کے سی آر مگر بات ہے وعدے کی

تلنگانہ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ ریاست میں عوام نے عید، بقرعید، دسہرہ اور دیپاولی منالی مگر ٹی آر ایس حکومت کے وعدوں کی تکمیل کے جشن کو ترس رہے ہیں۔ میدک لوک سبھا حلقہ سے ضمنی انتخاب جیتنے کے بعد تلنگانہ راشٹرا سمیتی کا نفس مزید توانا ہوگیا، اس لئے وہ کانگریس، بی جے پی اور دیگر سیاسی پارٹیوں کی تنقیدوں کو خاطر میں نہیں لارہی ہے بلکہ اپنی ناکامیوں پر سینہ ٹھوک کر کہہ رہی ہے کہ کے سی آر کا نظم و نسق ایک شاندار و مثالی کارکردگی کا ثبوت ہے۔ عوام کے سی آر کی اس مثالی کارکردگی کو دیکھنے بے تاب ہیں مگر انہیں اب تک یہ مثالی کارکردگی کہیں دکھائی نہیں دی۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے ہزارہا مرتبہ کہا ہے کہ دسہرہ و دیپاولی سے ریاست تلنگانہ کو سنہرے دور میں داخل کردیا جائے گا۔ گذشتہ چند ہفتوں سے جو اعلانات ہورہے تھے اس کا سلسلہ آئندہ چند ہفتے جاری رہے گا۔ چیف منسٹر اپنے کابینی رفقاء سے ملاقات کرنے سے بھی کترا رہے ہیں تو وہ کابینہ میں توسیع کا وعدہ پورا کس طرح کریں گے۔ حکومت کا سارا کام اپنے کندھوں یا خاندان کے کندھوں پر رکھ کر عوام کو مزید انتظار کرارہے ہیں۔ آئندہ چار سال میں ریاست کے ہر گھر کو پائپ لائن کے ذریعہ پینے کا صاف پانی سربراہ کرنے کا عزم رکھنے والے چیف منسٹر کو اس سمت میں کچھ نہ کچھ قابل دید کام انجام دینا چاہیئے تاکہ عوام کو تھوڑا ہی سہی یقین ہوجائے کہ واقعی نئی ریاست تلنگانہ میں ایک کارگر حکومت موجود ہے۔

صرف اعلانات و تیقنات کی چادر کب تک لہرائی جائے گی، اب وہ نئی ریاست کا ایک مکمل بجٹ برائے 2014-15 کی تیاری کررہے ہیں۔ یہ پہلا بجٹ ریاست کی ترقی کا آئینہ ہوگا۔ مختلف کمیٹیوں اور محکموں کے سربراہان بجٹ کی تیاری کے لئے تجاویز پیش کررہے ہیں۔ یہ پہلا بجٹ ہی تلنگانہ حکومت کے آئندہ چار سال کی پالیسی بھی ہوگا جس کی بنیاد پر ہی حکومت کی کارکردگی ریکارڈ ہوگی۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راو ریاست کی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس لئے انہوں نے مختلف ٹاسک فورس کمیٹیوں کے ذریعہ مسودہ پالیسی بیانات تیار کروارہے ہیں۔ توقع ہے کہ یہ بجٹ سیشن 18دن کا ہوگا۔ ٹاسک فورس کی پیش کردہ سفارش کے مطابق 5000 کروڑ روپئے لاگتی تجاویز پر غور کیا جائے گا۔ چیف منسٹر نے اب تک ریاست کے کسانوں کیلئے ایک لاکھ روپئے تک قرض راحت اسکیم دی ہے اس لئے پہلی قسط کے طور پر 4250 کروڑ روپئے ادا کئے جائیں گے جو بینکوں کے بقایا جات کا ایک چوتھائی حصہ ہے۔

