کے سی آر کے فرنٹ کا کوئی مستقبل نہیں بی جے پی کو بیساکھی چاہئے

محمد نعیم وجاہت
ملک کے موجودہ حالات میں سیاستدانوں کی مفاد پرستی اور اقتدار کی ہوس، قومی و عوامی مفادات سے کھلواڑ کا سبب بن رہی ہے۔ ہندوستان کے جمہوری و سیکولر اقدار کو تہس نہس کرنے والی بی جے پی نے 2014 ء میں ترقی (وکاس) اور بدعنوانیوں کو انتخابی موضوع بناتے ہوئے اقتدار حاصل کیا تھا لیکن 4 سال کے دوران ملک کو فرقہ پرستی کے دلدل اور نفرت کی آگ میں جھونکتے ہوئے وکاس کے موضوع کو ہی دفن کردیا۔ 2019 ء میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے نہ صرف فرقہ وارانہ منافرت پھیلائی جارہی ہے بلکہ نام نہاد فرسٹ فرنٹ، تھرڈ فرنٹ، فورتھ فرنٹ اور فیڈرل فرنٹ۔ ترقی پسند علاقائی جماعتوں کی بیساکھی کا سہارا لینے پر بھی آمادہ ہوچکی ہے۔ اس کام کے لئے وزیراعظم نریندر مودی کی نظر انتخاب چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر پر اس لئے پڑی کیوں کہ دونوں ہی فطری اعتبار سے ضدی اور ہٹ دھرم ثابت ہوئے ہیں۔ یہ بات اور ہے کہ حیدرآباد کی زبان میں کے چندرشیکھر راؤ میٹھی چھوری ہیں جبکہ نریندر مودی کی شناخت مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلنے والے لیڈر کی ہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ نے علاقائی جماعتوں کے محاذ تھرڈ فرنٹ، فورتھ فرنٹ کا جو شوشہ چھوڑا ہے درحقیقت یہ شوشہ ٹی آر ایس کے قومی سیاست میں کردار ادا کرنے کے لئے نہیں بلکہ آئندہ انتخابات میں بی جے پی کو اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کرنے کا بھی ایک منصوبہ ہوسکتا ہے۔ اس منصوبے میں کس حد تک کامیابی حاصل ہوگی اس کا اندازہ کوارٹر فائنل (کرناٹک) اسمبلی انتخابات کے نتائج سے لگایا جاسکتا ہے اور اگر اس بیساکھی کے سہارے بی جے پی کرناٹک کا اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اسے سیمی فائنل مدھیہ پردیش اور راجستھان کے علاوہ اسے فائنل (عام انتخابات) تک باقی رکھا جائے گا۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کرناٹک انتخابات کے فوری بعد کے سی آر کے خوابوں کا یہ فرنٹ بننے سے پہلے ختم ہوجائے گا۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے اس منصوبے پر علاقائی جماعتوں کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جارہی ہے کہ کے سی آر صرف تلنگانہ کو بچانے کے لئے خود کو قومی قائد کے طور پر پیش کررہے ہیں بلکہ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ بی جے پی تلنگانہ میں کانگریس کو کمزور اور ٹی آر ایس کو دوبارہ اقتدار دلانے کے لئے چیف منسٹر تلنگانہ کو قومی قائد کے طور پر پیش کرنے کی راہ ہموار کررہی ہے۔

33 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے ملک کے اقتدار پر پہونچنے والی بی جے پی کو 2019 ء کے عام انتخابات میں 28 تا 29 فیصد ووٹ حاصل ہونے کی پیش قیاسی کی جارہی ہے کیوں کہ گزشتہ انتخابات میں وکاس اور ملازمتوں کے نام پر 10 فیصد سے زیادہ نوجوانوں نے بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن ان میں سے 5 تا 7 فیصد رائے دہندے اس مرتبہ کانگریس کے حق میں رائے دہی کا ذہن بنارہے ہیں لیکن ہندوتوا طاقتوں نے علاقائی اور قومی سطح پر رونما ہورہی تبدیلی کو بھانپ لیا ہے۔

