کیا کوئی کسی کو سمجھا سکتا ہے …؟

تلنگانہ ؍اے پی ڈائری        خیر اللہ بیگ
ایرانی چائے پی کر اب لوگ ویٹر کو چلر دینے کے بجائے پلاسٹک کا ٹکرا دے کر اپنا بل ادا کریں گے۔ کرنسی کی منسوخی کے بعد ملک بھر میں رقمی لین دین کو کم کرنے کی مہم کا اثر دھیرے دھیرے بڑھتا جارہا ہے۔ تجارت پیشہ لوگ بینک کے کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سویپ کرنے والی مشینس رکھنے لگے ہیں۔ شہر حیدرآباد کی ایرانی چائے یا ایرانی کیفے دیگر رسٹورنٹس کے ہر ویٹر کے ہاتھ میں کرنسی کے بجائے کارڈ سویپ کرنے والی مشین ہوگی۔ ترکاری دکان سے لیکر ہر بڑے چھوٹے تاجر کیلئے یہ مشین رکھنا لازمی ہورہا ہے۔ کیش لیس لین دین میں تلنگانہ کو آگے لے جانے کی کوشش کے حصہ کے طور پر ہر گاؤں میں عوام کے اندر سیل فون کارڈ سویپ کرنے کی تربیت دی جاکر ان کا حوصلہ بڑھایا جارہا ہے۔ فیس بک اور انٹرنیٹ، واٹس اپ، فیس ٹائم کی اس دنیا میں موبائیل سہولت کی مانگ بڑھادی گئی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سیل فون بنانے والی کمپنیوں اور اسکٹرم حاصل کرنے والی کمپنیوں نے 4G کو عام کرنے سیل فونس اور سم کارڈ میں آسانی سے کم قیمت میں بلکہ مفت فراہم کرنا شروع کردیا ہے۔ مرکزی حکومت کے نوٹوں کی منسوخی فیصلہ کے پیچھے یہی بڑا گھوٹالہ ہے کہ ملک کی بڑی سیل فون کمپنیوں کا کاروبار زبردست طریقہ سے فروغ پاچکا ہے۔ انٹر یور سیل کی شرح میں 25تا 30فیصد اضافہ ہوا ہے۔ لوگ دوسری روز مرہ کی ضروری اشیاء کی خریدی سے زیادہ سیل فون موبائیل فون خریدتے دیکھے جارہے ہیں۔ آن لائن سیل بھی بڑھ رہا ہے۔ ابتدائی دنوں میں مارکٹ کے اندر سناٹا تھا اب لوگ اس کے عادی دکھائی دے رہے ہیں۔ پہلے سے ہی فیس بک، واٹس اپ کے عادی بن جانے والے افراد کے لئے پے ٹی ایم یا فون کے ذریعہ اپنے بل ادا کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ آنے والے دنوں میں کیش لیس لین دین ہی رائج ہوجائے گا۔ موبائیل فون انڈسٹری  یاڈی انڈین سیلولر اسوسی ایشن نے کہا ہے کہ اگرچیکہ کرنسی کی تبدیلی سے سیل فون کمپنیوں کا کوئی نہیں ہوا ہے مگر اس  فیصلہ نے ابتدائی دنوں میں فروخت پر اثر ڈال دیا تھا لیکن اب لوگ سیل فون خریدنے کے لئے دکان کا رُخ کررہے ہیں۔ اب ہر شہری کے لئے سیل فون رکھنا ضروری ہوجائے گا۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے عوام کو یہی مشورہ دیا ہے کہ اب انہیں اپنے بٹوے کو ترک کرکے موبائیل وایلٹ کا استعمال کرنا چاہیئے۔ ڈیجیٹل انڈیا کو ترقی دینے کے آئندہ چند ماہ میں ہر نوجوان کو اپنی جیب میں چمڑے کا بٹوہ یا پرس رکھنے کے بجائے موبائیل وائیلٹ رکھنا پڑے گا۔ 500 اور 1000 روپئے کی نوٹوں کی منسوخی کا وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ماہ قبل اعلان کیا تھا اس سے عام زندگی بری طرح متاثر رہی مگر عوام نے لاکھ پریشانیاں برداشت کرنے کو ترجیح دی لیکن حکومت کے خلاف اُف تک نہ کہا۔ آر بی آئی نے نئے نوٹ چھاپ کر بینکوں کو روانہ نہیں کئے۔ گھنٹوں لائین میں کھڑے عوام اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں، ان کے ہاتھوں میں سیل فون ہے اور اس پر ویڈیو گیمس، واٹس اپ، سب پوسٹس، فیس بک پر لائیک پیامات کرنے میں مصروف رہ کر اپنی باری میں لگے رہتے ہیں۔ لوگ سیل فون کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ہر کام اس کے بغیر ممکن نہیں ہوگا جس کی وجہ سے لوگوں کا حافظہ بھی کمزور ہوچکا ہے، ہرکام اور ہر ضرورت کے لئے سیل فون، انٹر نیٹ کی مدد لی جارہی ہے۔ پہلے لوگوں کو سینکڑوں نمبرات یاد رہتے تھے اب خود کا نمبر بھی یاد نہیں رہتا اس کے لئے سیل فون میں سرچ کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں کئی چٹکلے بنائے جارہے ہیں۔ لوگ مذاق میں مختلف لطائف بھی سنارہے ہیں اب فیس بک، وائی فائی اور دیگر ڈیجیٹل حرکتیں قبرستان میں بھی دکھائی دیں گی۔ ایک ادیب نے اس موضوع پر کہانی بھی لکھی ہے کہ ’’ میں بابا کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر مڑا تو ایک ’ آئی قبر‘ نظر آئی، اس پر کتبے کے بجائے  آئی پیڈ نصب تھا۔ پائینتی پر وائی فائی ڈیوائس لگی ہوئی تھی، چھوٹا مولر پنسل بیاٹریاں چارج کررہا تھا، میں نے اسکرین کو ٹچ کیا، مرحوم کا فیس بک پیج کھل گیا، مرحوم سوشیل میڈیا کا ماہر تھا، اس نے ایک سافٹ ویر بھی بنایا تھا جو ہر گھنٹے ان کی طرف سے ایک پوسٹ کرتا تھا، یہ سلسلہ ان کی موت کے بعد بھی جاری تھا، میں نے اپنے فون پر مرحوم کا پیج کھولا اور اس پر موجود سورہ فاتحہ لائیک کرکے چلا آیا۔‘‘ یعنی اس کا مطلب آنے والے دنوں میں لوگ قبرستان جائیں گے ضرور لیکن وہاں پہنچ کر سیل فون پر فیس بک پیج کھول کر فاتحہ نہیں پڑھیں گے بلکہ سورہ فاتحہ کی پوسٹ کو لائیک کرکے چلے آئیں گے۔ یہی ڈیجیٹل انڈیا ہوگا۔ شمشان گھاٹ میں بھی لوگ مردے کو سپرد آتش کرکے اشلوک پڑھنے کے بجائے سیل فون پر اس اشلوک کولائیک کرکے چلے جائیں گے۔ مندروں کو لوگ جانابند کریں گے کیونکہ گھر بیٹھے ہی ان کے عقیدہ کا مندر سیل فون کی ویڈیو کلپ پر آئے گا اور وہ سیل فون کو سامنے رکھ کر پوجا کرلیں گے اور کام پر نکل جائیں گے۔

