کیا ہڑتالوں، بند کا دور پھر شروع ہوگا؟

تلنگانہ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
سیکشن 8 پر اپوزیشن پارٹیاں بے سرا راگ الاپتے جارہے ہیں جبکہ تلنگانہ خاص کر حیدرآباد میں اقتدار و طاقت کے اس مافیا گروپ کے اندر جمہوریت کی بجائے موروثیت کا کوڑھ ہے۔ تلنگانہ بنانے کیلئے مرکز نے ای آرگنائزیشن قانون بنایا ہے۔ اس کو آئین کی کتاب سمجھ کر خود پڑھتے ہوئے تصدیق کرتے جارہے ہیں کہ آندھراپردیش ای آرگنائزیشن قانون لطیفوں کے مجموعہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ حیدرآباد کا لاء اینڈ آرڈر کا کنٹرول گورنر کو دینے کی مخالفت کرتے ہوئے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے تلنگانہ و حیدرآباد کے تقدس کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کریں گے۔ اس سلسلہ میں پھر ایک بار بھوک ہڑتال یا مرن برت شروع کرنے کی بھی دھمکی دے چکے ہیں۔

چیف منسٹر نے تلنگانہ کے حصول اور اس کے بعد تلنگانہ کی ترقی کیلئے جو منصوبے بنائے ہیں اس میں خاطرخواہ کامیابی بھی مل رہی ہے۔ 12 جون کو شروع کردہ تلنگانہ کی نئی صنعتی پالیسی نے اس پسماندہ ریاست کو ہندوستان میں پہلی ریاست کا درجہ دیا ہے، جس سے ایک مقررہ وقت کے اندر صنعتکاروں کو اپنے پراجکٹس کی منظوری حاصل ہورہی ہے۔ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کو راغب کرنے والی اس پالیسی کے توقع کے مطابق نتائج برآمد ہوتے ہیں تو اس سے بیروزگار نوجوانوں کو فائدہ ہوگا۔ تلنگانہ کی ترقی اور حیدرباد کی خوشحالی سے درپردہ استفادہ کرنے والی سیاسی طاقتیں اب حکومت تلنگانہ سے متصادم ہونا چاہتی ہیں تاکہ اپنے سیاسی مفادات کو حاصل کرسکیں۔ تلگودیشم کے بارے میں یہی کہا جارہا ہے کہ اس نے سیکشن 8 کے بہانے حیدرآباد کا کنٹرول گورنر کے تفویض کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ اس طرح کی مہم جوئی کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ اپوزیشن کا یہ پروپگنڈہ بھی بے بنیاد، غیرمنطقی اور جھوٹ کا پلندہ بن جائے گا کہ حیدرآباد کا لاء اینڈ آرڈر بگڑ رہا ہے۔ سریلے پن سے جھوٹ بولنے کے ایکسپرٹ اقتدار میں آنے کوشاں ہیں۔ اب تک تلنگانہ کو بدترین اندھیروں میں ڈکھیل رکھنے والے آندھرائی قائدین کو حیدرآباد کی رہائش اتنی عزیز بنادی ہے کہ وہ شہر حیدرآباد کو چھوڑ کر جانے تیار نہیں ہیں بلکہ اس کے امور میں مداخلت کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ حیدرآباد کے تعلق سے کیا جانے والا مفاد پرستانہ عمل کامیاب ہوجائے حکومت تلنگانہ کو اپنی گرفت مضبوط رکھنی ہوگی۔

بلاشبہ ٹی آر ایس کو ہر گذرتے دن کے ساتھ مضبوطی حاصل ہورہی ہے۔ کانگریس تلگودیشم کے کئی اہم قائدین اس کی صف میں شامل ہورہے ہیں۔ آنے والے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کی تیاری کرتے ہوئے ٹی آر ایس کو اس سال کے اختتام تک حیدرآباد بلدی حلقوں میں اپنا اثر پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ شہر میں ٹی آر ایس کا اثر نہیں کے برابر ہے۔ سکندرآباد سے کانگریس کی سابق رکن اسمبلی جئے سدھا نے بھی آئندہ ماہ جولائی میں حکمراں پارٹی ٹی آر ایس میں شمولیت کا ارادہ کرلیا ہے۔ جے سدھا دراصل وائی ایس آر کانگریس میں شامل ہونے میں دلچسپی رکھتی تھیں لیکن 2014ء اسمبلی انتخابات میں ناکامی کے باعث انہوں نے اپنے سیاسی عزائم کو فوت ہونے نہیں دیا۔ اپوزیشن قائدین مسلسل چیف منسٹر کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں تو اس کا مطلب صاف ہیکہ چندرشیکھر راؤ کی مقبولیت اور کارکردگی میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ایسے میں اٹارنی جنرل مکل روہنگی کا گورنر ای ایس ایل نرسمہن کو دیا گیا مشورہ وقت آنے پر کتنا اہم ہوگا یہ غیریقینی ہے۔ بہرحال تلنگانہ میں مسلمانوں کو ان کا جائز مقام دینے میں ہنوز ناکام ٹی آر ایس کو مختلف گوشوں سے اتنا زیادہ دباؤ ہیکہ وہ عوام سے کئے گئے وعدوں کو بھی پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ بجٹ کی نوعیت کچھ بھی ہو مگر حکمراں کو انتخابات سے مکرنا نہیں چاہئے۔ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کا فیصلہ کب ہوگا اس کا انتظار کرنے والے سیاسی قائدین فی الحال حکومت کے پٹھو بن کر مسلمانوں کے مفادات کا سودا کریں گے۔