ایک منظم سازش کے تحت بی جے پی نے تبدیل ہورہی اس عوامی رائے کو منقسم کرنے کے لئے ایک نیا محاذ وجود میں لانے کی جو حکمت عملی تیار کی ہے وہ درحقیقت دوبارہ اقتدار کو یقینی بنانے کے لئے کی گئی منصوبہ سازی ہے۔ نریندر مودی کی رعونت اور کے چندرشیکھر راؤ کے تکبر کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن یہاں صرف ایک کا تذکرہ کافی ہے۔ مودی کابینہ کے پہلے اجلاس کی جو تصاویر سامنے آئیں اُس میں تمام وزراء کے لئے مساوی نشستیں تھیں جبکہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کابینی وزراء سے اونچی جگہ پر نریندر مودی نے اپنی کرسی رکھتے ہوئے ایک منفی مثال قائم کی۔ اس طرح چیف منسٹر کے سی آر نے عالیشان بنگلہ میں قیام اور بنگلے سے متصل آئی اے ایس عہدیداروں کی جگہ حاصل کرتے ہوئے ایک ریکارڈ قائم کیا۔ اتنا ہی نہیں ان کے متعلق یہ بات بھی مشہور ہے کہ وہ اپنے وزراء سے ڈانٹ کر گفتگو کرتے ہیں اور ارکان اسمبلی سے ملاقات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے 10 لاکھ روپئے کا سوٹ پہنتے ہوئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی وہ منفرد شخصیت ہیں جبکہ کے سی آر نے بلٹ پروف ٹائیلٹ بناتے ہوئے اپنی اہمیت کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی۔ وزیراعظم نریندر مودی ریڈیو سے جس طرح لوگوں کے من کی بات سننے کے بجائے اپنے من کی بات کررہے ہیں، اس طرح چیف منسٹر تلنگانہ پرگتی بھون کی ترقی کو تلنگانہ کی پرگتی ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مودی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اپنی تشہیر کروارہے ہیں قومی سطح پر ایک لفظ شہرت پاچکا ہے جسے ’’گودی میڈیا‘‘ کہا جارہا ہے۔ یقینا گودی میڈیا مودی کی تشہیر کے لئے کام کررہا ہوگا اور اُسے کچھ فائدہ بھی حاصل ہورہا ہوگا لیکن تلنگانہ میں حکومت ذرائع ابلاغ اداروں پر پابندی عائد کرتے ہوء اور اُنھیں دھمکاتے ہوئے اپنے پریس نوٹ پر خبروں کی اشاعت و نشریات تک محدود کئے ہوئے ہیں۔ جس طرح شمال اور جنوب ایک ہی نہیں ہوسکتے اس طرح چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی سے یہ توقع کی جاسکتی ہے۔ وہ بی جے پی سے اتحاد نہیں کرسکتیں۔ وہ نظریات کے اعتبار سے بی جے پی کی مخالف ہیں۔ اس طرح ممتا بنرجی سے بھی اس بات کی بھی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کے سی آر کے محاذ کا حصہ بنیں۔

سادگی پسند قائد اور شہرت پسند قائد میں نظریات کا اختلاف ہونا لازمی ہے۔ ممتا بنرجی نے بی جے پی کے خلاف محاذ کی تو تائید کی مگر کانگریس کے بغیر فرنٹ کو ناممکن قرار دیتے ہوئے چیف منسٹر کی خاطر تواضع کرتے ہوئے انھیں کولکاتا سے خالی ہاتھ حیدرآباد لوٹا دیا۔ دیوے گوڑا کی سیاسی مجبوری بلکہ جے ڈی ایس کا ماضی میں بی جے پی سے اتحاد اور اب وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے دیوے گوڑا کی ستائش کے بعد یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ کیوں ٹی آر ایس کے محاذ کی جے ڈی ایس نے تائید کا فیصلہ کیا ہے۔ بدلے میں چیف منسٹر تلنگانہ نے کرناٹک میں قیام پذیر تلگو عوام سے جے ڈی ایس کی تائید کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ میں ٹی آر ایس کی حلیف مجلس نے بھی جے ڈی ایس کی تائید کا اعلان کیا ہے۔ عوام چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر اور مجلس کے صدر اسدالدین اویسی سے یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ ضمانت دے سکتے ہیں کہ جے ڈی ایس انتخابات کے بعد بی جے پی سے اتحاد نہیں کرے گی۔ ابھی کئی مقامات پر بی جے پی اور جے ڈی ایس کے درمیان انتخابی مفاہمت ہوچکی ہے۔ اخبارات میں اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر بھی ہوئی ہے۔ پڑوسی ریاست آندھراپردیش کے چیف منسٹر این چندرابابو نائیڈو نے تلگو عوام سے بی جے پی کو شکست دینے کی اپیل کی ہے۔ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے درمیان ضمنی انتخابات میں ہوئے اتحاد سے بی جے پی کی نیندیں حرام ہیں کیوں کہ بی جے پی نے چیف منسٹر اور ڈپٹی چیف منسٹر اترپردیش کی دو باوقار نشستوں کو سماج وادی پارٹی نے بی جے پی سے چھین لیا ہے۔ اس اتحاد سے خائف بی جے پی نے ایک مرتبہ پھر دونوں میں دراڑ پیدا کرنے کی غرض سے اکھلیش یادو اور کے سی آر میں دوستی کروانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ریاستی وزیر بلدی نظم و نسق کے ٹی آر نے لکھنؤ پہونچ کر اکھلیش یادو سے ملاقات کی جس کے بعد اکھلیش یادو نے 2 مئی کو حیدرآباد پہونچ کر 4 گھنٹوں تک کے سی آر سے قومی سیاست اور دوسرے اُمور پر تبادلہ خیال کیا۔ انھوں نے کے سی آر کی خواہش کے مطابق بی جے پی پر تنقید کی مگر کانگریس کے خلاف ایک لفظ بھی نہ کہتے ہوئے راہول گاندھی سے دوستی برقرار رہنے کا ثبوت دیا۔ جب میڈیا نمائندوں نے راہول گاندھی سے دوستی کے بارے میں اکھلیش یادو سے سوال کیا تو چیف منسٹر تلنگانہ نہ جانے کیوں تلملا اُٹھے، اُنھوں نے فوراً مائیک اپنے ہاتھ میں لے لیا اور میڈیا پر برس پڑے اور یہاں تک کہہ دیا کہ ان کی پہل کو سیاسی نظر سے نہ دیکھا جائے۔ ٹاملناڈو میں جہاں وزیراعظم نریندر مودی خود کروناندھی خاندان سے مفاہمت کی ناکام کوشش کرچکے ہیں اتنا ہی نہیں بلکہ ٹامل عوام کے جذبات سے کھلواڑ کرتے ہوئے بی جے پی کو تقویت پہونچانے کی کوشش کی یہاں تک کہ اے آئی ڈی ایم کے کے ارکان اسمبلی کو خریدنے کی کوشش کی۔ ان سب سازشوں میں ناکامی کے بعد اب کے سی آر کے فرنٹ کے ذریعہ ٹاملناڈو میں بی جے پی اپنی رسائی کی کوشش کی۔ لیکن سیاس ایم کے اسٹالن نے بھی اکھلیش اور ممتا بنرجی کی طرح اپنی مہارت دکھائی، گھر میں کھانا کھلانے کے بعد دو ٹوک انداز میں کہہ دیا کہ کے سی آر کے فرنٹ کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ کنی موزی جیسی الزامات کا سامنے کرنے والی سیاسی قائد کی جانب سے شال پوشی کو عزت و تکریم تصور کرنے والے کے سی آر کو اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ ان کی اپنی ریاست میں بھی ان کے پاس بھی ایک کنی موزی اور اے راجو، رامو اور اگاکی شکل میں موجود ہے۔ ہر باپ اپنے بچوں کا بہتر اور محفوظ مستقبل دیکھنا چاہتا ہے۔ جھارکھنڈ کے سابق چیف منسٹر ہیمنت سورین دہلی میں صدر کانگریس راہول گاندھی سے ملاقات کرنے کے بعد حیدرآباد پہونچ کر کے سی آر سے ملاقات کرچکے ہیں۔ چیف منسٹر اڈیشہ پٹائک نے کے سی آر کو مذاکرات کے لئے طلب کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ وہ مذہبی مقامات کی یاترا کے لئے پہونچ رہے ہیں، ملاقات کی خواہش کی تو وہ اتفاق کرچکے ہیں۔ دونوں کے درمیان کوئی سیاسی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