کیوں نہ ہم میلاد النبیؐ کی خوشیوں میں مظفر نگر کے متاثرین کو شامل کریں

حیدرآباد۔/31 دسمبر(سیاست نیوز) ایک مسلمان جہاں بہ حیثیت انسان، اشرف المخلوقات ہے تو وہیں بہ حیثیت امہ، خیر الامت ہے۔ یہ دو مناصب ایسے ہیں جو ہم پر بہت سی ذمہ داریاں عائدکرتے ہیں۔ بہ حیثیت اشرف المخلوقات ہماری دیگر ذمہ داریوں کے علاوہ ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ معاشرہ میں عدل قائم کرے اور ظلم کا طاقت کے ذریعہ سدباب کریں اور بہ حیثیت خیرالامت ہم پر دیگر ذمہ داریوں کے علاوہ ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ ہم ہر بندگان حق کے تئیں خیر خواہ رہیں۔ اشرف المخلوقات اور خیر امت کی حیثیت سے اگر ہم اترپردیش کے مظفرنگر فساد زدگان کے تئیں اپنے رویہ کا محاسبہ کریں تو یقیناً ہم نے ان دونوں مناصب کا فریضہ ادا نہیں کیا ہے۔ فساد کے دوران ہمارے دینی بھائیوں کو اپنی جانوں کا نذرانہ اور بہنوں کو اپنی عصمت کی قربانیاں دینی پڑیں۔ فساد تو تھم گیا مگر ہزاروں مسلمان بے گھر ہی نہیں شہر بدر ( یعنی گاؤں بدر) ہوگئے ہیں۔ سینکڑوں خاندان اپنے گاؤں واپس جانے سے قاصر ہیں جہاں ان کی زندگیوں کی متاع عزیز گھر اور زمین پر اغیار نے قبضہ جمائے رکھا ہے اور یہ لوگ مختلف ریلیف کیمپوں میں پناہ گزیں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، جنہیں نہ ہی کڑاکے کی سردی میں چہاردیواری میسر ہے اور نہ ہی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے روزگار کے مواقع دستیاب ہیں۔

ان ریلیف کیمپس میں ہزاروں لوگ، امداد پر اکتفا کئے ہوئے ہیں۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہم نے اپنے ہی ملک کے ایک حصہ میں بسنے والے دینی بھائیوں کو بے یار و مددگار چھوڑدیا ہے۔ کچھ مسلم تنظیموں اور چند مخیر حضرات نے ان بے بس و لاچار لوگوں کی مدد کا بیڑہ اٹھایا ہے اور کسی حد تک ان کی امداد کی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ بہت ہی حقیر ہے جبکہ ہمارے دیگر ابنائے وطن ہم سے کچھ زیادہ ہی ان کی مدد کررہے ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہم حیدرآبادیوں پر کچھ زیادہ ہی عنایت رہی ہیکہ ہم اقصادی طور پر مستحکم اور آسودہ حال ہیں اور ہم میں دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ کچھ زیادہ ہی ودیعت کیا گیاہے، یہی وجہ ہیکہ ملت اسلامیہ ہند پر جب کبھی کوئی افتاد آن پڑتی ہے تو ہم دوسرے صوبوں کے مقابل کچھ زیادہ ہی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر اس بار شائد ہماری توجہ مظفر نگر کے بے گھر ہوجانے والوں کی طرف زیادہ مبذول نہیں ہوئی مگر اب وقت آچکا ہے کہ ان کی کھل کر امداد کی جائے۔ اتفاق سے یکے بعد دیگر دو ایسے متبرک اسلامی مہینے آنے والے ہیں جو ہمارے لئے فرط و انبساط اور خیر کیلئے ماہ صیام کی طرح فراخدلی کا مظاہرہ کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ماہ ربیع الاول تو وہ متبرک مہینہ ہے جس میں محسن انسانیت نبی آخری الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی ہے جو مسلمانوں کیلئے ان کی جان و مال سے زیادہ عزیز ہے۔ اہل اسلام کیلئے یہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبت و وارفتگی اور آپ ﷺ کے پیام انسانیت کے تئیں اپنے عہد کی تجدید کا موقع ہے۔ اس ماہ مبارک میں ہم دل کھول کر خرچ کرتے ہیں اور میلادالنبی ﷺنہایت ہی عقیدت و جوش سے مناتے ہیں۔ کیوں نہ اس سال ہم میلادالنبیﷺ کی خوشیوں میں مظفر نگر کے فسادزدگان کو بھی شامل کرلیں اور انہیں بھی سوغات میلادالنبی ﷺ سے مستفیض کریں؟ یہ بھی ایک حقیقت ہیکہ ہم حب رسولﷺمیں اپنے اخراجات پر کنٹرول نہیں کرپاتے ہیں۔ اس کے بعد والا مہینہ بھی ہمارے لئے خاص ہے چونکہ اس ماہ میں سید الاولیاء حضرت سید میراں محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ کی ولادت باسعادت ہوئی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس مرتبہ ہم جشن میلادالنبی ﷺ اور میلاد حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کو سادگی سے منائیں اور جو کچھ بھی ہم سے ہوسکتا ہے

