کے سی آر سے گریجویٹس کی ناراضگی

تلنگانہ/ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
آندھرا کے بعض قائدین کا خیال ہے کہ تلنگانہ گھامڑوں کا مسکن ہے جہاں ایک سے ایک پرلے درجے کا نااہل اعلی سے اعلی عہدے پر فائز ہے۔ ہر بے کار چیز یہاں اہم عہدوں کا مالک ہے۔ اسی بنا پر تقسیم آندھرا کے بعد یہ لوگ اپنی من مانی سے ٹی آر ایس حکومت کے منصوبوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پہلا بڑا نقصان قانون ساز کونسل کے انتخابات میں ہوا ہے۔ گریجویٹ حلقہ سے بی جے پی امیدوار کی کامیابی کو چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو کے لئے لئے شدید دھکہ سمجھا جارہا ہے تو بعض نے یہ کہا ہے کہ چیف منسٹر نے خود قصداً یہ نشست بی جے پی کے حوالے کردی ہے۔ اپنے لیڈر کو ناکام بنانے کے لئے انہوں نے درپردہ طور پر تلگودیشم۔ بی جے پی اتحاد کے امیدوار رامچندر رائو کی کامیابی کی راہ ہموار کی۔ حیدرآباد و رنگاریڈی اور محبوب نگر میں گریجویٹ حلقہ کے جن گریجویٹس نے بھی اپنا ووٹ دیا ہے ان کی فرقہ پرستی کی سونچ کی عکاسی ہوچکی ہے۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے امیدوار دیوی پرساد کی ناکامی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں تاہم کھمم، نلگنڈہ، ورنگل کے گریجویٹس نے ٹی آر ایس امیدوار راجیشور ریڈی کو ووٹ دے کر کامیاب بنایا ہے۔

اس بنا پر تلنگانہ میں اب ایک نئی سیاسی بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا ٹی آر ایس کو سیاسی سطح پر سودے بازی کرنی پڑی ہے۔ کونسل کے انتخابات اور نتائج کے سیاسی فوائد و نقصان کیا ہوں گے یہ تو آگے چل کر پتہ چلے گا۔ فی الحال چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو کی پارٹی کے علاوہ آندھراپردیش کی تلگودیشم پارٹی کی شکست کے بھی مختلف وجوہات ہیں۔ اب دونوں پارٹیوں کا ایک ایک امیدوار ناکام ہوا ہے تو دونوں جانب سیاسی توازن کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھا جارہا ہے کہ صدر تلگودیشم چندرا بابو نائیڈو تلنگانہ کی اہمیت اور ترقی کی رفتار کو قبول کرتے ہوئے حکومت تلنگانہ کے ساتھ کشیدگی کی راہ اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے برقی کی تقسیم کے مسئلہ سے لے کر دیگر تمام امور کا دوستانہ حل نکالنے کی خواہش کی ہے۔ تلنگانہ حکومت سے برقی کے مسئلہ پر بات چیت کرتے ہوئے اس نئی ریاست کے حصہ کی برقی سربراہ کی جائے گی۔ تلنگانہ میں تلگودیشم اور بی جے پی کو اپنا اثر دکھانا ہے تو ابتدائی سطح پر عوام کے سامنے ہمدردی کا مظاہرہ کرنا چندرا بابو نائیڈو کی پالیسی کا حصہ ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ بی جے پی کے کونسل امیدوار این رامچندر رائو نے کہا کہ تلگودیشم کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے ان کی کامیابی یقینی ہوئی ہے اور ان کی یہ کامیابی ٹی آر ایس حکومت کی شکست ہے۔ بی جے پی۔تلگودیشم کے اتحاد سے جیتنے والے امیدوار رامچندر رائو شروع سے ہی اپنی کامیابی کے لئے پر امید تھے ان کا کہنا ہے کہ میری کامیابی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محبوب نگر، رنگا ریڈی اور حیدرآباد کے گریجویٹس ٹی آر ایس حکومت سے نالاں ہوگئے ہیں۔ تلنگانہ کے نوجوانوں کی مایوسی کے باعث ہی بی جے پی کے سیاسی جڑیں مضبوط ہورہی ہیں۔ ان کا یہ پیام واضح ہے کہ تلنگانہ بن جانے کے 10 ماہ بعد بھی انہیں روزگار نہیں ملا ہے۔

