گائے کی قربانی

سوال : ہندوستان میں آئے دن گائے کے گوشت کے مسئلہ پر ہندوستانی برادری میں تناؤ پیدا کیا جارہا ہے ، اس میں کوئی دورائے نہیں کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے ۔ ہندوستان میں کئی ہندو ایسے ہیں جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں اور کئی مسلمان ایسے ہیں جو گائے کا گوشت بالکل نہیں کھاتے ۔ جب کبھی ہندوستان میں گائے کے مسئلہ پر تناؤ کی صورت پیدا ہوئی اس میں مذہبی رنگ سے زیادہ سیاسی مفادات کارفرما رہے ہیں۔ غرض ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں گاؤ کشی پر امتناع نافذ ہے اور گائے کاٹنے پر جرمانہ اور جیل کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ ایسی صورتحال میں بقرعید کے موقع پر مسلمانوں کا گائے کاٹنا شرعاً کیسا ہے جبکہ اسی سال ہندوستان کے اطراف واکناف میں کئی مسلمانوں کو برسرعام قتل کیا گیا ۔ کئی ایک کو شدید زد و کوب کا نشانہ بنایا گیا۔ گرچہ اسلام میں گائے کاٹنے کی اجازت ہے لیکن کئی ریاستوں میں قانوناً اس پر امتناع عائد ہے اور اکثریتی طبقہ کے جنونی افراد اس کا فائدہ ا ٹھا رہے ہیںاور ان کے خلاف قانونی کارروائی میں دانستہ طور پر نرمی برتی جارہی ہے ۔
پس ان حالات میں بقرعید کے موقع پر گائے ذبح کرنا شرعاً کیسا ہے ؟ کیا گائے کے حصہ کی رقم کسی مدرسہ کوصدقہ کی جاسکتی ہے ؟
محمد عبدالمقتدر، بشارت نگر
جواب : شریعت میں ہر صاحب استطاعت آزاد مقیم (جو سفر پر ہو) شخص پر قربانی کرنا واجب ہے ۔ حکم الٰہی ہے۔ فضل لربک وانھر۔ آپ (عید کے دن) اپنے رب کیلئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔ حدیث شریف میں ہے ’’من کان لہ سعۃ ولم یضح فلا یقر بن مصلانا۔ یعنی جو صاحب استطاعت ہو اور قربانی نہ کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ ہماری عیدگاہ کو نہ آئے۔
عیدالاضحی میں بے زبان چوپائے مثلاً اونٹ ، گائے ، بھینس ، کھلگا، مینڈھا، بکری دبح کرنے کا حکم ہے ۔ ارشاد الٰہی ہے : (اعلان کیجئے) تاکہ وہ حاضر ہوں ، اپنے (دینی و دنیوی) فائدوں کیلئے اور مقررہ دنوں میں ذکر کریں اللہ تعالیٰ کے نام کا ان بے زبان چوپاؤں پر (بوقت ذبح) جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائے ہیں۔ پس خود بھی کھاؤ اور مصیبت زدہ اور محتاج کو کھلاؤ۔ (سورۃ الحج 28 )
عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کرنا درحقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اور جب حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام حکم الٰہی پر حضرت اسمعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کیلئے پیشانی کے بل لٹائے تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل فرمایا اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کی جگہ دنبہ کو بطور فدیہ رکھ دیا گیا ۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ و السلام نے دنبہ کی قربانی کی ۔ ارشاد الٰہی ہے ۔ فلما أسلما وتلہ للجبین و نادینہ ان یا ابراہیم قد صدقت الرؤ یا انا کذلک نجزی المحسنین ان ھذا لھوالبلاء المبین و فدینہ بذبح عظیم۔
