کیپٹن ایل پانڈو رنگا ریڈی

ماضی کے جھروکے
ایم کے گاندھی کو
نظامِ سابع کا عطیہ
معزز قارئین کو شاید یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ موہن داس کرمچند گاندھی کو جنوبی افریقہ میں ایشیائی لوگوں کے تعلق سے وہاں کے ظالمانہ قوانین کے خلاف احتجاج و جدوجہد کرنے کیلئے میرعثمان علی خان مالی اعانت کیا کرتے تھے۔ عثمان علی خان ہی تھے جنھوں نے اورنگ آباد میں قیمتی 54 ایکڑ اراضی بھیم راؤ امبیڈکر کے نام کی۔ اُسی مقام پر امبیڈکر نے نہ صرف سکونت اختیار کرلی بلکہ وہاں ’ملند ایجوکیشنل سوسائٹی‘ قائم بھی کی۔ نظام سابع عثمان علی خان نے مشہور انڈین ملٹری اکیڈیمی واقع دہرہ دون کے قیام کیلئے فیاضانہ عطیہ بھی دیا تھا۔ چنانچہ حکام نے وہاں کی ایک عمارت کو نظام حیدرآباد سے موسوم کیا۔ اسی طرح انھوں نے دہرہ دون کے نامی گرامی ’Doon School‘ کیلئے بھی عطیہ دیا۔ اس اسکول کے ٹرسٹیز نے سارے ریزیڈنشل کامپلکس کو ’حیدرآباد ہاؤس‘ سے موسوم کیا، جہاں آنجہانی راجیو گاندھی نے اقامتی طالب علم کی حیثیت سے قیام کیا تھا۔
میر عثمان علی خان متعصب نہیں تھے اور اپنی وسیع النظری کیلئے مشہور ہوئے۔ چنانچہ انھوں نے مندروں کی دیکھ بھال کیلئے (بھی) رقمی منظوریاں کئے (بحوالہ فائل نمبر 77، فہرست نمبر 3، سلسلہ نمبر 224، آثار قدیمہ آندھرا پردیش )۔ ان مندروں کی تفصیلات یوں ہیں: یادگیرگٹہ مندر کیلئے 82,825 روپئے؛ سری رام باغ مندر کیلئے 50,000 روپئے؛ بھدراچلم مندر کیلئے 50,000 روپئے؛ سری بالاجی تروپتی کیلئے 8,000 روپئے۔میر عثمان علی خان فرقہ وارانہ مساوات برتنے والی شخصیت رہے اور اپنے اصطفائیت پسند افکار کیلئے معروف ہوئے۔ وہ روشن خیال حکمران تھے؛ جہاں انھوں نے مسلم ملازمین کو فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے چھ ماہ کی رخصت مع اُجرت کی گنجائش فراہم کی، وہیں انھوں نے ہندو ملازمین کو حسب خواہش بنارس، پریاگ اور اس طرح کے دیگر مقامات کو یاترا پر جانے کی سہولت بھی دی۔ اس ضمن میں ایک فرمان جاری کیا گیا (حوالہ : اے پی آرکائیوز فائل نمبر 84، لِسٹ نمبر 1، سیرئل نمبر 119)۔
نظام سابع عثمان علی خان نے ہی سَر جان مارشل، ڈائریکٹر جنرل، آرکیالوجی، گورنمنٹ آف اِنڈیا کو ایک مکتوب مورخہ 5 ؍ اکٹوبر 1913ء روانہ کرتے ہوئے ان سے خواہش کی تھی کہ اجنتا کی نقاشیوں کا تحفظ کیا جائے اور وہ اس کا خرچ دیں گے۔ اُنھوں نے بھنڈارکر اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، پونا (اَب، پونے) کیلئے رقمی بندوبست کیا تاکہ سنسکرت زبان کو فروغ دیا جائے اور مہابھارت کو شائع کیا جاسکے۔ اس اشاعت کیلئے 2,500 روپئے کی سالانہ گرانٹ برائے دس سالہ مدت کا اعلان کیا گیا۔ انھوں نے ہی گوپال کرشنا گوکھلے یادگاری اسکالرشپ شروع کی، جو بلالحاظ مذہب حیدرآباد کے لائق و قابل طلبہ کو حصولِ اعلیٰ تعلیم کیلئے دی گئی۔