انہوں نے غریبوں اور بے زمین دلت خاندانوں میں 3ایکر اراضی تقسیم کا پروگرام بھی شروع کیا ہے۔ دیگر وعدے جیسے آٹوز، ٹریکٹرس اور دیگر میکانائیزڈ فرمس کیلئے روڈ ٹیکس برخاست کردیا ہے۔ دسہرہ سے غریب مسلم لڑکیوں اور ایس سی، ایس ٹی طبقات کی لڑکیوں کی شادی کے لئے مختلف اسکیمات جیسے’ شادی مبارک‘ اور ’ کلیان لکشمی‘ کا بھی آغاز کیا۔ اس پر عمل آوری ہنوز کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے، اس چیف منسٹر کا ہنی مون ابھی جاری ہے اس لئے وہ اپوزیشن کو خاطر میں نہیں لارہے ہیں۔ ان پر کی جانے والی تنقیدیں بھی بے اثر ہورہی ہیں۔ چیف منسٹر پر برقی بحران کے حوالے سے کی جانے والی تنقیدوں کے جواب میں کہا جارہا ہے کہ جو مسئلہ گذشتہ 60سال سے حل نہیں ہوا وہ کے سی آر کے دور میں چار مہینوں میں کس طرح پورا ہوگا، وہ دیگر چیف منسٹروں کے برعکس اپنا کام اچھی طرح انجام دے رہے ہیں۔ حیدرآباد پر جس طرح توجہ دے رہے ہیں اس سے پہلے کسی چیف منسٹر نے نہیں دی تھی۔ اپنی مختصر مدت میں انہوں نے شہر کے سلم علاقوں کا دورہ کیا جو ماضی میں کسی آندھرائی چیف منسٹر نے نہیں کیا تھا۔ کے سی آر خالص تلنگانہ کے لئے کام کررہے ہیںتو ان پر تنقیدیں فضول ہیں۔ ان کی نظریں 2019 کے انتخابات پر ہیں تو وہ ان چار برسوں میں حکومت کی کارکردگی یقینا مثالی بنائیں گے تاکہ آئندہ بھی اقتدار حاصل کرسکیں۔ اگر آنے والے تین سال میں برقی مسئلہ، آبپاشی، پانی اور صحت و تعلیم کے مسائل حل ہوجائیں تو پھر کے سی آر ہی چیف منسٹر ہوں گے۔ تلنگانہ کو سنہرے دور میں لے جانے کا سہرا کے سی آر اور ٹی آر ایس حکومت کے سر باندھا جائے گا۔

لیکن ایک بات تو سچ ہے کہ کرپشن و غیر قانونی سرگرمیاں ختم نہیں ہوں گی۔ گذشتہ 20 سال سے حکومتوں کو رشوت اور غیرقانونی سرگرمیوں کا مزہ لگ چکا ہے تو کے سی آر اس مزہ سے استفادہ کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو، کے سی آر کی ریاست میں اپنا سکہ جمانے میں کامیاب ہوں گے۔ یہ پوری صورتحال یہی ظاہر کررہی ہے کہ نائیڈو نے تلنگانہ تلگودیشم قائدین کو کام پر لگادیا ہے کہ وہ کے سی آر کے ہر کام اور قدم پر نظر رکھیں، جہاں کہیں خامیاں پائی جائیں تو انہیں عوام کے سامنے بے نقاب کریں۔ تلنگانہ تلگودیشم قائدین اپنے کام میں کامیاب ہوں تو کے سی آر کو بدنام کرنے کا ہر حربہ اختیار کیا جائے گا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ سیاستداں ایک دوسرے کی پگڑی اُچھالنے کا موقع تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جو سیاستداں عزت کمانے کی فکر رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ عزت نہ خریدی جاسکتی ہے اور نہ ہی کسی بڑے عہدے سے ملتی ہے۔ اگر خرید لی جاسکتی تو عزت، رتبہ، دولت مندوں کی ملکیت یا لونڈی ہوتی۔ اگر عہدوں سے عزت ملتی تو صرف عہدیدار ہی معزز ہوتے۔ عزت کمائی جاتی ہے اپنے کاموں سے، خلوص سے، اخلاق سے اور اعلیٰ کردار سے اور حکمرانی کے فرائض کی دیانتدارانہ انجام دہی سے۔ جو سیاستداں اور انسان اپنے کاموں سے عزت حاصل کرتا ہے تو وہ زیادہ مدت تک دلوں پر راج راج کرتا ہے۔ ہر شخص کی عزت کے ترازو میں وزن الگ الگ اور اپنا اپنا ہوتا ہے۔ تلنگانہ میں کے سی آر کو اس وقت جو عزت ملی ہے وہ آندھرا کے چندرا بابو نائیڈو کے نصیب میں نہیں ہے۔ غریب ریاست کے چیف منسٹر کی عزت کسی رئیس شخص کی عزت سے زیادہ ہے۔ اس عزت کو برقرار رکھنا ہی کے سی آر کی اصل ذمہ داری ہے۔ زبان کوئی بھی احترام مانگتی ہے۔