جب وہ دونوں حکم الٰہی کے لئے جھک گئے اور (حضرت ابراہیم نے حضرت اسمعیل کو پیشانی کے بل لٹایا ۔ ہم نے ندا دی اے ابراہیم ! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا ۔ اس طرح ہم احسان کرنے والے کو بدلہ دیتے ہیں۔ یقیناً یہ بڑی کھلی آزمائش تھی ۔ ہم نے بڑی قربانی سے ان کا فدیہ دیا۔ ’’ذبح عظیم‘‘ بڑی قربانی سے مفسرین کرام کے نزدیک دنبہ کی قربانی مراد ہے ۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالاضحی کے موقع پر سینگ والے دو نہایت خوبصورت مینڈھوں کی قربانی دی، ان کو مضبوط تھاما ، اللہ کا نام لیا ، تکبیر کہی اور اپنے دست مبارک سے ذبح کیا ۔ نیز آپ کی تابعداری میں صحابہ کرام بھی دنبہ کی قربانی دیتے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو دنبوں کی قربانی فرمایا کرتے تھے اور میں بھی دو دنبے ذبح کرتا ہوں۔ روی عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یضحی کبشین وانا اضحی کبشین ۔ (بخاری 2111/5 ، رقم 5233 )

اسی بناء پر فقھا کرام نے صراحت کی ہے کہ بقرعید کے موقع پر دنبہ کی قربانی کرنا افضل ہے ۔ تاہم اونٹ گائے ، بھینس اور کھلگے کی قربانی کی بھی گنجائش ہے لیکن ایسے وقت جبکہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں قانوناً گاؤ ذبح کرنے پر پابندی ہے اور اس کے لئے باضابطہ سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ اس لئے موجودہ حا لات میں گائے کی قربانی نہ کرنا ہی قرینِ مصلحت ہے ۔ گرچہ گائے کی قربانی میں سہولت ہے ، سات افراد کی طرف سے کم سرمایہ میں قربانی ادا ہوجاتی ہے لیکن اس کی وجہ سے قانون کی خلاف ورزی کے علاوہ مسلم کمیونٹی کیلئے بڑے نقصانات کا اندیشہ ہے اور شریعت مطھرہ کا یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ ’’دفع المفسدۃ اولی من جلب المنفعۃ‘‘ یعنی شر و فساد کو دور کرنا کسی منفعت اور فائدہ کے حصول سے بہتر ہے ۔ مزاج شریعت اور ادب قرآنی کو ملاحظہ کیجئے ۔ ارشاد الٰہی ہے : ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسبوا اللہ عدوا بغیر علم کذلک زینالکل امۃ عملھم ثم الی ربھم مرجعھم فینبھم بما کانوا یعملون۔ (تم برا بھلا نہ کہو، انہیں جن کی یہ اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں( ایسا نہ ہو) وہ جہالت سے زیادتی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی توہین کرے ۔ اسی طرح ہم نے ہر امت کیلئے ان کے عمل کو مزین کردیا ہے ، پھر ان کو ان کے رب کی طرف ہی لوٹنا ہے وہ ان کو بتائیگا جو وہ عمل کیا کرتے تھے) (سورۃ لانعام 109/6 )
پس گائے کی قربانی حلال وجائز ہے اور تاقیامت حلال و جائز رہے گی۔ کوئی اس کو حرام و ممنوع قرار نہیں دے سکتا۔ تاہم ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں اس پر امتناع عائد ہے اور شرپسند عناصر اس کی آڑ میں مسلمانوں کو نہایت بے رحمی اور درندگی سے قتل کر رہے ہیں، اس لئے مسلمانوں کا گاؤ کو ذبح کرنے کے بجائے دیگر حلال جانور مثلاً اونٹ اور دنبہ کی قربانی کرنا مصلحتِ وقت کے مطابق ہے ۔ احکام القرآن لابن عربی میں مذکورہ الصدر آیت کی تفسیر کے ضمن میں ہے : ھذا یدل علی ان للمحق ان یکف عن حق (یکون) لہ اذا ادی الی ضرر یکون فی الدین۔
