شراکت خالصتاً شخصی طور پر ہوئی اور آر ایس ایس نے کبھی آرگنائزیشن کی حیثیت سے کسی بھی مخالف سامراج تحریک میں حصہ نہیں لیا۔ 1930ء میں (آر ایس ایس کی تشکیل 1925ء میں ہوئی) ہیڈگوار نے ان کی حوصلہ شکنی کی جو انگریزوں کے خلاف تحریک میں حصہ لینے کے خواہاں تھے۔ اور 1942ء میں اُن کے جانشین نے بھی آر ایس ایس والنٹیرز کو 1942ء کی ہندوستان چھوڑو تحریک میں حصہ لینے سے منع کردیا۔ گولوالکر نے آر ایس ایس کو یاددہانی کرائی کہ انگریزوں کے خلاف لڑنا اُن کے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے۔ آر ایس ایس کے نظریہ ساز نے واضح طور پر بیان کیا کہ برٹش کے خلاف لڑنا ان کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔ ’’ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے عہد میں ہم نے مذہب اور کلچر کا دفاع کرتے ہوئے ملک کی آزادی کی بات کہی ہے، انگریزوں کی یہاں سے روانگی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔‘‘ (ماخوذ: شری گروجی سماگرا درشن، جلد IV، صفحہ 40)۔
جہاں تک آر ایس ایس کے بارے میں گاندھی کے خیالات کا تعلق ہے، بعض منتشر تاثرات ملتے ہیں، لیکن ان سے واضح سمجھ آجاتا ہے کہ وہ آر ایس ایس کے تعلق سے کیا رائے رکھتے تھے۔ اس معاملے میں معتبر ذرائع ہیں جو ہمیں حقیقی باتیں بتاتے ہیں۔ 9 اگست 1942 ء کو ’ہریجن‘ میں گاندھی لکھتے ہیں، ’’میں نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اس کی سرگرمیوں کے بارے میں سنا ہے؛ اور یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ فرقہ پرست تنظیم ہے‘‘؛ یہ ردعمل تھا اُن نعروں اور بعض تقاریر کا جو ’دیگر‘ کمیونٹی کے خلاف سننے میں آئے، جن کے تعلق سے شکایت کی گئی تھی۔ ساتھ ہی گاندھی نے آر ایس ایس والنٹیرز کی ڈرل کا حوالہ دیا، جو چلایا کرتے کہ یہ قوم (ملک) صرف ہندوؤں کا ہے اور جیسے ہی انگریز چلے جائیں ہم غیرہندوؤں کو تابع بنائیں گے۔ فرقہ پرست تنظیموں کی غنڈہ گردی پر گاندھی نے لکھا، ’’میں آر ایس ایس کے تعلق سے کئی باتیں سن رہا ہوں۔ مجھے معلوم ہوا کہ سنگھ ہی تمام تر شرپسندی کی جڑ ہے۔‘‘ (گاندھی، xcviii، 320-322)
آر ایس ایس کے بارے میں گاندھی کی رائے کے تعلق سے محفوظ ریکارڈ میں سب سے معتبر اُن کے سکریٹری پیارے لال کا بیان ہے۔ وہ 1946ء کے فسادات کے تناظر میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ گاندھی کے قافلے میں شامل ایک ممبر نے واگھا میں جو پنجاب کے پناہ گزینوں کیلئے بڑا ٹرانزٹ کیمپ تھا، وہاں آر ایس ایس کیڈر کی جانب سے سخت محنت، ڈسپلن، جرأت مندی وغیرہ کی تعریف کی، جس پر گاندھی نے فوری ردعمل ظاہر کیا، ’’مگر یہ نہ بھولیں، ایسی خصوصیات تو ہٹلر کے نازیوں اور مسولینی کی حکمرانی میں فسطائیوں میں بھی تھیں‘‘۔ گاندھی نے آر ایس ایس کو ’کمیونل باڈی‘ کے زمرہ میں رکھا جس کا مطلق العنان نظریہ ہے۔ (پیارے لال، مہاتما گاندھی: دی لاسٹ فیز، احمدآباد، صفحہ 440)۔
آزادی کے بعد دہلی میں تشدد کے تناظر میں (راج موہن گاندھی، موہن داس، صفحہ 642)، گاندھی نے آر ایس ایس سربراہ گولوالکر کو طلب کیا کیونکہ دہلی کے تشدد میں آر ایس ایس کا ہاتھ ہونے کی رپورٹس سامنے آئی تھیں۔ ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے گولوالکر نے یہ بھی کہا تھا کہ آر ایس ایس کا موقف مسلمانوں کو ہلاک کرنا نہیں ہے۔ گاندھی نے اُن سے کہا کہ یہی بات سرعام کہیں۔ گولوالکر نے کہا کہ گاندھی خود اُن کے حوالہ سے یہ بات کہہ دیں۔ اسی شام اپنی مذہبی نوعیت کی نشست میں گاندھی نے گولوالکر کے حوالہ سے وہی بات کہہ دی، لیکن انھوں نے گولوالکر سے دوبارہ کہا کہ یہ بیان اُن کی طرف سے آنا چاہئے۔ بعد میں گاندھی نے نہرو سے کہا کہ انھیں گولوالکر کی باتوں سے تشفی نہیں ہوئی۔
لہٰذا، آج جب گاندھی اور گوڈسے کے درمیان کسی کو منتخب کرنے کے تعلق سے سوال اٹھایا جارہا ہے ، یہ باور کرایا جارہا ہے کہ گاندھی کی مشمولاتی ہندوستانی قوم پرستی اور خاص ہندو قوم پرستی کے درمیان انتخاب کرنا ہے۔ خاص ہندو قوم پرستی کو آر ایس ایس کا سیاسی شعبہ (بی جے پی) آگے بڑھا رہا ہے، اور گوڈسے ہندو قوم پرستی کی علامت ہے، جو مجموعی طور پر آر ایس ایس پریوار کا ایجنڈہ ہے!
ram.puniyani@gmail.com