گائے کی کہانی گائے کی زبانی

محمد ریاض احمد

میرے پیارے ہندوستانیو، آجکل ہندوستان میں کسی لیڈر ، کسی فلم اداکار، اداکارہ یا کھلاڑی کے چرچے نہیں بلکہ ہر طرف میرے ہی چرچے ہیں۔ نجی محفلوں میں لوگ میرے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔ ٹی وی چینلوں پر اینکر اور مہمان میری اہمیت و افادیت اور میرے نام پر مچائے جارہے ہنگاموں پر مباحث کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اخبارات و رسائل میں بھی میرے تعلق سے ہی صفحات سیاہ کئے جارہے ہیں۔ کبھی مجھے مودی کے ساتھ تو کبھی یوگی آدتیہ ناتھ کو میرے سامنے ہاتھ جوڑے دکھایا جارہا ہے۔ میرے ساتھ مکار و عیار سیاسی قائدین سیلفی بھی لینے لگے ہیں۔اخبارات و ٹی وی چینلوں کے علاوہ انٹرنیٹ پر میری ایسی تصاویر بھی اَپ لوڈ کی گئی ہیں جس میں کچھ بے وقوف اور عقل کے اندھوں کو میرے پچھواڑے میں برتن لئے بڑی بے چینی سے کھڑا دیکھا جاسکتا ہے۔ پیارے ہندوستانیو، آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ آخر میں کون ہوں، اگر اب بھی نہ سمجھ پائے تو میں آپ کو بتادوں کہ میں آپ کو آپ کے بیوی بچوں کو دودھ دیتی ہوں، ان کیلئے دہی، چھانچ، مسکہ، گھی اور پنیر وغیرہ کا انتظام کرتی ہوں۔ قدرت نے وٹامن سے بھرپور ان اشیاء کی فراہمی کا مجھے ذریعہ بننے کا شرف بخشا ہے۔ اب مجھے صد فیصد یقین ہے کہ آپ مجھے ضرور پہچان گئے ہوں گے… ارے… ڈھیر ساری علامتوں کے باوجود آپ نے مجھے اب بھی نہیںپہچانا، تعجب ہے۔ !!
چلیئے، اب میں آپ کو اپنے بارے میں جو بتاؤں گی کم از کم اس سے تو آپ مجھے ضرور پہچان لیں گے۔ پیارے ہندوستانیو آجکل میں قوم پرستی کے نام پر ملک میں درندگی کا مظاہرہ کرنے والے درندوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار بنی ہوئی ہوں، وہ مجھ جیسی غریب اور بے زبان کے بہانے انسانوں کو قتل کرنے  لگے ہیں۔ حال ہی میں راجستھان کے الور میں پہلو خان نامی ایک بے قصور مسلمان کو میری رکھشا کے نام پر ان غنڈوں نے بڑی بے دردی سے قتل کردیا۔ مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کرنے والے ان شر پسندوں نے میرے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کو بھی بدنام کیا ہے۔ یہ شرپسند عناصر صرف اور صرف دولت ، سستی شہرت اور سیاست میں مقام و مرتبہ کی خاطر ایسا کررہے ہیں۔ شاید اب آپ نے مجھے پہچان لیا ہوگا… ارے واہ، آپ لوگوں نے سچ پہچانا… میں ایک گائے ہوں، ہندوستانیوں کی اکثریت مجھے گاؤ ماتا کہتی ہے، مجھے Mother of Nation کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ آپ کو ایک راز کی بات بتادوں مرکز میں مودی جی نے جب سے اقتدار سنبھالا میری زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ میری کیا میری تمام بہنوں ( گائیوں ) کی زندگیوں میں بھونچال آگیا ہے۔ ملک کے سنگین حالات دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں۔ ہندوتوا کے ان کارندوں نے ہماری رکھشا کے نام پر سارے ملک میں گاؤ رکھشکوں کی شکل میں غنڈوں ، قاتلوں اور لٹیروں کا ایک جال پھیلا دیا ہے۔ اگرچہ انھیں ہماری رکھشا (حفاظت ) سے کوئی مطلب نہیں لیکن ہماری حفاظت کے نام پر وہ اپنی تجوریاں بھررہے ہیں، ہم سے جھوٹی ہمدردی کے باعث گلی کا لیڈر دلی کا لیڈر بن رہا ہے۔ یوگی عہدہ چیف منسٹری پر فائز ہورہا ہے۔ سادھویوں کو وزارتیں عطا کی جارہی ہیں۔ ہمارے نام لے لے کر غنڈہ عناصر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہورہے ہیں۔ سیاسی و اخلاقی اقدار کو ملیا میٹ کرنے اور قانون کی دھجیاں اُڑانے والے پذیرائی کے حقدار قرار دیئے جارہے ہیں۔ پیارے ہندوستانیو آپ کو شاید پتہ نہیں کہ 2012 میں گائیوں کی آبادی کا پتہ چلانے کیلئے جو گائے شماری کی گئی تھی اس کے مطابق ہماری آبادی 12کروڑ بتائی گئی ہے۔ لیکن ہماری حالت اس ملک میں مسلمانوں اور دلتوں سے بھی ابتر ہے، یہ لوگ صرف ہمارے جسموں سے دودھ نچوڑ لیتے ہیں ہمیں گاؤ ماتا کہا جاتا ہے، ہماری عزت و احترام کے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن حقیقت میں اس ملک میں کبھی بھی ہمیں ماتا کا درجہ نہیں دیا، یہ نام تو حقیر سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے دیا گیا۔ اگر ہمیں حقیقت میں ماتا مانا جاتا، ہمارا احترام کیا جاتا تو آج ہندوستان کی سڑکوں پر 50لاکھ سے زائد گائے آوارہ نہیں پھرتی۔ بازاروں، سڑکوں، گلی کوچوں اور کوڑے دانوں میں سڑی گلی اشیاء پر اپنا منہ نہیں مارتی۔ ہم سے ہمدردی اور ہمارے احترام کے دعوے سب کے سب دکھاوا ہیں، جو عناصر ہمیں گاؤ ماتا کہتے ہیں ان کی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ خود کو جنم دینے والی ماں کا احترام نہیں کرتے اس لئے کہ جو انسان اپنی ماں کا احترام کرتے ہیں وہ کبھی کسی کی ماں کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے، وہ کسی پہلو خان مظلوم، انصاری، امتیاز خان، اخلاق احمد کو قتل نہیں کرسکتے۔
میرا گوشت رکھنے کے الزام میں مسلم خواتین کے ساتھ مارپیٹ نہیں کرسکتے اور نہ ہی ان کی عصمتوں پرہاتھ ڈال سکتے ہیں۔ یہ عناصر اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کے لئے مجھے ماتا تو کہہ دیتے ہیں لیکن میرے خاوند یعنی بیل کو باپ اور بیٹے بچھڑے کو بھائی کہنے سے شرماتے ہیں۔ اگر بیل سے بھی ان کے سیاسی مفادات کی تکمیل ہوتی تو یقینا وہ اسے ضرور پیتاجی کہتے۔ میرے پیارے ہندوستانیوں اس طرح کے عناصر کی زباں سے گاؤ ماتا جیسے الفاظ سن کر میری طرح میری بہنوں (دوسری گائیوں) کو ان لوگوں کی مکاری پر بے ساختہ ہنسی آجاتی ہے اور جب ہم مل بیٹھتی ہے تو قوم پرستی کے نام پر وطن اور اہل وطن کو دھوکہ دینے والوں کے موقف پر افسوس ظاہر کرتی ہیں۔ سب سے زیادہ حیرت تو ان انسانوں کا ہم جیسی جانوروں کو ماتا کہنے پر ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے سچ ہی کہا تھا کہ جانور انسان کی ماں اور باپ نہیں ہوسکتے۔ جسٹس کاٹجو نے ہندوستانیوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ تو انسان ہیں اور انسان تو اشرف المخلوقات ہوتا ہے۔ ہم جانور ہونے کے باوجود یہ ہرگز نہیں کہتے کہ ہماری دیکھ بھال کرنے، ہمیں چارہ دینے ، ہمیں آسرا فراہم کرنے والا انسان ہمارا باپ یا ہماری ماںہے اس لئے کہ انسان ، انسان ہوتا ہے اور جانور تو جانور ہوتا ہے ہاں ایک بات ضرور ہے کہ ہم جانور خاص کر گائے بیلوں میں ذات پات ، اونچ نیچ ، رنگ و نسل کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا ۔ انسانوں کی طرح ہم میں فرقہ پرستی، تعصب، جانبداری اور غرور و تکبر کی خطرناک بیماریا ں نہیں پائی جاتی۔ آج ملک میں میرے (گائے ) تحفظ کے نام پر انسانوںکا جو قتل کیا جارہا ہے اس پر مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ اس طرح کے واقعات سے میری بدنامی ہورہی ہے۔ لوگ مجھے ایک شریف النفس جانور سمجھا کرتے تھے یہاں تک کے کسی نیک اور شریف النفس انسان کے بارے میں کچھ کہنے سے قبل یہی کہا جاتا تھا کہ ’’یہ تو اللہ میاں کی گائے ہے‘‘ ۔ میں نے ہمیشہ بلا لحاظ مذہب و ملت ، رنگ ونسل ہر کسی کی مدد کی۔ کسی کو دودھ دینے سے کبھی انکار نہیں کیا یہاں تک کہ اپنا گوشت دے کر بھی انسانوں کی غذائی ضرورتوں کی تکمیل کی۔ ملک کی بیشتر ریاستوں میں میرے ذبیحہ اور گوشت (بیف) کی فروخت پرپابندی عائد کردی گئی۔ میرے خاطر چھتیس گڑھ کے چیف منسٹر رمن سنگھ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کوئی گائے کو کاٹے گا ہم اسے پھانسی پر لٹکا دیں گے۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کے بعض چیف منسٹروں نے اسے جرم قرار دے کر انسانوں کو عمر قید کی سزا دینے کا اعلان کیا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے انہیں مجھ سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ صرف اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے وہ میری ہمدردی کا دم بھررہے ہیں۔ ان عناصر نے اپنی فرقہ پرستی اور عجیب و غریب حرکتوں سے سارے ملک میں ہندوستان کو موضوع مذاق بنادیا ہے۔ جہاں تک ہمارے گوشت کے کھانے کا سوال ہے ویدک ، رگ وید دور میں خود برہمن بڑے مزے لے لے کر میرا گوشت کھایا کرتے تھے۔ لیکن سرزمین ہند پر جب بدھ مت نے مقبولیت حاصل کرنی شروع کی اور برہمنیت کو خطرہ پیدا ہوگیا تب مذہب کے ٹھیکے داروں نے میرا استحصال شروع کردیا اور تب سے آج تک ہندوستان میں میرے نام پر ہر قسم کے فائدے حاصل کئے جاتے ہیں۔ خاص طورپر سیاسی میدان میں میرے نام پر کامیابی کے جھنڈے گاڑھے جارہے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ عام طورپر ہماری عمریں 15 تا 20 سال ہوتی ہیں۔ کسان دودھ دینے اور ہل چلانے کے قابل  رہنے تک ہمارا استعمال کرتے ہیں اس کے بعد ہمیں فروخت کرکے دوسرے جانور یا مشینوں کا انتظام کرلیا کرتے تھے لیکن اب ہمارے نام نہاد ہمدردوں نے قریش برادری کے ساتھ ساتھ کسانوں کی زندگیاں بھی تباہ کردی ہیں۔ یہ عناصر اقتدار کے زعم میں صرف غریب دلتوں اور مسلمانوں کو ڈرا دھمکا سکتے ہیں۔ ان کے قتل کرسکتے ہیں لیکن اُن ہندوسیٹھوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے جو نہ صرف ہمارا  گوشت ایکسپورٹ کرتے ہیں اس سے انہیں سالانہ تقریباً 5ارب ڈالرس کی آمدنی ہوتی ہے۔ دنیا میں جو بیف ایکسپورٹ کیا جاتا ہے اس کا 21 فیصد حصہ ہندوستان سے بھیجا جاتا ہے۔ اس پر بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے علاوہ گاؤ رکھشوں کو کوئی اعتراض نہیں وہ مسلمانوں اور دلتوں کو ہمارا گوشت کھاتے نہیں دیکھ سکتے ہاں اپنی ماتا کہہ کر ہمیں شرمندہ کرنے والے بیرون ملک ہمارے گوشت کی ایکسپورٹ کو بڑی خوشی سے برداشت کرلیتے ہیں۔ ہمارے ہندوستانی عوام اس قدر بھولے بھالے واقع ہوئے ہیں کہ مذہب کے نام پر انہیں بآسانی بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔ سیاسی قائدین ایسا ہی کرتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ میرے نام پر عوام کو بے وقوف بنانے والوں نے اب یہ دعوے شروع کردیئے ہیں کہ میرے پیشاب میں سونا ، کاپر اور نمک ہوتا ہے۔ یہ کوئی گندگی نہیں بلکہ صحت کے لئے فائدہ مند مشروب ہے۔ حالانکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ پیشاب گندگی ہے اور اس میں بیکٹیریا اور صحت کے لئے مضر جراثیم اربوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم خود اپنے پیشاب سے دور رہتی ہیں کیونکہ اس سے Leptospirosis اور انفکشن والی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ ہمارا استحصال کرنے والوں نے تو اب ملک بھر میں ہمارے پیشاب کی فیکٹریاں کھول لی ہیں۔ لیباریٹریز بنالی ہے اور ہمارا بوتل بند پیشاب 20 تا 80 روپئے فی لیٹر کے حساب سے فروخت کیا جارہا ہے۔ یوگا گرو بابا رام دیو کی پتانجلی نے گاؤ موتر ٹانک کے علاوہ فینائل کی طرز پر گاؤ نائل فروخت کرنا شروع کردیا ہے۔ پتنجلی یومیہ 20 ٹن گاؤ نائل تیار کرتی ہے اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے گوبر کی کریمس (فیر نس کریمس) فروخت کی جانے لگیں گی۔ اس لئے کہ یہ لوگ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ شاید ساری دنیا میں ہمارے ان نام نہاد قوم پرستوں میں ہی یہ صلاحیت ہوگی کہ وہ جانور کا پیشاب اور پاخانہ (گوبر) فروخت کردیتے ہیں اور یہ سب کچھ عوام کے بھولے پن کا نتیجہ ہے۔ پیارے ہندوستانیوں ، ہندوستان میں  لاکھوں ضعیف مرد و خواتین آسرا کی تلاش میں ہے ان کے لئے تو بیت المعمرین ، تعمیر نہیں کئے جارہے ہیں اور حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ہمارے لئے کروڑ ہا روپئے کے مصارف سے شیڈس تعمیر کر رہی ہے۔ مودی حکومت کو ہم گائیوں کی اس طرح فکر لاحق ہے کہ اس نے ہمارے لئے عام ہندوستانیوں کی طرح 12 ہندسی آدھار کارڈ بنانے کا اعلان کردیا۔ اس پر 148کروڑ روپئے کے مصارف آئیں گے۔ پیارے ہندوستانیو اس کارڈ میں ہماری ذات، رنگ و نسل اور قد کا بھی اندراج ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی حکومت ہم جانوروں کو بھی ذات پات اور رنگ و نسل میں تقسیم کرنا چاہتی ہے لیکن ہم انسان کی طرح بے وقو ف نہیں جو مذہب ، ذات پات، رنگ و نسل ،علاقہ اور زبان کے نام پر بآسانی تقسیم ہوجاتے ہیں۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم گائیوں کو حق رائے بھی دے دیا جائے گا کیوں کہ ہم گاؤ ماتا جو ہیں۔ کاش ! حکومت اور سنگھ پریوار ہم جانوروں پر توجہ دینے کی بجائے ملک میں غربت کے خاتمہ پر توجہ مرکوز کرتی ۔ آپ کی اطلاع کے لئے بتادوں کہ ملک کی ایک تہائی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 30 فیصد ہندوستانیوں کی یومیہ آمدنی 1.90 ڈالرس ہیں۔ ہمارے ملک کے کم از کم 30 تا 40 فیصد غریب بچے ناقص غذا کا شکار ہے۔ ملک کوغربت کے ساتھ ساتھ ناقص غذا ، صحت، تعلیم، ناخواندگی، لا اینڈ آرڈر کے سنگین داخلی اور خارجی مسائل کا سامنا ہے۔ آج ہندوستانیوں کو میک ان انڈیا ،ڈیجیٹل انڈیا، اسٹارٹ اپ انڈیا، اسمارٹ سٹیز، اسکل انڈیا جیسے پراجکٹس سے کہیں زیادہ انسانیت انڈیا ، ہمدردی انڈیا، محبت و مروّت انڈیا، صبر و تحمل، عفو و درگذر انڈیا جیسے پاک جذبات پر مبنی پراجکٹسکی ضرورت ہے۔ ملک میں جب یہ جذبات پروان چڑھیں گے تب ہندوستان حقیقت میں ایک بڑی طاقت ہوگا۔
mriyaz2002@yahoo.com