واضح رہے کہ ہندوستان کے طول و عرض میں کسی ایک مسلمان کو اس مسئلہ پرظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ ناقابل برداشت ہے ۔ ظالم کو ظلم کی سزا دلوانا اور اس کو ظلم سے روکنا نیز مظلوم کی فریادیں کرنا اور اس کو اور اس کے افراد خاندان کو ہمت و حوصلہ دینا، اسلامی فریضہ ہے۔ علاوہ ازیں عیدالاضحی کے موقع پر جانور کو راہ خدا میں قربان کر کے تقرب حاصل کر نا ہی مقصود ۔ حقیقی اور سنت ابراہیمی کی تکمیل ہے ، اس لئے جانور کی قربانی کے بجائے وہ رقم کسی مدرسہ یا کسی غریب کو دینے سے قربانی کا بدل ہرگز نہیں ہوگا ۔ قربانی دینا اس کے ذمہ بدستور باقی رہے گا اور وہ ترک واجب پر گنہگار ہوگا ۔ تاہم اگر کسی کے پاس صرف گائے میں حصہ لینے کی گنجائش ہو ، بکرا نہ خرید سکتا ہو اور دیگر حلال جانور مثلاً اونٹ بھینس وغیرہ میسر نہ ہوں تو وہ شرعاً صاحب استطاعت نہیں ، اس پر قربانی کا وجوب نہیں۔

دیور سے پردہ
سوال : زینب کے شوہر بیرون ملک روزگار کے سلسلہ میں قیام کئے ہوئے ہیں ۔ زینب اپنے سسرال والوں کے ہمراہ رہتی ہے ۔ زینب کا ایک دیور بھی ہے جو بیرون ملک برسر خدمت تھا لیکن اب اپنے والدین کے پاس ہی رہتا ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ زینب کا مذکورہ دیور اپنی بھاوج کے ساتھ بے تکلفی کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتا ہے ۔ بے باکانہ کمرہ میں داخل ہوجاتا ہے ، کبھی ہاتھ تھام لیتا ہے اور انداز کلام بھی بے باکانہ و نامناسب رہتا ہے۔ اپنے دیور کے نازیبا و ناشائستہ طرز عمل کی اطلاع زینب نے اپنے شوہر کو کئی مرتبہ فون کے ذریعہ دے چکی ہے ۔ شوہر محترم بھی اس کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تمہارا دیور ہے تم اس کی بھاوج ہو۔ دیور و بھاوج کا ایک دوسرے سے مذاق کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ ان حالات میں زینب کو سخت خوف ہے کہ خدانخواستہ کہیں کوئی غلطی کا ارتکاب نہ ہوجائے۔ اس لئے زینب کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہئے ۔
ایک خاتون
جواب : رشتہ دار دو طرح کے ہیں ، ایک محرم دوسرے غیر محرم ، محرم رشتہ دار وہ ہوتے ہیں جن سے ابدی طور پر نکاح حرام ہوتا ہے، جیسے والد بھائی ، چچا ، ماموں ، بھانجہ ، بھتیجہ وغیرہ ان سے خواتین کو پردہ کرنا نہیں ہے ۔ غیر محرم وہ رشتہ دار کہلاتے ہیں جن سے رشتہ نکاح ابدی طور پر حرام نہیں۔ جیسے دیور و دیگر رشتہ کے بھائی و دیگر رشتہ کے بھانجے ، بھتیجے و دیگر رشتہ کے ماموں چچا و غیرہ و دیگر اجانب ان سے رشتہ نکاح جائز ہے اس لئے ان سے پردہ کرنا شرعاً ضروری ہے۔ غیر محرم رشتہ داروں میں ’’ دیور‘‘ سے خاص طور پر احتیاط برتنے کی شریعت نے تاکید کی ہے کیونکہ اس سے زائد فتنہ کا اندیشہ ہے اس لئے حدیث پاک میں اس کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ خاص طور پر تنہائی کے مواقع میں دیور کا بھاوج سے ملنا ، بات چیت کرنا شرعاً درست نہیں۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایاکم والد خول علی النساء فقال رجل یا رسول اللہ افرأیت الحمو قال الحمو الموت ۔ (بخاری شریف) (مشکوٰۃ ص : 268 ) اس کے حاشیہ ص : 5 میں ہے ۔ قولہ الحموالموت ھذہ الکلمۃ یقولہا العرب للتنبیہ علی الشدۃ والفظاعۃ … والمراد تحذیر المرأۃ منھم فان الخوف من الاقارب اکثر والفتنۃ منھم اوقع لتمسکھم من الوصول والخلوۃ من غیر نکیر۔