اس بات کا ثبوت بیلٹ پیپرس میں لکھے گئے اس نعرے سے ملتا ہے کہ ہم بے روزگار ہیں ہم کو روزگار چاہئے۔ تقریباً 10 ہزار ناکارہ بیلٹ پیپرس دستیاب ہوئے ہیں جن پر ایسی تحریر لکھی ہوئی تھی۔ 10 ہزار نوجوانوں نے چیف منسٹر کے چندرشیکھر رائو کے خلاف اپنی شدید ناراضگی ظاہر کی ہے جبکہ چیف منسٹر روز بہ روز کی اساس پر مختلف اسکیمات اور روزگار پیدا کرنے ان اقدامات کا اعلان کررہے ہیں۔ کونسل کے نتائج آنے سے ایک دن قبل ہی چیف منسٹر نے اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت تقریباً 85000 سرکاری ملازمتوں کے لئے تقررات عمل میں لائے گی۔ ان مخلوعہ جائیدادوں پر بھرتیوں کے لئے حکومت کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔ لیکن حکومت نے ان تقررات کے لئے کوئی تاریخ اور وقت کو متعین نہیں کیا۔ آخر یہ 85000 نوکریاں کب اور کس طرح دی جائیں گی۔ وزیر آبپاشی ٹی ہریش رائو نے کہا تھا کہ چیف منسٹر نے پہلے ہی وعدہ کیا ہے کہ تمام سرکاری ملازمتوں پر تقررات کا عمل ایک سال کے اندر کرلیا جائے گا اب جبکہ حکومت تشکیل پاکر 10 ماہ گزر چکے ہیں ایک سال ہونے کے لئے دو ماہ باقی ہیں۔ حکومت کے اس مبہم اعلانات اور عملی اقدامات کے مظاہرہ میں دلچسپی کے فقدان کو دیکھ کر نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ اسمبلی میں بھی اس مسئلہ کو اپوزیشن نے اٹھایا ہے لیکن حکومت اس وقت تک تقررات کا عمل شروع نہیں کرسکتی تاوقتیکہ کمل ناتھن کمیٹی اپنی رپورٹ پیش کرے۔ تلنگانہ ریاست اور آندھرا پردیش کے درمیان اسٹاف کی تقسیم سے متعلق کمل ناتھن کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد ہی مسئلہ حل ہوگا۔ ریاست تلنگانہ میں 1,07,744 جائیدادیں خالی ہیں ان میں سے تقریباً 15,000 جائیدادیں کمل ناتھن کمیٹی سے مربوط ہیں اور ماباقی 85,000 جائیدادیں اضلاع، زونل اور ملٹی زونل پوسٹس ہیں۔ ان جائیدادوں پر تقررات کا عمل شروع کرنے کے لئے حکومت کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے تو پھر تاخیر کیوں ہورہی ہے۔ حکومت کی پالیسی کیا ہے اور وہ عوام خاص کر بے روزگار نوجوانوں کو کب تک مایوس کرتی رہے گی یہ وہی بہتر جانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا حکومت کو اس کی باطنی قوت بھی کوئی سرزنش نہیں کرتی۔ اسے اپنی پالیسی کے کسی ایک لائحہ عمل پر ضرور عمل کرنا چاہئے جس کے باعث نہ صرف عوام میں اس کی شبیہہ مشکوک ہونے سے بچ جائے بلکہ اپوزیشن کی گمراہ کن مہم سے بھی وہ متاثر نہ ہونے پائے۔