پہلے کہا جارہا تھا کہ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن حکومت رکاوٹ نہیں سمجھتی ہے تو اعلان کرنے میں دیر کررہی ہے۔ اسی طرح کے سی آرکی پالیسیوں پر ناراض بعض مسلم قائدین نے حکومت سے درپردہ دوستی کرکے اب حکومت سے ناراضگی کو بھی ختم کرلیا۔ اس سے مسلمانوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ مسلمانوں نے ہمیشہ حکومتوں کا بھروسہ کرکے آس لگائے بیٹھے رہے ہیں۔ حکومتوں کے سامنے مسلمانوں کا حال اس بھوکے شخص کی طرح ہورہا ہے جو ایک بستی میں اپنی بھوک مٹانے کیلئے لوگوں سے کچھ کھانے کو مانگتا رہا مگر کسی نے کچھ نہیں دیا۔ بیچارہ رات کو ایک دکان کے باہر فٹ پاتھ پر لیٹ گیا… صبح آکر لوگوں نے دیکھا تو وہ مر چکا تھا۔ اب ’’اہل ایمان‘‘ کا جذبہ ایمانی بیدار ہوا۔ بازار میں چندہ کیا گیا اور مرحوم کے ایصال ثواب کیلئے دیگیں چڑھا دی گئیں… یہ منظر دیکھ کر ایک صاحب نے کہا ’’ظالمو! اب دیگیں چڑھا رہے ہو… اسے چند لقمے دے دیتے تو یہ یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہ مرتا۔ سرکاری ملازمین میں ایسے بھی مسلم ہیں جن کے کئی مسائل ادھورے ہوتے ہیں۔ ان کے وظالف کی فائل گرد کی نذر ہوتی ہے۔ حکومت کسی مظلوم مسلم کے خاندان کو امداد دینے کا اعلان کرتی ہے تو بروقت ادا نہیں کرتی۔ کوئی شخص حکومت کے سامنے اپنے مطالبات کی یکسوئی یا تنخواہ کے بقایاجات کیلئے بیوی بچوں کے ساتھ مظاہرے کرتے رہتا ہے تو حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ تنگ آ کر اس نے خودسوزی کرلی تو دوسرے ہی روز ساری رقم ادا کردی گئی۔ مسلم معاشرہ کا حال یہ ہوگیا ہے کہ مطالبات کی صرف عادت ڈال دی گئی۔ حصول مطالبات کی کوشش اپنے لیڈروں کے سپرد کردی گئی، جس کے نتیجہ میں لیڈروں نے مسلمانوں کے مطالبات کا برسراقتدار حکومتوں سے سودا کرلیا اور اپنی تجوریاں بھرلی۔ کئی اعلیٰ منصب اور دیگر فوائد حاصل کرلئے۔ مسلمانوں کو صرف بھروسہ ہی دیا گیا۔ مسلمانوں کے جذبہ و جوش ایمان میں دن نہ دن پختگی آرہی ہے اور بسااوقات یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ہم ’’جوش ایمان‘‘ میں ایک ایک گلی میں تین، تین۔ چار، چار مساجد بنادیتے ہیں۔ انہیں خوب سجا دیتے ہیں

لیکن اس گلی میں کئی غریب رات کو بھوکے سوتے ہیں۔ ٹی آر ایس نے اپنی انتخابی مہم میں تلنگانہ کے مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے عدم تحفظ کے احساس کو دور کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اب وہ خود اپنی حکومت کے عدم تحفظ کا شکار ہے۔ تلگودیشم کے سامنے اس نے اپنا قد بڑھا تو لیا ہے مگر تلگودیشم قائدین کی چالاکیوں سے بچنے کی ترکیب نہیں سیکھی، جس کے نتیجہ میں ٹی آر ایس حکومت کیلئے گنتی کے دن بتائے جارہے ہیں۔ آندھرا کا میڈیا کے سی آر کو ایک نااہل ایڈمنسٹریٹر ثابت کرنے کوشاں ہے۔ بلاشبہ ایک سیاستداں اور ایک ایڈمنسٹریٹر کے درمیان بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ کے سی آر نے بحیثیت سیاستداں کامیابی کے تمام تمغے حاصل کرلئے ہیں لیکن بحیثیت چیف منسٹر ایک سال کی حکمرانی میں وہ عدم تجربہ کار ثابت ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے لوگ انہیں ایک نابالغ ایڈمنسٹریٹر سمجھ رہے ہیں۔ وہ اپنی حکومت اور پالیسیوں پر توجہ دینے کے بجائے تلنگانہ میں تلگودیشم کو کمزور بنانے کی کوششوں پر ہی طاقت، وقت صرف کررہے ہیں۔ اس لئے ریونت ریڈی کے خلاف اسٹینگ آپریشن (خفیہ جاسوسی) کرواکر چندرا بابو نائیڈو کو پھانسنے کی کوشش شروع کردی۔ اگر ان کا رویہ یوں ہی برقرار رہے تو پھر مرکز کی جانب سے شہر حیدرآباد میں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ گورنر کے سپرد کردیا جائے گا۔ ایسا ہوجاتا ہے تو تلنگانہ میں پھر سے احتجاجیوں، دھرنوں، بند کے دور شروع ہوں گے۔ بند، ہڑتال، دھرنوں سے ترقی کی رفتار ٹھپ ہوگی اور آندھرائی قیادت اپنے مقصد میں کامیاب ہوگی جو یہی چاہتی ہے کہ کے سی آر حکومت کے امور انجام دینے سے زیادہ ہڑتالوں اور بند منانے میں وقت ضائع کریں۔
kbaigy2@gmail.com