اس لئے دیور پر شرعاً مذکورہ در سوال امور سے سخت اجتناب لازم ہے۔ کیونکہ تنہائی کے موقع پر بھاوج کے کمرہ میں داخل ہونا و دیگر قابل اعتراض برتاؤ (مذکورہ در سوال) سخت گناہ ہے۔ بھاوج کو چاہئے کہ ہر طرح اپنی حفاطت کا بندوبست کرے جب بھی دیور گھر میں رہے وہ اس وقت اپنی ساس کے ساتھ رہے۔ شوہر پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے بھائی کو غیر شرعی امور کے ارتکاب سے بچنے کی ہدایت کرے۔ اگر دیور اس کے باوجود اپنے طرز عمل سے باز نہ آئے تو شوہر کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بیوی کی حفاظت اور اس کو باعصمت رکھنے کا مناسب انتظام کرے۔

بیمار شخص پر نماز جمعہ
سوال : میرا پاؤں حادثہ میں ٹوٹ گیا ہے۔ میں چلنے پھرنے سے قاصر ہوں بلکہ طہارت کیلئے بھی دشواری ہوتی ہے۔ مسجد میرے گھر سے بہت قریب ہے لیکن بغیر کسی کے سہارے کے مسجد کو جانا مشکل ہے اور جمعہ کے وقت گھر میں کوئی مرد موجود نہیں رہتا ہے تو میں بادل ناخواستہ ظہر کی نماز ادا کرلیتا ہوں، شرعاً میرے لئے کوئی گنجائش ہے یا مجھے ہر صورت میں جمعہ ادا کرنے کیلئے مسجد کو جانا ہوگا۔
مصلح الدین
جواب : شرعاً بیمار شخص پر جمعہ کا وجوب نہیں۔ حدیث شریف میں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : چار افراد ایسے ہیں جن پر جمعہ کا وجوب نہیں۔ مسافر ، مریض ، غلام اور عورت۔ اس کی روایت ابو داؤد طیالسی نے اپنی مسند ص : 115 میں کی ہے۔ پس چونکہ آپ بیمار ہیں اور جمعہ کیلئے مسجد جانے پر قادر نہیں ہیں اس لئے آپ پر جمعہ کا وجوب نہیں۔ آپ کا گھر میں ظہر ادا کرنا کافی ہے۔

اگر قعدۂ اولی بھول جائے
سوال : حال میں میں ظہر کی نماز ادا کر رہا تھا لیکن دوسری رکعت پر بیٹھا نہیں کھڑا ہوگیا ۔ بعد میں تیسری چوتھی رکعت مکمل کیا اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرلیا ۔ ا یک عالم صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ آپ کی نماز ہی نہیں ہوئی ، دو رکعت کے قعدہ میں بیٹھنا ضروری تھا اور آپ نے اس کو ترک کردیا۔ ایسی صورت میں کیا حکم ہے ؟ کیا میری نماز ہوئی یا نہیں ؟
محمد کریم، ملے پلی
جواب : کوئی شخص ظہر کی سنت ادا کر رہا ہو اور دو رکعت پر بیٹھنا بھول جائے اور تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہوجائے اور اخیر میں سجدہ سہو کرلے تو شرعاً اس کی نماز مکمل ہوگئی ۔ عالمگیری جلد اول ص : 112 میں ہے : ولو صلی الاربع قبل الظھر ولم یقعد علی رأس الرکعتین جاز استحسانا کذا فی المحیط۔اور ص : 113 میں ہے : رجل صلی أربع رکعات تطوعا ولم یقعد علی رأس الرکعتین عامدا لاتفسد صلاتہ استحسانا وھو قولھما و فی القیاس تفسد صلاتہ۔