تلنگانہ کے عوام ہر مشکل برداشت کرسکتے ہیں مگر وہ دھوکہ، جھوٹ فریب برداشت نہیں کریں گے۔ اب تک آندھرائی قیادت نے کافی دھوکے دیئے ہیں اب ان کی اپنی حکومت بھی ایسا ہی کرے گی تو یہ صدمے سے دوچار ہونے والی بات ہوگی۔ دونوں ریاستوں کے درمیان اعلی عہدیداران خاص کر آئی اے ایس آفیسرس کی تقسیم عمل میں آئی ہے لیکن ان میں سے بیشتر آئی اے ایس آفیسرس جنہوں نے اپنے کیڈر الاٹمنٹ کے خلاف سنٹرل اڈمنسٹریٹیو ٹربیونل میں درخواست داخل کی ہے، یہ آفیسرس تلنگانہ میں ڈیوٹی انجام دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان عہدیداروں میں بتایا جاتا ہے کہ آئی اے ایس آفیسرس سومیش کمار، سی ہری کرن، ایس ایس راوت، جی اننت رامو، اے ودیا ساگر، جے آر آنند، سریجنا گومالا، ایل شیوشنکر، کے امرپالی، رونالد روز، کروناکاویٹی اور رانی پرشاد کے نام سامنے آئے ہیں۔ ٹربیونل نے انہیں عبوری راحت بھی دے دی ہے۔ مرکز نے ان عہدیداروں کو آندھراپردیش اور تلنگانہ میں تقسیم کردیا تھا لیکن تلنگانہ میں کام کرنے سے انکار کی کئی وجوہات ہیں اس پر حکومت کو غور کرنا ضروری ہے۔ کے سی آر کو ایک سطح پر اعلی عہدیدار کی ناراضگی کا سامنا ہے تو دوسرے گوشے سے ان کے لئے تائیدی و حمایتی طاقتیں ابھر رہی ہیں۔ آندھراپردیش میں اپنے مستقبل کو آزمانے کی کوشش کرنے والوں کو جب محسوس ہورا ہے کہ آندھراپردیش میں آئندہ 10 سال تک ترقی کے لئے انتظار کرنا فضول ہے اس لئے تلنگانہ خاص کر حیدرآباد کی تیزتر ترقی میں ہی اپنے مستقبل کو روشن بنانے کی غرض سے کئی تلگو فلمی ہستیوں نے کے سی آر کی مدح سرائی شروع کی ہے۔ بی جے پی تلگودیشم کے حامی پون کلیان نے چیف منسٹر آندھراپردیش چندرا بابو نائیڈو کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کے سی آر کے طرز حکمرانی سے کچھ سیکھ لیں۔

اگرچہ کہ نائیڈو کو 9 سال تک حکومت کرنے کا تجربہ ہے لیکن کے سی آر نے اپنی 9 ماہ کی حکمرانی کے مظاہرہ میں نائیڈو کے 9 سال کے تجربہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس لئے کے سی آر چندرا بابو نائیڈو کو اپنا کٹر حریف سمجھتے ہیں اور انہوں نے تلنگانہ سے تلگودیشم کا صفایا کرنے کی قسم کھارکھی ہے لیکن اب تک کی کارکردگی اور دونوں چیف منسٹروں کی حکومتوں کی بالادستی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جارہا ہے کہ دونوں چیف منسٹرس کارکردگی کے معاملہ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر کے سی آر کی خوش بختی یہ ہے کہ ان کے ہاتھ میں ایک قوی سرکاری خزانہ ہے اس لئے انہوں نے اپنے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے۔ جس کے جواب میں مجبوراً چندر بابو نائیڈو کو بھی چند دن بعد ہی سہی آندھرا کے ملازمین کی تنخواہوں یا فٹمنٹ چارج میں 43 فیصد اضافہ کرنا پڑا۔ جبکہ اے پی کا سرکاری خزانہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ ایسے میں چندرا بابو نائیڈو اپنی حکومت کی طویل مدتی پالیسی کو کس طرح چلا سکیں گے یہ ناقابل قیاس ہے۔ چندرا بابو نائیڈو کے خالی خزانہ کو دیکھ کر ہی کے سی آر اپنی حکومت اور اپنے اداروں کے لئے بڑی بڑی رقومات دینے کا اعلان کررے ہیں۔ مقامی بلدیات کو بھی انہوں نے خطیر فنڈس جاری کئے ہیں اس کے علاوہ پنچایت راج اداروں کے عہدیداروں کی تنخواہوں میں ماہانہ 7500 سے بڑھاکر ایک لاکھ روپئے کردیا گیا۔ ان اقدامات کو پڑوسی ریاست آندھراپردیش کو مالیاتی طور پر پست کرنے کی کوشش کا یہ حصہ سمجھا جارہا ہے۔ کے سی آر کو معلوم ہے کہ چندرا بابو نائیڈو کو کس مقام پر کب اور کیسے پست کیا جاسکتا ہے لیکن نائیڈو کی سیاسی صلاحیتوں سے واقف افراد کو یہ اندازہ ہے کہ بادشاہ گری ان کا طرہ امتیاز ہے۔
kbaig92@gmail.com