اس میں سادہ پن ہوگا تو شوق سے سنی جائے گی، لوگ اس زبان پر بھروسہ بھی کریں گے۔ جب کسی چیف منسٹر اور ذمہ دار شخص کی زبان عوام سنتے ہیں تو نہیں یقین ہوجاتا ہے کہ اب ان کے مسائل حل ہوں گے۔ جب زبان کا احترام نہیں ہوگا تو پھر عوام کو مایوسی ہوگی، یہی مایوسی لیڈر کا زوال بنتی ہے۔ ٹی آر ایس حکومت ہو یا تلگودیشم حکومت اپنے عوام کے لئے کی جانے والی کوششوں پر تنقیدوں کا شکار ہورہی ہیں، اس لئے کہ یہ کوششیں حقیقت میں عوام تک نہیں پہونچ رہی ہیں۔ تنقیدوں کا مطلب و مقصد یہ ہوتا ہے کہ حکومت کو عوام کے مسائل سے آگاہ کرنا اور اہل اقتدار کو ان کی ذمہ داری بجا لانا ہوتا ہے مگر دُکھ اس بات کا ہے کہ محض شوق خود نمائی میں ایسے سیاستداں بھی ہیں جو اپنے چیف منسٹروں کی مدح سرائی کرتے ہوئے ہر روز حکومت کی شام غریباں منانے میں کمال درجے کی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ گمان گذرتا ہے کہ ان کے اندر ہٹلر کے وزیر اطلاعات کی روح تحلیل ہوگئی ہوجو بار بار جھوٹ اس اعتماد سے بولتا اور نشر کرتا تھا کہ اس پر سچ کا یقین ہونے لگتا تھا۔ ٹی آر ایس کے قائدین بھی اپنے لیڈر کی تعریفوں کے پُل اس طرح باندھ رہے ہیں کہ سچ کا گمان ہورہا ہے مگر اندر ہی اندر حکومت کی خرابیاں تیزی سے نظم و نسق کو سڑا رہی ہیں۔ عام آدمی کے اندر ناراضگی پیدا ہورہی ہے اور بغاوت کا جوالا مکھی کھل جائے تو حکومت کا تخت اُلٹ سکتا ہے۔ علاقائی حکومتوں کے ان بادشاہ سلامت پر مرکز کے راجہ نریندر مودی کی کڑی نظر بھی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ مرکز کا راجہ علاقائی بادشاہوں کی ناکامیوں کا کیا نوٹ لیتا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں حکومت کی خرابیوں کا مزید ذکر کروں‘ مرکز کی جانب سے کسی ٹیم کی آمد تک انتظار کرنا مناسب ہے۔ مرکز کی ٹیمیں کب آتی ہیں یہ آپ بہتر جانتے ہیں۔
kbaig92@gmail