مودی کے ڈیجیٹل انڈیا میں جوکچھ ہوگا یا لوگ قطار میں لگ کر خود کو بے بس ثابت کررہے ہیں وہ اس کہانی کے کردار کی طرح ہے ’’ بہت سال پہلے ایک بار واحد سے لڑائی ہوگئی میں بھی بچہ تھا اور واحد بھی ، لیکن میں سیدھا سادا بچہ تھا میری کتابوں سے دوستی تھی، واحد سیدھا سادا نہیں تھا اس کی محلے بھر کے شرارتی لڑکوں سے دوستی تھی، وہ دو تین لڑاکا لڑکے ساتھ لایا اور سب نے مجھے مار مار کے ادھ مرا کردیا، میں روتا ہوا گھر پہونچا، امی کو سنایا کہ واحد نے مجھے مارا ہے۔ امی نے مجھے چپ کرانے کوجھنجھنا نہیں بلکہ ایک قلم دیا، میں نے قلم سے ایک کہانی لکھی ، کہانی میں واحد کو مار مار کے ادھ مرا بنادیا۔‘‘ کرنسی تبدیلی کرنے والے نے لوگوں کی جو حالت کردی ہے یہ کہانی کے واحد کی طرح ہے اور اس کو کرنسی کی مار کھاکر روتے ہوئے بینکوں، اے ٹی ایم کی قطار میں لگے ہوئے ہیں، ان کے ہاتھ میں پلاسٹک کا کڑا ہے یا سیل فون کا آلہ جس میں وہ مشغول ہوکر واحد کی طرح اپنے شکار کی کہانی سناکر بٹن دباتے دباتے  کرنسی تبدیل کرنے والے کو کوس رہے ہیں۔

تلنگانہ کے عوام کو نوٹوں کی تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر جھیلنا پڑا ہے کیونکہ یہاں کے بینکوں کے لئے ضرورت کے مطابق کرنسی سربراہ نہیں کی جارہی ہے۔ نئے 500 کے نوٹ بھی تاخیر سے سربراہ ہوں گے۔لوگ کسی کا بال بیکا کئے بغیر ہی کرنسی خطرات، مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ یہ عوام کی منہ بولتی شکست یا ایک آمرانہ حکمراں کی کامیابی ہے۔ ذلت ، خواری، رسوائی وغیرہ منہ چڑھا رہی ہے۔ ا ن کا حکمراں اتنا جھوٹ بول رہا ہے تاکہ اس کے چاہنے والے لواحقین اور ماننے والے کم از کم وقتی طور پر مطمئن رہیں ۔ چونکہ لوگوں کا مزاج بدل گیا ہے۔ پہلے کوئی ایک دانت توڑ دیتا تو بدلے میں حریف کا پورا جبڑا توڑا جاتا تھا ۔ جبڑا توڑنے کیلئے مضبوط ہاتھ ہونا ضروری ہے ، جن ہاتھوں میں اب موبائیل آچکا ہوتو وہ ہاتھ جبڑا کہاں توڑ سکیں گے ۔ کرنسی کی تبدیلی نے بلند بانگ گونج ایسی کرخت ، قبیح کریہہ شرمناک مصیبت ڈال کردماغوں کو ماؤف کردیا ہے، اس لئے حود ہی اندر ہی اندر برہم ہوکر غصہ کو فوری پی جارہے ہیں۔ تھوکنے سے بھی ڈ ررہے ہیں کیونکہ اگر غصہ تھوک دیا جائے اور کسی نے دیکھ لیا تو لینے کے دینے پڑیںگے۔ قوم کا یہ اندوہناک واقعہ آسانی کے ساتھ شہری حقوق کو پامال کرتاجارہا ہے۔ ان پر یہ خیال غالب آرہا ہے کہ ڈیجیٹل انڈیا ایک اچھی تبدیلی ثابت ہوگا۔
kbaig92@gmail.com