متاثرین فساد کی امداد میں خرچ کردیں۔ اگر ہم تبذیر یعنی فضول خرچی سے بچ جائیں تو ہم اپنے رب اور اس کے محبوب حضرت محمدﷺکی خوشنودی حاصل کرنے والے بن جائیں گے۔ قرآن مجید میں سورۃ الاعراف میں رب کائنات یہ تاکید فرماتا ہے ’’ اے بنی آدم! ہر صلوٰۃ کے وقت اپنے تئیں مزین کیا کرو اور کھاؤ اور پیئو اور بے جا نہ اڑاؤ کہ اللہ بے جا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ (7:31 ) اسی طرح سورۃ بنی اسرائیل؍الاسراء میں تاکید فرماتا ہے ’’اور رشتہ داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو اور فضول خرچی سے مال نہ اڑاؤ۔ کہ تبذیر (فضول خرچی) کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا (ناشکرا) ہے۔‘‘ (17: 26, 27 )۔ ان احکام کی روشنی میں اگر ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو یقیناً ہم اپنے آپ کو شیطان کا بھائی پائیں گے مگر فضول خرچی سے پرہیز کرتے ہوئے جو کچھ پس اندازی کرتے ہیں وہ مظفر نگر کے متاثرین کی امداد کیلئے دے دیتے ہیں تو یقیناً ہم اپنے رب کا قرب حاصل کرنے والے بندوں میں شامل کرنے کی التجا کرنے کے مستحق تو بن جاتے ہیں۔ مولانا مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ نے بھی متاثرین مظفر نگر کی اعانت کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ اس ماہ مبارک میں میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشیوں میں ہمیں اپنے دیگر بھائیوں کو بھی شامل کرنا چاہئے اور ان کی فراخدلی سے مدد کرنا چاہئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ غریبوں اور یتیموں کی مدد کی ہے اور ان کا خیال رکھا ہے اسی لئے ہمیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے پریشان حال مسلمانوں کی مدد کرنا چاہئے۔ مولانا مفتی عبدالمغنی مظاہری صدر سٹی جمعیتہ علماء ہند نے کہا کہ یقیناً اگر ہم ان دو مبارک مہینوں میں خیر کے کاموں کیلئے خود کو وقف کردیں گے تو ایک بڑی رقم جمع کرسکتے ہیں جو کروڑوں میں ہوسکتی ہے۔ ان رقومات کو ہم ان مفلوک الحال مسلمانوں کی بازآبادکاری اور امداد پر خرچ کرسکتے ہیں جو ہماری مدد کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان دو مہینوں میں ہم طعام عام کا نظم کرتے ہیں جبکہ یہاں پر ہمارے کھانوں کے لوگ زیادہ محتاج نہیں مگر مظفر نگر کے متاثرین یقیناً فی الوقت محتاج ہیں شائد جن میں بیشتر ایسے لوگ بھی ہوں گے جو فساد سے قبل اپنے علاقہ کے متمول ترین لوگوں میں شمار کئے جاتے رہے ہوں گے۔

انہوں نے نوجوانوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بہترین موقع ہے کہ ہم فضول خرچی سے بچ کر ایک نیک کام میں اپنا سرمایہ لگاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے نوجوان یا تو خود جمع کردہ رقم اپنے ہاتھوں سے متاثرین تک پہنچاسکتے ہیں یا پھر وہاں کام کرنے والی کسی معتبر تنظیم کے حوالہ کرسکتے ہیں اور ہم متحدہ طور پر ایسا کچھ کرتے ہیں تو ہماری امداد کروڑ دو کروڑ سے کم نہیں ہوسکتی جس کے ذریعہ ہم انہیں اپنا کاروبار شروع کرنے یا گھر بنانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ اسلامک اکیڈیمی آف کمپریٹیو ریلیجنس برادرم آصف الدین محمد نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ کی ایک خصوصی صفت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ساری امہ ایک جسم کی مانند ہے اگر ایک حصہ میں چوٹ لگتی ہے تو جسم کے دوسرے اعضاء درد کو محسوس کرتے ہیں۔ ہمارا یہ شیوہ رہا ہے کہ ملک کے کسی خطہ کے مسلمانوں پر آفت ٹوٹ پڑتی ہے تو دیگر علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کو ان سے ہمدردی ہوتی ہے، ان کی مدد کیلئے آگے آتے ہیں اور ان کے حق میں دعا کرتے ہیں۔ برادرم آصف الدین محمد نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجر اور انصار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجعمین کے مابین مواخاۃ کروایا تھا۔ مدنی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجعمین نے اخوت کی ایسی مثال قائم کی کہ اپنے مواخاتی بھائی کیلئے نہ صرف جائیدادوں کا حصہ دیا بلکہ ایک صحابی رسولﷺ نے اپنے مہاجر بھائی سے اس موقع پر یہ پیشکش کی کہ ان کی دو بیویاں ہیں اور وہ اپنی ایک بیوی کو طلاق دے دیں گے تاکہ وہ اس سے بعد عدت نکاح کرلیں۔ ہم اتنا تو نہیں کرسکتے مگر چند روپیوں کا تعاون تو کرسکتے ہیں۔ ہماری حقیر سی امداد اس وقت ان پناہ گزینوں کی زندگی کی رمق کو واپس لاسکتی ہے۔